ملک کی ڈیڑھ سو سال قدیم سیاسی پارٹی کانگریس آج تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ایک ایک کرکے اس کے لیڈران دوسری پارٹیوں خاص کر بھارتیہ جنتاپارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران مختلف ریاستوں سے کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے177ارکان اسمبلی نے بھارتیہ جنتاپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔اب اگلی باری پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی بتائی جارہی ہے۔ ہر چند کہ کیپٹن نے بی جے پی میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے لیکن بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے ان کی ملاقات کو بی جے پی میں شامل ہونے کا ریہرسل ہی مانا جارہا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے بدھ کے روز وزیر داخلہ سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور ٹھیک اس کے اگلے دن جمعرات کو وہ اچانک قومی سلامتی کے مشیر(این ایس اے) اجیت ڈوبھال سے بھی ملنے پہنچ گئے۔ان سب کے باوجود کیپٹن کا اصرار ہے کہ وہ کانگریس چھوڑ ضرور رہے ہیں لیکن وہ بی جے پی میں بھی نہیں جائیں گے۔امت شاہ سے اپنی ملاقات کا واضح سیاسی مقصد بتانے کے بجائے وہ اسے کسان تحریک کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مرکزی وزیرداخلہ سے ان کی ملاقات میں کسانوں کی تحریک کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوااور ان پرزور دیا کہ وہ فوری طور پر تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرکے، ایم ایس پی کی گارنٹی اور پنجاب میں فصلوں کی تنوع کی حمایت کرتے ہوئے اس بحران کو حل کریں۔لیکن قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کے ساتھ ان کی ملاقات کے بعد قیاس آرائیوں نے زور پکڑلیا ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر سب ٹھیک ہو گیا تو وہ بی جے پی میں شامل ہو سکتے ہیں اور ساتھ ہی پارٹی انہیں کوئی بڑا عہدہ بھی دے سکتی ہے۔ شایدبی جے پی مرکزی کابینہ میں بھی جگہ دے کر انہیں وزیرزراعت بنادے۔
اکثر یہ دیکھاگیا ہے کہ جب جب ریاستوں کے اسمبلی انتخابات قریب آتے ہیں، کانگریس میں بحران شروع ہوجاتا ہے۔ چند مہینوں پہلے ہی ملک کی پانچ ریاستوں کے انتخاب ہوئے ہیں اس وقت بھی یہی صورتحال تھی، اب اگلے سال بھی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور کانگریس میں پھر سے وہی حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ پنجاب اور گوامیں بھی اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ پنجاب میں کانگریس کیلئے اپنی حکومت بچانے کا معاملہ ہے توگوا میں کانگریس کی بقا ہی خطرے میں ہے جہاں کے سابق وزیراعلیٰ لوئی زنہو فلیرو نے بدھ کو ہی اپنے ایک درجن ساتھیوں کے ہمراہ ترنمول کانگریس کا جھنڈا تھام لیا ہے۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کانگریس چھوڑکر دوسری پارٹیوں خاص کر بھارتیہ جنتاپارٹی میں جانے والوں کی اکثریت ان لیڈروں کی ہے جوسونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے قریبی ہیں، اسی کی جانب کپل سبل نے اشار ہ کیا تھا جس کے بعد ان کے گھر پرحملہ ہوا اور انہیں پارٹی کا غدار کہہ کر ان کے خلاف ہنگامے ہوئے۔ایک طرف یہ سب ہورہاہے تو دوسری جانب کانگریس قیادت نے اس بحران کو ختم کرنے کی سمت کوئی پہل بھی نہیں کی ہے جس کی وجہ سے کپل سبل اور دوسرے پرانے کانگریسی لیڈر جو پارٹی میں تنظیمی تبدیلی کی وکالت کرتے ہیں کے موقف کو تقویت مل گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے G-23یعنی 23 لیڈروں کے گروپ نے ایک بار پھر پارٹی کے بحران پر شدید اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی میں تنظیمی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔
دیکھاجائے تو کانگریس میں فی الحال ایسی کوئی قیادت نہیں ہے جس کے گرد پوری پارٹی اکٹھی ہو۔ سونیا گاندھی کو کانگریس نے اس وقت تک کیلئے کار گزار صدر منتخب کررکھا ہے جب تک کہ پارٹی کو کوئی صدر نہیں مل جاتا ہے۔ پارٹی کے استحکام اور بقا کیلئے باقاعدہ صدر ضروری ہوتا ہے لیکن کئی برس بیت گئے ہیں کانگریس میں کوئی صدر ہی نہیں ہے۔حتیٰ کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی)کااجلاس بھی عرصہ سے نہیں بلایا گیا ہے۔
کانگریس G-23کاسرگرم حصہ کپل سبل اور غلام نبی آزاد کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ پارٹی کا صدر چنا جائے اور سی ڈبلیوسی کا اجلاس بلایا جائے۔شنید ہے کہ اس سلسلے میں غلام نبی آزا د کے گھر پرمیٹنگ بھی بلائی گئی ہے۔لیکن کانگریس کی بدبختی یہ ہے کہ وہ تبدیلی کے مفہوم سے ناآشنا ہے۔ تنقید کو دشمنی اور اختلاف کوغداری کہہ کر پارٹی کے ایسے تمام لیڈروں کو حاشیہ پر پہنچادیا گیا ہے جو پارٹی میں کوئی سرگرم کردار ادا کرسکتے تھے۔ ایک ایسے وقت میں جب پارٹی کے اکثر ہائی پروفائل لیڈرا ن پارٹی چھوڑ رہے ہیں ضرورت ہے کہ کانگریس، G-23کے لیڈران کی بات بھی سنے اور ان کے تحفظات دور کرکے پارٹی میں آپسی چپقلش اور اندرونی رسہ کشی کا خاتمہ کرے۔اسمبلی انتخابات سے عین قبل پارٹی کا یہ برین ڈرین کانگریس کے وجود کیلئے نقصاندہ تو ہے ہی یہ ملک کی جمہوریت اور کثیر جماعتی سیاسی نظام کیلئے بھی خطر ناک ثابت ہوگا۔
[email protected]
کانگریس کا برین ڈرین
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS