کانگریس کا جی- تئیس

0

تاریخ کا دھاراموڑدینے کاتجربہ رکھنے والی ملک کی قدیم ترین سیاسی پارٹی کانگریس ان دنوں خود تاریخ بننے کی راہ پر ہے۔ پارٹی قیادت سے اختلاف بغاوت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔سرگوشیاں بلندباغیانہ لہجہ اختیار کرچکی ہیں۔ پارٹی قیادت کے ہر فیصلہ کو نقد و تنقیص کاسامنا ہے۔تازہ حرف گیری مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں بایاں محاذ اور نومولود انڈین سیکولر فرنٹ(آئی ایس ایف) کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر آنند شرما نے اتحاد کے فیصلہ پر کھلے عام نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ اتحاد کانگریس کے نظریات اور گاندھی، نہرو کے سیکولرزم کی روح کے خلاف ہے۔ اس مسئلہ پر کانگریس کی ورکنگ کمیٹی میں بات ہونی چاہیے تھی۔۔۔ لیکن اتحاد کا فیصلہ بالاہی بالا ہوگیا۔آنند شرما کی بات سے یہ واضح نہیں ہوپایا ہے کہ انہیں اعتراض کس بات پر ہے۔آیا ان سے مشورہ کیے بغیر بالا ہی بالا فیصلہ کیا جانا انہیں ناگوار گزرا ہے یا پھر وہ سرے سے انتخابی اتحاد پرہی معترض ہیں۔ صورتحال جو بھی ہو یہ بات تو سامنے آگئی ہے کہ کانگریس کا ایک بڑا طبقہ یہ نہیں چاہتا ہے کہ کانگریس انتخابی جیت کے امکانات کی طرف بڑھے۔ مغربی بنگا ل میں کانگریس کا بایاں محاذ اور آئی ایس ایف سے اتحاد کو متبادل سیکولر فرنٹ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس اتحاد سے ووٹروں کے سامنے ممتا بنرجی کی آمرانہ سیاست اور بھار تیہ جنتاپارٹی کی فرقہ وارانہ سیاست سے الگ ہٹ کرایک سیکولر متبادل سامنے آیا ہے۔28فروری کو کولکاتہ کے بریگیڈ پریڈ گرائونڈ میں اس سیکولر اتحاد کی ریلی میں امڈنے والی بھیڑ سے بھی یہی پیغام مل رہاہے۔ اب ایسے میںاس پر نکتہ چینی کو سیکولر اتحاد کی حوصلہ شکنی ہی سمجھاجائے گا۔لوک سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر اور مغربی بنگال پردیش کانگریس کے صدر ادھیر رنجن چودھری نے بجاطور پر کہا ہے کہ کانگریس کے ناقدین کے مقاصد غلط اور نیت میں کھوٹ ہے، ان کے مدنظر کانگریس کی محبت نہیں بلکہ کسی اور کوخوش کرنا ہے۔
مغربی بنگال میں کانگریس ترنمول کانگریس کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتاپارٹی سے بھی لڑرہی ہے۔ ایک طرف فرد کی آمریت پوری ریاستی طاقت کے ساتھ کھڑی ہے تو دوسری طرف فرقہ وارانہ سیاست۔ان حالات میں اپنے لشکر و سپاہ کو وسعت دینا بنگال کانگریس کیلئے وقت کی ضرورت تھی اور کافی غور وخوض کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا ہے۔
کانگریس میں باغی لیڈروںکا گروپ جوخو د کو G-23کہہ رہاہے،اس کے حالیہ بیانات اور عزائم کو دیکھاجائے تو بظاہر ادھیر رنجن چودھری کی بات درست نظرآرہی ہے کہ ان کی نیت میں کھوٹ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخاب ہونے والے ہیں، ضرورت اس بات کی تھی کہ ہر اختلاف کو الگ رکھ کر پوری دلجمعی اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ انتخابی حکمت عملی بنانی چاہیے تھی۔ انتخابی میدان میں اترکر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کاکام کرنا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے کانگریس میں پہلی صف کے یہ لیڈران قیادت میں تبدیلی کے نام پرکانگریس کوہی خاتمہ کی دہلیز پر پہنچارہے ہیں۔G-23خیمہ نے پارٹی ہائی کمان کے خلاف غلام نبی آزاد کی قیادت میں جموں و کشمیرسے ایک طرح کا اعلان جنگ بھی کردیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ کانگریس میں یہ باغیانہ تیور پہلی بار سامنے آیا ہو، G-23 سے منسلک کانگریس لیڈران پارٹی قیادت سے وقتاً فوقتاً اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے رہے تھے۔ سونیا گاندھی نے ان لیڈروں سے بات بھی کی تھی لیکن کوئی حل نہیں نکل پایا۔مگر جموں و کشمیر میں ان باغی کانگریسیوں نے جو لہجہ اپنایا ہے وہ پارٹی میںایک بڑی ٹوٹ پھوٹ کا اشارہ ہے۔ G-23خیمہ نے جموں میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کرکے پارٹی اعلیٰ کمان کو یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ کہا جارہاہے کہ راجیہ سبھا میں اپنی مدت پوری ہونے کے بعد غلام نبی آزاد کو پارٹی کی جانب سے دوبارہ موقع نہ دیے جانے کے فیصلے نے بغاوت کی اس چنگاری کو بھڑکانے کاکام کیاہے۔بظاہر یہ بات درست نظرآرہی ہے کیوں کہ پارٹی میں بغاوت کی اس نئی لہرکو غلام نبی آزاد ہی ہوا دے رہے ہیں۔پوری زندگی کانگریس کے دسترخوان سے نعمتیں سمیٹنے کے بعد اچانک انہیں پارٹی میں اندرونی جمہوریت ختم ہوچکی نظرآنے لگی ہے۔ ایک ذراسی کانٹے کی چبھن پر وہ بھری بہار کو کوسنے بیٹھ گئے ہیں اوراپنے مفاد کو اصلاحی قدم بتاکر پارٹی سے وفاداری کا دم بھی بھررہے ہیں۔اگر G-23کے نزدیک پارٹی، سیکولرزم اور گاندھی و نہرو کے نظریات کی اہمیت ہوتی تو وہ انتخاب کے اس موسم میں پارٹی قیادت سے پیکار کے بجائے عوام میں پارٹی کی ساکھ بحال کرنے کا کام کرتی۔اختلاف سے صرف نظر کرتے ہوئے پوری طاقت سے پانچوں ریاستوںکیلئے انتخابی حکمت عملی بناتی اور کانگریس کی جیت کے امکانات پر کام کیاجاتا۔یہ بے وقت کی راگنی چھیڑ کرکانگریس کی G-23نے نہ صرف پارٹی کو توڑنے کی سمت قدم بڑھایا ہے بلکہ ملک میں سیکولرطاقتوں کی حوصلہ شکنی بھی کی ہے۔اب بھی وقت ہے کہ وہ اختلاف فراموش کرکے پارٹی کی ساکھ کیلئے کام کریں، ورنہ کانگریس اگر تاریخ بن گئی توملک کے سیکولرزم کا نقصان ہوگا ہی مگر ساتھ ہی G-23کا دسترخوان بھی سمٹ جائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS