صلیبی جنگیں او راس کے نتائج

0

ریاض فردوسی
1096 سے لے کر 1291تک قریب 2 سو سالوں تک فلسطین اور مصر کی سرزمین پر یوروپی ممالک کی افواج اور ایوبی سلطنت اور بعد میں مملوک سلطنت کے مابین جنگ ہوتی رہی، جسے عیسائیوں کے عظیم مذہبی پیشوا Pope نے صلیبی جنگ (Crusade) کا نام دیا، کل ملاکر نو (9)صلیبی جنگیں ہوئیں۔
شہر فلسطین میں مسلمان، یہودی اور عیسائی رہتے ہیں، یہ شہر تینوں اقوام کے لیے مقدس شہر ہے، یہاں عیسائیوں کا مقدس گرجا گھر ہے جسے Holy Sepulchre کہتے ہیں، عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ جس مقام پر یہ گرجا تعمیر کیا گیا ہے وہیں پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پرلٹکایاگیا تھا، صلیبی جنگ کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ 1009 میں فاطمی خلیفہ حاکم بأمر اللہ نے Church of Holy Sepulchre کو مسمار کروادیا تھا حالانکہ صلیبی جنگ اس واقعہ کے بہت بعد قریب 2 سو سال بعد شروع ہوئی تھی، 1071 میں سلجوقی سلطان الپ ارسلان کی قیادت میں بازنطینی سلطنت کے خلاف جنگ ہوتی ہے اور اناطولیہ کے بیشتر علاقوں ہر سلجوقیوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔1076 میں سلجوقیوں کا یروشلم پر بھی قبضہ ہو جاتا ہے، عیسائی زایرین میں سے Peter the hermit نامی ایک شخص فلسطین سے واپس یورپ جاکر گھوم گھوم کر چاروں طرف عیسائیوں پر سلجوقی مسلمانوں کے ظلم و ستم کو بیان کرتا ہے۔ جس سے یوروپ کے عیسائیوں میں بدلہ لینے کا جذبہ پیدا یوتا ہے، اس کے بعد بازنطینی حکمران Alexios I پوپ Urban سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس کی حکومت کو سلجوقیوں سے بچائے۔ فرانس کے Clermont شہر میں ایک کونسل جو1095 میںمنعقد ہوئی، پوپ اربن پہلی صلیبی جنگ کا اعلان کرتا ہے، پوپ Urban II کے قول پر یورپ کے مختلف علاقوں سے عوام اور امراء بری اور بحری راستوں سے یروشلم کے لیے کوچ کرتے ہیں اور انکا مقصد ہے مسلمانوں کے قبضہ سے یروشلم کو آزاد کرانا، پہلی صلیبی جنگ میں عیسائیوں کو کامیابی حاصل ہوتی ہے اور چار crusader States قائم ہوتے ہیں: (1) کاونٹی آف اڈیسہ (2) کاونٹی اف ٹریپولی (3) پرنسپالیٹی آف انطاکیہ اور (4) کنگڈم آف یروشلم۔
امام الدین زنگی نے 1144 میں اڈیسا(Edessa) کا محاصرہ کیا اور اسے فتح کیا، جیسے ہی اڈیسا کے زوال کی خبر یورپ پہنچتی ہے ویسے ہی Pope Eugene lll دوسری صلیبی جنگ (1150-1147) کا اعلان کرتے ہیں،اس صلیبی جنگ میں فرانس کے بادشاہ Louis VII اور جرمنی کے بادشاہ Conrad lll شریک ہوتے ہیں، دونوں کی قیادت میں صلیبی افواج فرانس، ہنگری، قسطنطنیہ ہوتے ہوئے اناتولیہ پہنچتی ہیں اور اسکے مختلف مقامات پر صلیبیوں کی ترک مسلمانوں کے ساتھ جنگیں ہوتی ہیں، ترکوں کے مزید حملوں سے بچنے کے لیے لویس انطاکیہ (Antioch) اور وہاں سے ٹریپولی (Tripoli) روانہ ہو جاتا ہے، ادھر کونراڈ بھی قسطنطنیہ واپس ہو تاہے، اسی دوران لسبون (Lisbon) پرتگال سے صلیبیوں سے بھرا ایک جہاز یروشلم پہنچتا ہے اور وہاں کابادشاہ بالڈون (Baldwin) دمشق کے محاصرہ کی تجویز پیش کرتا ہے لیکن زنگی فوج دمشق کو صلیبیوں کے محاصرہ سے بچالیتی ہے، اور اس طرح دوسری صلیبی جنگ ناکامیاب ہو جاتی ہے۔
سال 1187 میں سرزمین فلسطین پر دو اہم تاریخی واقعات ہوتے ہیں، 4 جولائی 1187 کو جنگ حطین ہوتی ہے جس میں صلاح الدین ایوبی یروشلم کے بادشاہ Lusignan کی فوج کو شکست دیتے ہیں اور وہ گرفتار ہوتا ہے ،جسے بعد میں رہا بھی کر دیا جاتا ہے، لیکن رینالڈ (Reynald) کو (پیغمبر اسلام ؐ کی شان میں نازیباکلمات اور مسلمانوں پر بے انتہاظلم کرنے کے سبب ،رینالڈجب بھی کسی مسلمان کومارتا تھا تو کہتا جا،جا کر محمدؐ اور ان کے اصحاب کوبلالا،اب میں ان کوقتل کروںگا)سلطان ایوبی اپنے ہاتھوں سے قتل کرتا ہے، دوسرا واقعہ اسی سال1187ء میں یروشلم کا محاصرہ ہوتا ہے اور یہ دونوں واقعات تیسری صلیبی جنگ کے اسباب بنتے ہیں، Pope Gregory VIII کے اعلان پر انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ اول (Richard l) فرانس کے بادشاہ فلپ دویم (Philip ll) اور ہولی رومن ایمپیرر فریڈرک بارباروسا (Frederick Barbarossa) یروشلم کو مسلمانوں کے قبضہ سے آزاد کرانے فلسطین کے لیے مع لشکر روانہ ہوتے ہیں۔ فریڈرک بارباروسا جب اناتولیہ کے کونیا (Konya) شہر پہنچتاہے اور Saleph نامی دریا کو پار کرتاہے تو وہ ڈوب کر ہلاک ہو جاتا ہے، جس سے اس کی فوج کا ایک حصہ مایوسی میں اپنے وطن لوٹ جاتا ہے، صرف اس کا لڑکا فریڈرک VI (Frederick Vl) یروشلم کے لیے آگے کی طرف بڑھتا ہے۔ قریب ایک سال بعد فرانسیسی بادشاہ فلپ دویم اور رچرڈ اول ایک ساتھ بحری راستہ سے یروشلم کے لیے نکلتے ہیں، اپنے بحری سفر کے دوران رچرڈ سایپرس (Cyprus) کا جزیرہ فتح کرتا ہے اس کے بعد رچرڈ یروشلم پہنچتا ہے، سال 1191 میں صلیبیوں کا یکہ (Acre) اسکالون (Ascalon) اور جافا (Jaffa) سے شمال کی جانب ارسف (Arsuf) پر قبضہ ہو جاتا ہے، اس کے بعد رچرڈ اپنی فوج کو لے کر یروشلم کی طرف کوچ کرتا ہے، لیکن حکمت عملی میں اختلاف کی وجہ سے رچرڈ یروشلم پر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کرتا ہے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ ایک معاہدہ طے کرتا ہے، جس کے رو سے یروشلم پر مسلمانوں کا ہی کنٹرول رہے گا اور عیسائی زائرین غیر مسلح ہوکر یہاں زیارت کرتے رہیںگے، اس کے بعد رچرڈ واپس انگلینڈ لوٹ جاتا ہے۔ 1193 میں غازی صلاح الدین ایوبی کے انتقال کے بعد اس کا بھائی عادل اول ملک شام اور مصر کا سلطان منتخب ہوتا ہے اور وہ یروشلم کے بادشاہ کے ساتھ قریب چھ (6)سال کی جنگ بندی کا معاہدہ کرتا ہے، Pope Innocent lll سال 1202 میں چوتھی صلیبی جنگ (1204-1202) کا اعلان کرتا ہے ،لیکن اس موقع پر کوئی یورپی ملک کے بادشاہ اس کروسیڈ پر جانے کے لیے رضامند نہیں ہوتے ہیں۔ اس لیے فرانس کے مختلف علاقوں سے ایک فوج تیار کی جاتی ہے اور فیصلہ یہ کیا جاتاہے کہVenice سے بحری راستہ سے ہوکر اس بار مصر (Egypt) پر حملہ کیا جائے اور پھر وہاں سے یروشلم کا رخ کیا جائے، لیکن اس وقت کچھ ایسے غیر معمولی حالات پیدا ہو گئے کہ صلیبی فوج نے مصر جانے کے بجائے Adriatic Sea کے مغربی ساحل پر واقع Zara نامی ایک صلیبی صوبہ پر حملہ کر دیا اور لوٹ مار کرنے کے بعد پھر وہاں سے بازنطینی مملکت میں داخل ہو کر وہاں کے اپنے ہی ہم مذہب عیسائیوں کو ہی مارنے لگی اور بالاخر بازنطینی سلطنت کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی اور اس طرح چوتھی صلیبی جنگ بھی ناکام ہو گئی۔
عادل اول کے 1218 ء میں انتقال کے بعد ان کاایک لڑکا کامل مصر کا سلطان اور دوسرا لڑکا معظم ملک شام کا امیر منتخب ہوتا ہے، کامل کی خواہش یہ تھی کہ مزید مملکت کی توسیع نہیں کی جائے، بلکہ موجودہ مملکت کو استحکام بخشا جائے، اس لئے وہ چاہتا تھا کہ یورپ کے طرف سے مزید صلیبی جنگ کا آغاز نہ ہو، اس کے لیے اس نے یورپی ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کئے، سلطان کامل نے Mount Tabor کے پاس کچھ قلعے کی تعمیر شروع کی تاکہ یروشلم اور دمشق کے دفاع کو مزید مضبوط کیا جا سکے، Acre کے عیسائیوں کو سلطان کا یہ عمل پسند نہیں آیا اور اسکی اطلاع پوپ کو دی گی جس کے بعد Pope Innocent lll سال 1213ء میں پانچویں صلیبی جنگ (1221-1217) کا اعلان کرتا ہے اور ہدف وہی رہتا ہے، یروشلم کو مسلمانوں کے قبضہ سے آزاد کروانا، سال 1221ء میں صلیبی فوج مصر کے ایک شہر دامیاتا (Damietta) کا محاصرہ کرتی ہے، لیکن سلطان کامل دریائے نیل کا باندھ کھول دیتا ہے، جس سے میدان جنگ سیلاب زدہ ہو جاتا ہے اور صلیبیوں کو سرینڈر کرنا پڑتا ہے اور اس طرح پانچویں صلیبی جنگ بھی ناکام ہو جاتی ہے۔
1228 میں چھٹویں صلیبی جنگ (1229-1228) شروع ہوتی ہے اور اس جنگ میں Holy Roman Emperor فریڈرک دویم (Frederick ll) شریک تھا، اس جنگ میں کوئی خاص لڑائی نہیں ہوتی ہے، صرف فریڈرک اور مصر کے سلطان کامل کے مابین 1229 میں جافا کا صلح نامہ (Treaty of Jaffa) ہوتا ہے جس کے رو سے یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ آئندہ 10 سال تک کوئی جنگ نہیں ہوگی اور صلیبیوں کو یروشلم پر کنٹرول حاصل ہو گیا۔ سال 1238 میں سلطان کامل کی وفات ہوتی ہے، سال 1244 میں ان کافرزندسلطان صالح ایوب یروشلم کا محاصرہ کرتا ہے اور اسے اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے، اسی سال 17/18 اکتوبر کو غزہ کے قریب ہربیہ گاؤں کے پاس سلطان صالح ایوبی کی فوج اور اسکے باغیوں اور صلیبیوں کی اتحادی افواج کے مابین جنگ ہوئی، جس کو غزہ کی جنگ یا ہربیہ کی جنگ کہتے ہیں، اس جنگ میں قریب پانچ ہزار عیسائی سپاہیوں کا قتل ہوتا ہے، یہ واقعہ ساتویں صلیبی جنگ (1254-1248) کا سبب بنتا ہے اور Pope Innocent IV جنگ کا اعلان کرتا ہے، اس جنگ میں شامل ہوتے ہیں، فرانس کے بادشاہ لوئیس نہم (Louis lX) اسکا بھائی اور دیگر، سپہ سالار رکن الدین بائیبرس (Baibars) کی قیادت میں ایوبی فوج فرانسیسی فوج کو سال 1249 میں مصر کے منصورہ (Mansurah) کے مقام پر بھاری شکست دیتی ہے۔ فرانس کے راجہ Louis IX کوبندی بنایا جاتا ہے اور پھر بعد میں اسے رہا کر دیا جاتا ہے،رہائی کے بعد وہ اپنے امراء کے ہمراہ سال 1250ء میں مصر سے فلسطین کی بندرگاہ شہر یکہ( Acre) چلا جاتا ہے اور اس طرح ساتویں صلیبی جنگ بھی ناکام ہوتی ہے
صالح ایوبی سلطان کا سپہ سالار رکن الدین بائیبرس سال 1260 میں مملوک سلطان بنتا ہے اور وہ تخت نشینی کے ساتھ ہی فلسطین کے عیسائی آبادی والے علاقوں کا محاصرہ کرتا ہے اور اسے فتح کرتا ہے، سال 1268 میں مملوک سلطان انطاکیہ کا محاصرہ (principality of Antioch) کرتا ہے اور اسے جیت لیتا ہے اس طرح فلسطین میں ایک اور صلیبی مملکت انطاکیہ کا زوال ہوتا ہے، اسی کے ردعمل میں فرانس کا بادشاہ Louis IX اٹھویں صلیبی جنگ (1270) میں شریک ہونے کا عزم اور فیصلہ کرتا ہے، اس کے ساتھ جنگ میں شرکت کرتے ہیں لوئی کے بھائی اور انگلستان کے شہزادہ ایڈورڈ اول(Prince Edward l) جولائی 1270ء کو فرانسیسی بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ شمالی افریقہ کے ٹیونس کے کارتھیج (Carthage) نامی شہر میں خیمہ زن ہوتا ہے، لیکن وہاں کیمپ میں پیچس کی وبا پھیلنے سے Louis IX مر جانا ہے، اس کی موت کے ساتھ ہی یہ صلیبی جنگ بھی ناکام ہو جاتی ہے۔اس کے بعد انگلستان کا شہزادہ ایڈورڈ اول سال 1271 ء کو ٹیونس سے یکہ (Acre) پہنچتا ہے ، دوسری طرف اسی سال بایبر ٹریپولی (County of Tripoli) کا محاصرہ کرتا ہے ،لیکن بعد میں محاصرہ اٹھا لیتا ہے، انگلینڈ کے پرنس منگول فوج کے ساتھ ایک اتحاد کرتا ہے، بائیبرس اپنی ایک فوج کی ٹکری کو سایپرس کے جزیرہ پر حملہ کرنے کے لیے بھی بھیجتا ہے، ایڈورڈ اور سایپرس کے راجہ Hugh lll مملوک سلطان بایبر کے ساتھ 1271 میں دس سال (10)دس مہینے(10) اور دس دنوں(10) کے لئے جنگ بندی کا اعلان کرتا ہے اور نویں اور آخری صلیب جنگ کا خاتمہ ہو تا ہے اور پرنس ایدورڈ انگلستان واپس چلا جاتا ہے۔
سال 1289 میں مملوک سلطان قلاوون ٹریپولی کا محاصرہ کرکے اسے اپنے قبضہ میں لیتا ہے، اور اس طرح اس آخری صلیبی ریاست کا زوال ہوتا ہے، سال 1291ء میں Acre کا بھی زوال ہوتا ہے، یہ سب ہونے کے باوجود یورپ کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا ہے، کوئی صلیبی جنگ شروع نہیں ہوتی ہے ۔
صلیبی جنگوں کے نتائج !
