کانگریس پارٹی، ’انڈیا‘ اور مسلمان : عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

ملک کے جو موجودہ حالات ہیں وہ کس قدر گھٹن پیدا کرتے ہیں اس سے ہر حساس شہری واقف ہے۔ لیکن صورتحال کی سنگینی میں اضافہ اس وقت ہوجاتا ہے جب اس کو ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی نظر سے دیکھا جائے۔ زندگی کے ہر محاذ پر مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ انہیں سیاسی نمائندگی نہیں ملتی، تعلیم و تعلّم سے لے کر جاب اور روزگار کے مواقع سے انہیں محروم رکھا جاتا ہے، سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کا اعلان کیا جاتا ہے اور کھلے عام ان کا قتل عام کرنے کے لیے ملک کے ہندوؤں کو ان کا مذہبی طبقہ بھڑکاتا رہتا ہے۔ اگر بات صرف اسی حد تک رک جاتی تب بھی سمجھا جاتا کہ یہ محض سیاسی جملے ہیں جن کا حقیقت میں کوئی مطلب نہیں نکلتا ہے۔ لیکن معاملہ اس سے بہت آگے جا چکا ہے۔ باضابطہ ڈھنگ سے مسلم نوجوانوں کی ماب لنچنگ کی جاتی ہے، بھڑکاؤ جلوس نکال کر پہلے ماحول بگاڑا جاتا ہے اور بعد میں ان کو فسادات میں ٹھکانہ لگا دیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے کارروائی کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے وہ خود ایک مذاق اور قانون کے ساتھ کھلواڑ سے کم نہیں ہے۔ آخر کون سا قانون اس کی اجازت دیتا ہے کہ صرف مسلمانوں کے گھر بلڈوز کر دیے جائیں؟ لیکن یہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے جس کو ایک سیکولر اور جمہوری ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کے ساتھ یہ دوہرا رویہ جو برتا جارہا ہے، کیا یہ ایک دن کی پیداوار ہے یا اس کے لیے ماحول بہت پہلے سے سازگار کیا گیا تھا؟ کیا بی جے پی اور سنگھ پریوار کے زہر آلود مسلم مخالف نظریہ کو وہ مقام اور قوت حاصل ہوسکتی تھی جو آج اس کو میسر ہے، اگر کانگریس پارٹی نے اپنے عہدِ عروج میں اس خطرہ کا سد باب کر دیا ہوتا اور اس کو پنپنے بلکہ پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیتی؟ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کانگریس پارٹی نے ملک میں جمہوریت مخالف نظریہ پر قدغن نہ لگانے جیسی وہ فاش غلطیاں کیں جن کی وجہ سے فسطائیت پر مبنی نظریہ کو ترقی کرنے کا موقع ملا اور اسی لیے آج صرف مسلمان اور ہمارا ملک ہی نہیں بلکہ خود کانگریس پارٹی اس کی قیمت چکا رہی ہے۔ مسلمانوں پر یہ الزام ہمیشہ عائد کیا جاتا ہے کہ وہ کانگریس پارٹی کا ووٹ بینک ہے۔ اس کے بدلے کانگریس پر یہ الزام ہے کہ وہ مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اپناتی ہے۔ پہلی بات تو اس لیے درست ہے کہ اس ملک کے مزاج کو سیکولر اور پرامن رکھنے کے لیے مسلمانوں نے صرف کانگریس پارٹی ہی نہیں بلکہ ملک کے الگ الگ حصوں میں ہمیشہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو ہی ووٹ دیا ہے۔ البتہ یہ بھی سچ ہے کہ کانگریس پارٹی کو اس کا وافر حصہ ملا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ کانگریس نے سیکولرازم پر عمل پیرا ہونے کا بھرم قائم رکھا تھا کیونکہ اس کو مہاتما گاندھی، مولانا آزاد اور نہرو نے مل کر سینچا تھا۔ لیکن کیا کانگریس پارٹی نے بھی اپنے ’’ووٹ بینک‘‘ کا خیال رکھا؟ کیا اس ملک کی مسلم اقلیت کو ترقی کے وہی مواقع فراہم کیے جو اس ملک کے دیگر طبقوں کو حاصل رہے ہیں؟ کیا ان کی معاشی ترقی و خوشحالی اور ان کے امن و امان کے لیے وہی وسائل فراہم کرائے گئے جو سماج کے دیگر کمزور طبقوں کو فراہم کیے گئے؟ شاید پورے اعتماد سے اس کا جواب اثبات میں نہیں دیا جاسکتا۔ کانگریس پارٹی نے مسلم ووٹ بینک کا سیاسی فائدہ تو خوب اٹھایا لیکن جب 2014میں نریندر مودی کے سیلاب میں بہہ گئی تو ایک لمحہ میں کانگریس کے سینئر لیڈر اے کے انٹونی کی نگرانی میں تشکیل شدہ کمیٹی نے یہ فیصلہ صادر کر دیا کہ ہم اس لیے ہار گئے کیونکہ ہمیں مسلمانوں کی پارٹی سمجھ کر ہندوؤں نے ووٹ نہیں دیا۔ کیا یہ بات وہ پارٹی کہہ رہی تھی جس نے مابعد آزادی کے اکثر حصہ میں ہندوستان پر حکومت کی ہے؟ اگر ایسا ہے کہ ملک کے ہندو آزادی کی اتنی طویل مدت کے بعد بھی مسلمانوں کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں تو اس کو کانگریس پارٹی کی پالیسیوں کی ناکامی ہی سمجھا جائے گا۔ کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ اتنے برسوں میں کانگریس پارٹی بھی دستوری قدروں کو نافذ کرنے کے بجائے اندرونِ خانہ ہندو-مسلمان کا کھیل کھیلتی رہی؟ کیا منی شنکرایر کا یہ الزام درست مانا جائے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پہلے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نہیں بلکہ نرسمہاراؤ تھے؟ پھر تو آر ایس ایس کے رجوبھیا کی وہ بات صحیح سمجھی جائے گی جو انہوں نے نرسمہا راؤ کے بارے میں کہی تھی اور ’’ٹائمس آف انڈیا‘‘نے اپنے سرورق پر چھاپی تھی کہ نرسمہا راؤ نے کانگریس میں رہ کر وہ کام کیا جو بی جے پی اور آر ایس ایس نہیں کر سکی۔ اگر سیکولر قدروں کی دعویدار پارٹی کے ایک وزیراعظم کے بارے میں منی شنکرایر جیسے کانگریسی لیڈر یہ بات کہیں تو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کانگریس پارٹی نے سیکولرازم کے ساتھ اپنی وابستگی بہت کمزور رکھی ہے اور سنگھ و بی جے پی کی طرح ملک کی اکثریت کو خوش رکھنے کا پلان ہی نافذ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج جبکہ مسلم مخالف زہر آلود فضاء سنگھ اور بی جے پی کی وجہ سے قائم ہوچکی ہے تو کانگریس پارٹی بھی اکثریتی طبقہ کو خوش کرنے میں ہی اپنا مستقبل دیکھ رہی ہے، خواہ اس کے لیے سیکولرازم اور جمہوری قدروں کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس کا مظاہرہ کانگریس پارٹی نے فروری 2023 میں رائے پور میں اپنے 85ویں پلینری سیشن میں اس وقت کیا تھا جب کانگریس پارٹی کے 137 برس مکمل ہونے کا جشن منایا جارہا تھا۔ اس موقع پر جو پوسٹر تیار کیا گیا تھا، اس میں گاندھی اور نہرو فیملی کے علاوہ بھیم راؤ امبیڈکر کو بھی شامل کیا گیا تھا جو نہ صرف کبھی کانگریس پارٹی کا حصہ نہیں بنے بلکہ اس کے سب سے بڑے ناقد رہے۔ لیکن مولانا ابوالکلام آزاد جیسے قد آور لیڈر جنہوں نے آزادی سے قبل مشکل ترین مرحلوں میں کانگریس پارٹی کو قیادت فراہم کی تھی اور دو بار اس کے صدر رہے تھے، ان کی تصویر اور نام پوسٹر سے غائب تھے۔ جب مورخ عرفان حبیب نے اس پر ٹوئٹ کیا تو اچانک کانگریس پارٹی کو جیسے ہوش آگیا اور جے رام رمیش نے معافی کا ٹوئٹ کیا اور دوبارہ سے پوسٹر بنائے گئے جن میں مولانا آزاد کو بھی شامل کیا گیا لیکن اس میں بھی چالاکی یہ کی گئی کہ پہلے دن کی طرح اس پوسٹر کو اخبارات میں اشتہار کی شکل میں نہیں لایا گیا کہ کہیں اکثریتی طبقہ کی طرف سے پھر سے کانگریس پر مسلم تشٹی کرن کا الزام نہ لگ جائے۔
ظاہر ہے کہ یہ اقدام غلطی سے نہیں کیا گیا تھا بلکہ ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ تھا کہ کسی طرح سے مسلمانوں کی تاریخ اور ان کی خدمات کو مکمل طور پر بھلا دیا جائے۔ ویسے بھی مولانا آزاد کے علاوہ کسی مسلم کے نام تک کا ذکر کانگریس نہیں کرتی تھی، اب ان کو بھی کنارہ کرنے کا پلان تھا لیکن ہنگامہ کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔ مولانا کے علاوہ کتنے بیشمار مسلم لیڈران نے اس پارٹی کے بینر تلے اس ملک اور یہاں کے عوام کی خدمت کی لیکن وہ سب طاقِ نسیاں پر ڈال کر ختم کر دیے گئے۔
کانگریس کو اس بات کا احساس کیوں نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں سے دوری اختیار کر نے کی پالیسی پر عمل کر کے اپنے ایجنڈے سے بھٹک رہی ہے۔مسلمانوں کی داد رسی کی بات ہو یا سیاسی نمائندگی کا سوال، اس کی پراسرار خاموشی سے مسلمانوں میںآج بڑی بے چینی ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے فساد اورماب لنچنگ کے واقعات مسلمانوں کو گھیرے ہوئے ہیں، بہار، ہریانہ، راجستھان، اترپردیش سمیت ملک کی دیگر کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم اور تشدد کو راہل گاندھی نے بخوبی دیکھا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک جگہ بھی دورہ کرنے کی ان کو توفیق نہیںہوئی، کانگریس قیادت خاموشی اختیار کیے رہی۔ سیاسی میدان میں پارٹی کی مسلمانوں سے دوری کی بات کی جائے تو ’انڈیا‘ (انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس) اس کی مثال ہے۔ کیا یہاں دو بڑی مسلم پارٹیوں اے آئی یو ڈی ایف اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو نظر اندازکر کے مسلم بیزاری کا ثبوت نہیں دیا گیا؟ان سے سوال یہ کیا جارہا ہے کہ یہ ان کا کیسا جذبۂ انسانیت ہے کہ وہ منی پور تو گئے لیکن فساد زدہ علاقے نوح اور میوات نہیں گئے؟
کیا 2024 کے لوک سبھا انتخاب سے قبل کانگریس پارٹی اپنی ان غلطیوں کو ٹھیک کرے گی؟ کیا مسلم اقلیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے اور انہیں اس ملک میں ایک باوقار شہری کی طرح زندہ رہنے کا حق دلائے گی؟ کیا نوح اور گرو گرام سے لے کر ملک کے الگ الگ حصوں میں مظالم کا شکار مسلمانوں کی دادرسی کرنے اور ان کا جائز حق اور انصاف دلانے کے لیے مخلصانہ کوشش کرے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ’انڈیا‘میں سب سے ممتاز نام ہونے کے ناطہ کانگریس پارٹی سے کرنا ضروری ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS