عبیداللّٰہ ناصر
ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
علامہ اقبال کے اس شعر کو اگر آج کی کانگریس کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ علامہ نے یہ شعر کانگریس کے انہی دنوں کے لیے کہا تھا۔ایک طرف اس کی سیاسی حریف نہیں بلکہ دشمن بھارتیہ جنتا پارٹی پے در پے کامیابی سے ہمکنار ہورہی ہے، وہیں دوسری جانب ہر الیکشن کانگریس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگاتا رہتا ہے۔ابھی چند ماہ قبل جن پانچ ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن ہوئے ہیں، ان میں اتر پردیش کو چھوڑ کر باقی چار ریاستوں پنجاب، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور میں الیکشن سے ایک ماہ قبل تک کانگریس کی کامیابی کے 75تا 80فیصد امکان زیادہ تر سیاسی مبصرین ظاہر کر رہے تھے۔ ایک دم سے بازی پلٹی اور پانچوں ریاستوں میں کانگریس چاروں خانہ چت نظر آئی۔ سب سے شرمناک شکست تو اسے اتر پردیش میں ملی جہاں کانگریس کی آخری امید کہی جانے والی پرینکا گاندھی کی قیادت میں وہ چناؤ لڑی اور محض دو سیٹوں پر کامیاب ہوئی، ان میں سے بھی ایک سیٹ وہ سماج وادی پارٹی کی مہربانی سے جیتی کیونکہ وہاں اس کا امیدوار نہیں تھا، دوسرے یہ اس کی روایتی سیٹ رہی ہے جہاں سے پرمود تیواری اور بعد میں ان کی بیٹی گزشتہ دس انتخابات میں مسلسل کامیاب ہوتے رہے ہیں۔دوسری سیٹ بھی امیدوار کی اپنی ذاتی مقبولیت اور محنت سے جیتی۔ یہی نہیں اس کا ووٹ تناسب بھی گھٹ کر ڈھائی فیصد کے آس پاس رہ گیا یعنی اتر پردیش میں اس کا وجود قریب قریب ختم ہو گیا ہے۔ 2024کے پارلیمانی الیکشن سے قبل کئی دیگر ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہوں گے جن میں کانگریس کی امیدوں والی ریاستیں بھی شامل ہیں مگر ان میں سے کسی میں بھی اس کی کامیابی کا کوئی امکان آج کی تاریخ میں نہیں دکھائی دیتا۔بی جے پی کی ان کامیابیوں میں ایک بہت بڑا فیکٹر اس کی انتخابی حکمت عملی، لا محدود وسائل، سرکاری مشینری کا بھرپور اور بے شرمی سے استعمال ہے جس کی تازہ ترین مثال جموںو کشمیر میں ہوئی انتخابی حلقوں کی حدبندی ہے۔حدبندی کمیشن نے بڑی ہوشیاری سے ایسی رپورٹ پیش کی ہے جو بی جے پی کے لیے کامیابی کے دروازہ کھول رہی ہے۔ جموں وکشمیر کی سبھی سیاسی پارٹیوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے مگر وہ سب صدا بہ صحرا ہیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے کارکنوں کی محنت اور لگن بھی شامل ہے۔ایک الیکشن کے بعد بی جے پی دوسرے الیکشن کی تیاری شروع کر دیتی ہے جبکہ دیگر پارٹیاں قیلولہ شروع کر دیتی ہیں۔ان سب میں بھی کانگریس کا بابا آدم ہی نرالا ہے۔ ہر الیکشن میں شرمناک شکست کے بعد شکست کے اسباب کا پتہ لگانے کے نام پر خانہ پوری کر دی جاتی ہے، چند لیڈروں کو قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے اور پھر سب کچھ ویسے ہے چلتا رہتا ہے۔سوچئے 2014سے پیہم شکست کے باوجود کانگریس میں تنظیمی سطح پر کوئی تبدیلی ہوئی، یہاں تک کہ نظریاتی طور پر وہ اب بھی نہیں طے کر پائی ہے کہ وہ نرم ہندوتو کی راہ پر ہی چلتی رہے گی یا نہرو ماڈل پر چلے گی۔ ایک راہل گاندھی ہیں جو اکیلے اس راہ پر چل رہے ہیں اور کھل کر آر ایس ایس سے ٹکر لے رہے ہیں۔ مہابھارت کے کردار ابھیمنیو کی طرح وہ چاروں طرف دشمنوں سے گھرے ہیں لیکن لڑ رہے ہیں، ان کے یہ دشمن صرف آر ایس ایس نہیں ہے نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی ہیں اور خود کانگریس کے منافقین بھی ہیں۔
کانگریس کی کم مائیگی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ ایک پروفیشنل سے اپنا وجود بچانے کے لیے مشورہ مانگے۔۔۔ وہ تو بھلا ہوراہل گاندھی کا کہ عین وقت پر انہوں نے ٹانگ اڑا دی ورنہ شاید جس طرح اتر پردیش میں ایک تنخواہ یافتہ ملازم نے کانگریس کو برباد کیا، ویسے ہی قومی سطح پر ہوتا۔پروفیشنل لوگوں سے صلاح مشورہ کرنے، ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے، ان کے اعداد و شمار سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن پروفیشنل کبھی سیاست داں نہیں بن سکتا کیونکہ وہ کمپیوٹر کے ماؤس پر انگلی رکھتا ہے جبکہ سیاست داں عوام کی نبض پر انگلیاں رکھتا ہے۔ پارٹی کو حیات نو دینے کے لیے یہ پروفیشنل جو مشورہ دیتا وہ مشورہ کانگریس کا عام کارکن بھی دے سکتا ہے کیونکہ گزشتہ تیس برسوں سے وہ اقتدار سے باہر رہ کر بھی کانگریس کا وفادار ہے، عوام کے درمیان رہتا ہے، پارٹی کے لیے پولیس کی لاٹھیاں کھاتا ہے۔ ضرورت ہے اس سے براہ راست رابطہ رکھا جائے، اس کی سنی جائے، اس سے صلاح مشورہ کیا جائے، سب سے بڑھ کر اسے عزت اور اہمیت دی جائے۔حالت یہ ہے کہ عام کارکن تو درکنار سینئر لیڈران بھی پارٹی کی ’’قیادت‘‘سے حسب ضرورت نہیں مل سکتے، مہینوں ملاقات کے لیے وقت مانگتے رہتے ہیں مگر نہیں ملتا۔ عام کارکنوں اور قیادت کے درمیان اس دوری کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر ’’قیادت‘‘دہلی میں پارٹی کے دفتر یا اپنے بنگلے پر ان کارکنو ں کے لیے روز دو گھنٹے مختص کر دے جب کارکن بنا بیچ کی کسی رکاوٹ کے اپنے لیڈر سے مل سکے تو نہ صرف ہر حلقہ، ہر ریاست کے لیے اسے اچھا فیڈ بیک ملے گا بلکہ کارکنوں کے حوصلہ اور اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا لیکن خود غرض عناصر نے ایک کاکس بنا رکھا ہے اور ’’قیادت‘‘کو کارکن سے دور کیے ہوئے ہیں۔
پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ میں اوپر سے نیچے تک انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے، ایسی تبدیلی جو سیاسی بحث کا رخ موڑ سکے، اس کے لیے پارٹی کے قومی صدر کا انتخاب جلدازجلد کرا دیا جانا چاہیے۔ نامزدگی اور اتفاق رائے کا سلسلہ قطعی بند کر دینا چاہیے۔ یہ انتخاب صرف دو سال کی متعین مدت کے لیے ہی ہو اور کوئی بھی شخص دو مسلسل ٹرم سے زیادہ صدر کے عہدہ پر فائز نہ رہے۔کانگریس ورکنگ کمیٹی کے 75فیصد ممبروں کا انتخاب بھی پارٹی کے آئین کے مطابق ہو بقیہ ممبر صدر نامزد کریں، ریاستی صدر کا انتخاب بھی اسی انداز سے ہو۔اعلان کے مطابق اگست میں پارٹی کے صدر کا انتخاب ہونا تھا، پتہ نہیں یہ اعلان اب بھی برقرار ہے یا نہیں لیکن اگر انتخاب ہو رہا ہے تو یہ یقینی بنانا ’’قیادت‘‘کی ذمہ داری ہے کہ انتخاب ہی ہو، نامزدگی یا اتفاق رائے جیسا ڈرامہ نہ ہو۔سونیا گاندھی باقاعدہ انتخاب لڑ کر ہی صدر بنی تھیں، انہی کی روایت پر عمل ہونا چاہیے۔ بہت سے سیاسی مبصرین اور کانگریس کے ہمدردوں کا موقف ہے کہ صدر نہرو گاندھی خاندان سے الگ اور ترجیحی طور سے جنوبی ہند کا ہو، جہاں ہندی بیلٹ سے زیادہ کانگریس کی حمایت اب بھی برقرار ہے۔یہ حقیقت ہے کہ نہرو گاندھی خاندان کا کوئی فرد پارٹی کا صدر ہو یا نہ ہو، پارٹی کا لیڈر وہی ہوگا ٹھیک اسی طرح جیسے مہاتما گاندھی کبھی کانگریس کے صدر تو کیا باقاعدہ ممبر بھی نہیں تھے لیکن وہ کانگریس کی روح تھے، اسی طرح کانگریس کی روح نہرو گاندھی خاندان ہی ہے، صدر کوئی بھی ہو سکتا ہے۔
کانگریس جنگ آزادی کی فوج ہی نہیں تھی، آزادی کے بعد ملک کی تعمیر نو کا ہراول دستہ بھی تھی۔ آج ملک میں جو کچھ بھی ہے وہ کانگریسی حکومتوں کے دور کا ہی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ستر برسوں میں کانگریس نے کچھ نہیں کیا، وہ اس بات کا جواب نہیں دے پاتے کہ آج جو کچھ بھی کوڑیوں کے بھاؤ کچھ کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں فروخت کیا جا رہا ہے وہ کس نے بنایا تھا؟ ٹھیک ہے اس درمیان غلطیاں بھی ہوئیں، خامیاں بھی تھیں لیکن جو کچھ ہوا، جو بنا، ملک کو جو ملا، کیا وہ اتنا کم ہے کہ انہیں یکسر نظرانداز کردیا جائے۔ کانگریس نے اپنے دور میں ملک کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کیا بلکہ ملک کے اتحاد اور یکجہتی کو بھی مضبوط کیا۔اتنے مذہبوں، اتنی زبانوں، اتنی تہذیبوں اور اتنے نظریات کے حامل ملک کو ایک لڑی میں پرو کر رکھنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے، اس کے ساتھ ہی جمہوریت کا راستہ ہی نہیں اختیار کیا بلکہ اس کو مضبوط کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی، آج یہی تینوں چیزیں سب سے زیادہ خطرہ میں ہیں اور جان بوجھ کر ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ملک کی معاشی خوش حالی، ذہنی ہم آہنگی اور جمہوری نظام کی جڑوں میں مٹھا ڈالا جا رہا ہے، اس کا انجام بد کیا ہوگا، یہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔نازی، جرمنی، فسطائی، اٹلی اور جاپان نیز اکثریت کی جارحانہ بالادستی، نسلی اور مذہبی منافرت میں جل چکا پاکستان اور سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے، اگر ہم تاریخ سے سبق نہیں لیں گے تو تاریخ بن جائیں گے۔ ملک کو انہی حالات سے بچانے کے لیے کانگریس کی ضرورت ہے کیونکہ بی جے پی کے فرقہ وارانہ اور جارحانہ ہندوتووادی نظریہ اور علاقائی پارٹیوں کی تنگ نظری ہندوستان جیسے کثرت میں وحدت والے ملک کی وحدت برقرار نہیں رکھ سکتی۔مگر اس کے لیے کانگریس کو اپنا محاسبہ کر کے ایک نئی جنگ آزادی کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔مہاتما گاندھی جب آئے تھے تب کانگریس جنگ آزادی شروع کر چکی تھی لیکن وہ چند اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے ڈرائنگ روم تک ہی محدود تھی، گاندھی جی نے اسے وسعت دی ،جنگ آزادی کو عوامی تحریک بنا دیا، سویا ہوا ہندوستان جاگ اٹھا اور اس عوامی بیداری کے سامنے انگریزوں کی ساری طاقت، صلاحیت ،وسائل اورمکاری ناکام ہو گئی تھی۔
صرف اور صرف کانگریس میں ملک کو بچانے کی صلاحیت ہے اور یہ اس کی تاریخی ذمہ داری بھی ہے، بس اسے اپنی صفوں کو درست کر کے دوسری جنگ آزادی کے لیے میدان میں اترنا ہی ہوگا۔2024میں فیصلہ کن جنگ ہونی ہے جو ہندوستان کیسا ہوگا، اس کا تعین کرے گی۔یہاں پھر علامہ اقبال کا شعر یاد آتا ہے:
’’آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
کانگریس کو بھی حضرت ابراہیمؑ کا ایمان پیدا کرنا ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]