صلیبی جنگوں کے مطالعہ سے کچھ باتیں نمایاں طور پر واضح ہوتی ہیں، صلیبی جنگوں میں یورپ کے بیشتر ممالک نے مسلمانوں کی حکومت کے خلاف جنگ کی، ایوبی سلطنت اور پھر بعد میں مملوک سلطنت ایک طرف اور دوسری طرف صلیبیوں کے اتحادی ممالک تھے، ایوبی سلطنت کو بغداد کی عباسی خلافت سے کوئی فوجی تعاون نہیں ملا، جبکہ یورپ ایک ساتھ مل کر مسلم حکومت کے خلاف جنگ کر رہے تھے، عیسائی عوام اور بادشاہوں کو پوپ جنگ پر جانے کے لیے آمادہ کر رہا تھا، جنگی اخراجات کے لیے لوگوں پر ٹیکس لگائے گئے، تیسری صلیبی جنگ کے لئے تو غازی صلاح الدین نے ٹیکس لگایا تو لوگ اپنی جائداد اور زمینیںفروخت کرکے اس Holy war میں شرکت ہوئے، بہرکیف اب دیکھتے ہیں کہ ان جنگوں سے یورپ کو کیا فائدہ پہنچا حالانکہ سرزمین فلسطین سے عیسائی ریاستوں کا مکمل صفایا ہو گیا اور ہزار سال تک مسلمانوں کا فلسطین اور یروشلم پر قبضہ ریا۔
عیسائی زائرین بحری راستہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش یروشلم آیا کرتے تھے، جب صلیبی جنگ شروع ہوئی تو لاکھوں کی تعداد میں یوروپ کے مختلف علاقوں جرمنی، فرانس، انگلینڈ سے لوگ پانی جہاز کے ذریعہ یروشلم پہنچتے اس لیے پانی جہاز کی مانگ میں کافی تیزی آئی، جس سے جہاز سازی صنعت (Ship building industry) کو کافی فروغ ملا۔
صلیبی جنگوں کی وجہ سے یورپ مختلف اقسام کے چیزوں سے متعارف ہوا اور مغربی ممالک میں بڑے پیمانے پر بہت سارے تجارتی سامانوں کی مانگ اور سپلائی میں اضافہ ہوا مثلاً شراب، چینی، کپاس، ریشم، مختلف اقسام کے سوتی کپڑے، مٹی کے برتن، شیشے کا سامان، مصالحے، دوایاں، خوشبو ،رنگ، مختلف اقسام کے تیل، کھجور، اناج وغیرہ، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ صلیبی جنگوں نے یوروپی ممالک کو دولت مند بنا دیا، شمالی اٹلی کے چند شہر خاص کر Venice, Genoa اور Pisa کو ان اشیاء کی تجارت و صنعت سے بہت فائدہ ہوا اور یوروپی تاجروں نے جو سرمایہ حاصل کیا اس کو صلیبی جنگوں میں خرچ کیا۔
صلیبی جنگوں نے یورپ کے عیسائیوں کو بیرونی ممالک میں سفر کرنے کا ایک موقع فراہم کیا، جس سے انکو اپنے ملکوں سے بہتر تہذیب دیکھنے کا موقع ملا، مغرب میں اس وقت بھی زندگی غیر مہذب تھی، اس وقت یوروپی گھروں میں عیش و آرام یہاں تک کہ ضروریات زندگی کے سامان بھی میسر نہیں تھے، یوروپی عوام کا تجربہ بہت ہی محدود تھا، جب وہ صلیبی مہم پر نکلے تو وہ ایک نئی دنیا میں داخل ہوئے، وہ ایک نئی آب و ہوا، نئی قدرتی چیزیں،اجنبی پوشاک، رہنے کے گھر اور رسمِ و رواج سے واقف ہوئے، مسلمانوں کے گھروں کے عیش و آرام کی بہت ساری چیزوں جیسے سوفا، توشک، جار، قیمتی پتھر وغیرہ سے ان کو واقفیت ہوئی۔صلیبی جنگوں سے پہلے مغربی عوام کی جغرافیائی معلومات بہت ہی محدود تھیں، لیکن اس کے بعد مختلف جغرافیائی خطوں کا سفر کرنے سے لوگوں کے جغرافیائی علم میں بہت اضافہ ہوا، عیسائی زائرین کو بحیرہ روم ایشیا اور افریقہ جیسے بر اعظموں کے بڑے حصوں کو جاننے کا موقع ملا، نئے علاقے کی دریافت اور تجارتی و صنعتی مفادات سے متحرک ہوکر یوروپی لوگ دنیا کی دریافت میں لمبے ،لمبے ،بحری سفر پر نکلنا شروع ہوئے، صلیبی جنگ کے آخری دور میں 1271 سے لے کر 1295 تک مارکوپولو (Marcopolo) نامی اٹلی کے ایک تاجر نے ایشیا براعظم کا سفر کیا اور چین میں 17سال گزارنے کے بعد وہ ایران اور قسطنطنیہ ہوتے ہوئے 24 سالوں کے بعد اپنے وطن Venice لوٹا، اسنے اپنے طویل سفر کے دوران جو کچھ بھی مشاہدہ کیا اسے اپنی کتاب The Travels of Marcopolo میں قلمبند کیا اور یہ وہ مشاہدات تھے جن سے یوروپ کے باشندے ناواقف تھے،مارکوپولو کا یہ سفر نامہ، کولمبس اور دیگر سیاحوں کو بحری سفر اور دنیا کی دریافت کرنے کے لیے بہت ہی متاثر کیا۔
qqq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS