اے- رحمان
وطن عزیز انڈیا یعنی بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی اور عظیم ترین جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ یہ دنیا کی دوسری سب سے خطیر آبادی والا ملک ہے بلکہ اس لیے کہ بھارتی آئین ایک مثالی آئین ہے جسے دنیا کے تمام بہترین آئین سامنے رکھ کر ان کی اعلیٰ ترین جمہوری خصوصیات سے مزین کیا گیا۔ برطانوی تسلط سے آزادی یقینی ہو جانے کے بعد آئین ساز اسمبلی تشکیل دی گئی جس کی کارروائی 9دسمبر1946کو شروع ہوئی اور اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا ’اس اسمبلی کے سامنے پہلا اور بنیادی مقصد ہے آئین کے ذریعے ایک ایسے آزاد ملک کا قیام جس میں بھوکے کو روٹی، ننگے کو کپڑا اور ہرشہری کو اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق پھلنے پھولنے اور ترقی کے مکمل ترین مواقع حاصل ہوں۔‘ اس طور ایک معاشرتی مساوات پر مبنی فلاحی ریاست کا تصور آئین ساز اسمبلی کے سامنے رکھا گیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آئین ساز اسمبلی نے دنیا کے بعض ترقی یافتہ جمہوری ممالک کے آئین کا بغور مطالعہ کرکے ان کی نمایاں اور اہم ترین جمہوری خصوصیات کو آئین ہند میں شامل کرنے کے لیے منتخب کیا۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ استفادہ تو برطانیہ کے روایتی (غیر تحریری) آئین سے کیا گیا جہاں سے پارلیمانی طرز حکومت، قانون کی حکمرانی، قانونی مساوات، قانون کا بلا تخصیص مساوی اطلاق، شہریت، عدالتی فرمان(Writs) اور بنیادی حقوق کا بذریعہ عدالت حصول جیسے تصورات لیے گئے۔ اس کے علاوہ امریکی آئین سے بنیادی شہری حقوق، احکامات و قوانین کی عدالتی نظر ثانی، آئین کے ناقابل ترمیم بنیادی ڈھانچے اور صدر جمہوریہ نیز ججوں کے مواخذے اور برخاستگی وغیرہ کے اصول و ضوابط، آئرلینڈ کے آئین سے ریاستی پالیسی کے رہنما اصول، کینیڈا کے آئین سے ملک کے وفاقی ڈھانچے اور مضبوط مرکزیت کا اصول، آسٹریلیائی آئین سے بین الصوبائی کاروبار، ساؤتھ افریقہ کے آئین سے ہنگامی حالات میں بنیادی حقوق کی معطلی، فرانس کے آئین سے بنیادی جمہوریہ (Republic)، آزادی مساوات اور بھائی چارہ ( جن کا آئین کی تمہید میں ذکر ہے) جاپان کے آئین سے ضابطۂ قانون کی لازمیت اور روس کے آئین سے معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی انصاف کے تصورات اخذ کیے گئے جو تمہید آئین میں مذکور ہیں اور جن پر آئین کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اتنے بہت سے آئین کا جوہر نکال کر اسے آئین ہند کی تعمیر و تشکیل میں استعمال کیا گیا اور ہمارا یہ مثالی آئین وجود میں آیا۔
موجودہ بی جے پی حکومت آر ایس ایس کے ایجنڈا کو نافذ کرنے کے لیے پابند عہد اور ہندو راشٹر کے قیام کے لیے پر عزم ہے۔ اس سلسلے کی پیش رفت قومی تعلیمی پالیسی میں تبدیلی اور تاریخ کی باز رقمی کے اعلان کے طور پرہو چکی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ آر ایس ایس کا متصورہ ہندو راشٹر موجودہ آئین کی روشنی میں ممکن نہیں۔ (حالانکہ حکومت اس سمت میں ایک نہیں کئی غیر آئینی اقدامات کر چکی ہے) لہٰذا موجودہ آئین کا قتل کرکے ہندو راشٹرسنودھان تشکیل دینے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ واضح ہو کہ اکتوبر2019 میں آر ایس ایس کے قومی جنرل سکریٹری سنیل امبیکر کے ذریعے تصنیف شدہ کتابRSS: Roadmaps for the 21st Century کی اشاعت عمل میں آئی تھی جس کا اجراممبئی میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کیا تھا۔ اس کتاب میں نئی قومی تعلیمی پالیسی اور ملک کی تاریخ کے نئے سرے سے لکھے جانے کے منصوبے کے ساتھ ساتھ واضح الفاظ میں کہا گیا تھا کہ ہندو راشٹر کا آئین منو سمرتی پر مبنی ہوگا۔ لہٰذا اب اس سلسلے میں کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ چند روز قبل پریاگ راج (الہ آباد) میں دھرم سنسد کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ ’ ہندو راشٹر سنودھان‘ کی ترتیب و تشکیل کا کام ایک سو اٹھائیس مختلف پنتھوں (مسالک) کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کرے گی جس کا کنوینر ڈاکٹر کامیشور اپادھیائے کو بنایا گیا ہے۔ قانون، دھرم شاستر اور قومی سلامتی کے ماہرین کی تین کمیٹیاں بنا ئی جا رہی ہیں جو اگلے 6 ماہ میں ہندو راشٹر کے مجوزہ آئین کا بنیادی خاکہ تیار کر لیں گی اور 2023 کے ماگھ میلے میں دھرم سنسد انعقاد کمیٹی ایک سنت سمیلن(اجتماع) کا انعقاد کرکے سنتوں اور عام بھکتوں کے سامنے اس آئین کا خاکہ پیش کرے گی۔(یاد رہے کہ پچھلے ماہ29 جنوری کو دھرم سنسد انعقاد کمیٹی نے ایک سمیلن منعقد کرکے بھارت کو ’ہندو راشٹر ‘لکھنے اور کہنے کی قرار داد منظور کی تھی) نئے مجوزہ ہندو راشٹر آئین کی نمایاں سرخیاں یہ ہوں گی۔ گرو کُل تعلیم لازمی ہوگی جس کے نصاب میں گیتا، رام چرت مانس اور منو سمرتی سمیت تمام ویدوں اور پرانوں کے خاص خاص اسباق شامل ہوں گے۔ تین سے آٹھ سال تک بچوں(لڑکوں اور لڑکیوں) کے لیے یہ بنیادی تعلیم لازمی ہوگی اور اس کے بعد ہی انھیں دوسرے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کی اجازت دی جائے گی۔ جہاں تک آئینی اداروں کا تعلق ہے تو ملک کے 543 انتخابی حلقوں سے سنسد (پارلیمنٹ) کے لیے نہیں بلکہ ’دھرم سنسد‘ کے لیے انتخابات ہواکریں گے۔ دھرم سنسد کی رکنیت کے لیے کم سے کم عمر25 اور رائے دہندگی(ووٹ دینے )کے لیے 16 سال ہوگی۔ کابینہ وزارت چندر گپت موریہ کی طرز پر ہوگی اور اس میں تحفظ، تعلیم اور علاج کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔ مسلمانوں کو معاشرتی عزت اور تحفظ دیا جائے گا لیکن انھیں ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ اسلامی جہاد کے خلاف جنگ عالمی پیمانے پر لڑی جائے گی۔ قابل غور ہے کہ 128 پنتھوں کے جو نمائندے آئین ساز کمیٹی میں شامل ہوں گے ان میں سکھ جین اور بدھ مسالک کو بھی شمار کیا گیا ہے جبکہ ان تینوں پنتھوں کے پیرو خود کو ’ہندو‘ قراردینے سے منکر ہیں۔ آئین یعنی ہندو راشٹر کے سنودھان کے لیے جو بنیادی اصول مقرر کیے گئے ہیں ان کا ذکر سنیل امبیکر کی مذکورہ بالا کتاب میں موجود ہے جس کے مطابق ایک ایسا ملک قائم کیا جانا مقصود ہے جس میں سب کچھ ’ہندو‘ اور صرف ہندو ہوگا۔ معاشرہ ذات کی تفریق اور تطبیق پر مبنی ہوگا اور ہر ذات اور طبقے کے حقوق و فرائض مختلف ہوں گے۔ معاشرتی تنظیمِ نو کے نام سے افضل اور ارزل طبقات ہوں گے جیسا کہ منو سمرتی میں مفصّل کیا گیا ہے،لیکن منو سمرتی کے وقتوں میں مسلمان نام کی کوئی قوم نہیں تھی اس لئے مسلمانوں کے لئے کوئی معاشرتی خانہ یا طبقاتی سطح کی تخصیص کرنا ممکن نہیں۔ لہٰذا اغلب ہے کہ مسلمانوں کو ارزل ترین طبقہ قرار دے کر انہیں دوسرے نہیں چوتھے یا پانچویں درجے کا شہری بنا دیا جا ئے گا (اگر ہندو راشٹر کے خواب نے حقیقت کا روپ اختیار کیا تو)۔موجودہ آئین کو سرے سے ہٹا کر اس کی جگہ اس قسم کے آئین کی تنصیب کرنا بادی النظر میں تو مشکل ہی نظر آتا ہے لیکن آر ایس ایس کے معروف العام ایجنڈے، دھرم سنسدوں کے انعقاد اور ہندو راشٹر سنوِدھان جیسے اعلانات پر حکومت کی مکمل خاموشی اس بات کی غماز ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اور منصوبہ بند طریقے سے کیا جا رہا ہے اسے حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو ببانگِ دہل کہتے پھرتے ہیں کہ ہندو راشٹر تو قائم ہو چکا بس آنکھوں کی سوئیاں باقی ہیں، ظاہر ہے اس سے ان کی مراد ہندو راشٹر کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی ہے۔۔۔ یعنی بھارت کے بیس کروڑ مسلمان! لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلمان ابھی تک خوابِ غفلت میں ہیں اور ہندو راشٹر کا اژدہا غیر محسوس طریقے سے آہستہ آہستہ جبڑے کھول رہا ہے۔ ایک دن ان 20 کروڑ مسلمانوں کو نگل جانے کے لئے۔
[email protected]