ایم اے کنول جعفری
موسم کی طرح سیاست میں بھی کچھ مستقل نہیں ہوتا۔غرور، خودغرضی،غیر یقینی اور کم اعتمادی کب کیا گل کھلادے کہا نہیں جا سکتا۔ کبھی غیر معروف شخص سیاست کی روشنی میں آکر چمک جاتا ہے،تو کبھی ذرا سی غفلت ہیرو کو زیرو بنا دینے میں دیر نہیں لگاتی۔کانگریس کے سینئر رہنما اورراجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔اچانک راجستھان پورے ملک کی سیاست کا مرکز بن گیا ۔ گہلوت کو25ستمبر تک کل ہند کانگریس صدرکے اُمیدوار کے طور پر مقبول ترین اور پارٹی اعلیٰ کمان کی پہلی پسند مانا جا رہا تھا۔ قریب قریب یہ طے ہی تھا کہ’ ایک شخص،ایک عہدہ‘ کے فارمولے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت ملک کی سب سے پُرانی پارٹی کانگریس کے صدر منتخب ہو جائیں گے اور نائب وزیراعلیٰ سچن پائلٹ کو ترقی دے کر راجستھان کی ذمہ داری سونپ دی جائے گی۔لیکن اچانک گہلوت کے حامی اراکین اسمبلی کے ایک ساتھ استعفیٰ دینے کی پیشکش سے واضح ہو گیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر سچن پائلٹ کووزیر اعلیٰ کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔راجستھان میں اپنی خاص پہچان رکھنے والے سیاسی سورمااشوک گہلوت کی کمان سے نکلے تیرمیں لپٹی تین شرائط کے سامنے اعلیٰ کمان کا سیاسی قد چھوٹا دکھائی دینے لگا۔سونیا گاندھی کی پیشانی پر بل دیکھ کر اشوک گہلوت دفاع پر اُتر آئے اور یہ کہنے لگے کہ ان کے حامی اراکین اسمبلی کے استعفوں کے پیچھے ان کا ہاتھ نہیں ہے۔یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے،لیکن اس بات کو طفل مکتب بھی قبول نہیں کرسکتا کہ وزرا اور اراکین اسمبلی کے ذریعہ اتنا بڑا قدم اُٹھا کر سخت فیصلہ لینے میں اُن کی مرضی کا دخل نہ ہو ۔ بالفرض اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ صوبائی ڈرامے میں ان کا کردار نہیں یا ان کا یہ کہنا کہ سچن پائلٹ سے اختلاف رکھنے والے اراکین اَب اُن کی بات بھی نہیں سن رہے ہیں ایک نہایت ہی منجھے ہوئے سیاست داں کے ناکام ہونے کی نشانی ہے۔ کانگریس کے مستقبل اورصدر کو لے کر پُر اُمید نظر آرہے سونیا اور راہل کے تیور سخت ہو گئے۔ کہا جانے لگا کہ جب اشوک گہلوت اپنی حکومت کے اراکین کو نہیں سنبھال سکتے،توبطور صدر کسی مدعے کو لے کر پیدا ہونے والے ممکنہ بحران کو دُور کرکے متحد رکھنے میں کیسے کامیاب ہو پائیں گے؟ گہلوت اور ان کے حامی اراکین کی جانب سے شرائط کا رکھا جانا نظم و ضبط کی خلاف ورزی اور طاقت کے زعم کا احساس کراتا ہے۔ پہلی شرط یہ تھی کہ نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا فیصلہ 19اکتوبر کو صدر کے الیکشن کے بعد لیا جائے۔دوسری شرط کے مطابق پارٹی آبزرورس اراکین اسمبلی سے فرداً فرداً بات کرنے کے بجائے گروپ کی شکل میں تبادلۂ خیالات کر اُن کا موقف جانیں۔ تیسری شرط یہ تھی کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب اُن 102اراکین اسمبلی کے درمیان سے کیا جائے،جو 2020 کے سیاسی بحران میں حکومت کے ساتھ کھڑے تھے۔ بحران اس وقت سامنے آیا،جب راجستھان میں اگلے برس اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔سیاسی اختلاف اور عداوت کی بنا پر سچن پائلٹ کو وزیراعلیٰ بننے سے روکنے کا جو راستہ اختیار کیا گیا،اُس سے نہ صرف اشوک گہلوت کی شبیہ خراب ہوئی،بلکہ اسے اعلیٰ کمان سے سیدھے مقابلہ آرائی کے طور پر بھی دیکھا گیا۔اتنا ہی نہیں اس فیصلے سے ان کا نصف صدی کا سیاسی کیریئر بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔راجستھان کے پارٹی انچارج اجے ماکن اور آبزرور ملکارجن کھڑگے کی رپورٹ میں گہلوت کو کلین چٹ دیتے ہوئے بحران کے ذمہ داروزیر شانتی دھاریوال،مہیش جوشی اور دھرمیندر راٹھوڑ کو نظم و ضبط شکنی کے الزام میں نوٹس جاری کر جواب طلب کیا گیا ہے۔ راجستھان میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخاب کی مل جل کر تیاری کے بجائے نیابحران پیدا کر جگ ہنسائی کرائی گئی۔
دوسری جانب راہل گاندھی کے ذریعہ’بھارت جوڑو یاترا‘ میںبڑی تعداد میں عام لوگوں کی شرکت اورکانگریس میں لوگوں کے بڑھتے رجحان سے پارٹی کو مضبوطی ملنے کے قوی امکان ہیں۔ 2024 کے عام انتخابات میں مرکزمیں قائم بی جے پی حکومت کو شکست دینے کے لیے ووٹروں کو صف بند کرنے کی مہم کیا رنگ دکھائے گی،یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ یاترا کے تناظر میں بظاہر راہ اتنی آسان نہیں ہے جتنی سمجھی یا بتائی جا رہی ہے۔ پارٹی کارکنان کو اعتماد میں لینے اورپلانگ کی کمی کی وجہ سے1982 میں 415 پارلیمانی نشستوں پرفتح حاصل کرنے والی پارٹی سب سے خراب دور سے گزررہی ہے۔کانگریس کے ایوان زیریں میںصرف 52اراکین ہیں۔پارٹی کی خراب حالت کا اندازہ اسی سے ہو جاتا ہے کہ اسے اپنے وجود اور بقا کی لڑائی کے لیے’بھارت جوڑو‘ کے لمبے سفر پر نکلنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔کانگریس کی راہ کو دشوار بنانے میں پارٹی کا مستقل صدر نہ ہونا بھی ہے۔ گزشتہ قریب چار برس سے عبوری صدر کے ذریعہ کام چلانے کی مجبوری پارٹی کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچا پائی ہے۔ سیتارام کیسری کے بعد سونیا گاندھی کو کانگریس کا صدر بنایا گیا تھا۔ان کے بعد راہل گاندھی کو صدر کی ذمہ داری سونپی گئی ،لیکن وہ اسے بخوبی نبھانے اور پارٹی کو ایک جٹ رکھنے میں ناکام ثابت ہوئے۔اگر راہل گاندھی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بجائے حالات کا دلیری سے مقابلہ کرتے اور دہائیوں سے پارٹی کے لیے کام کرنے والے عمررسیدہ کانگریسیوں کے قیمتی مشوروں سے فیض حاصل کرنے کے علاوہ نوجوانوں کو اہم ذمہ داریاں دیتے،تو حالات کافی مختلف ہو سکتے تھے ، پارٹی میں بزرگوں کو اہمیت دینے کے بجائے انھیںدھیرے دھیرے حاشیے پر کھسکایا گیا۔اس دوران جی۔23 کیمپ کے پرانے کانگریسیوں نے پارٹی اعلیٰ کمان کو مکتوب لکھ کر جو مشورے دئے،اُنھیں اہمیت دینا تو دُور ان پر غور تک نہیں کیا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی کے مضبوط ستون کپل سبل ، غلام نبی آزاد اور جیوتی راجیہ سندھیا جیسے کئی رہنما کانگریس کا ساتھ چھوڑکر نئے راستے پرچلے گئے ۔ پارٹی اعلیٰ کمان کی جانب سے کانگریسی کنبے کو یکجا کرنے میں دلچسپی اور سنجیدگی دکھانے کے بجائے اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔گویا یہ صاف کر دیا گیا کہ کسی کو پارٹی میں رہنا ہے تو رہے اور جانا ہے تو جائے،اس سے کانگریس پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔آپریشن لوٹس کے لیے مشہور بی جے پی کے ذریعہ کانگریس کی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مدھیہ پردیش سمیت کئی صوبوں میں کھیل کھیلا گیا۔ بھارت جوڑو یاترا کے دوران گووا میں کانگریس کے آٹھ ممبران اسمبلی کو اپنے پالے میں کرنا اس کی تازہ مثال ہے۔
پارٹی کارکنان کو راہل گاندھی سے بڑی امیدیں تھیں،لیکن بطورکانگریس صدر اُنھوں نے اس عہدے کی قدر نہیں کی۔ مرکزی اور صوبائی انتخابات میں پارٹی کی خراب کارکردگی کو بہانا بنا کر استعفیٰ دے دیا۔ پارٹی کے لیے کام کرنے والے چھوٹے بڑے لیڈران اور کارکنان ان سے صدر کے عہدے پر بنے رہنے کی درخواست کرتے رہے،لیکن وہ اپنی ضد پراَڑ گئے۔صاف کہہ دیا کہ کچھ بھی ہو جائے،وہ کانگریس کا صدر نہیں بنیں گے۔پارٹی کو نوجوان کندھوں کے سہارے کی ضرورت تھی۔ اکثربیمار رہنے والی سونیا گاندھی عبوری صدر بننے پر تو رضامند ہو گئیں،لیکن انھوں نے بھی دوبارہ صدر کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا۔راہل گاندھی کے ذریعہ خود کو صدر کے انتخاب سے الگ رکھنے کے بعد گاندھی خاندان سے باہر کا صدر منتخب کرنے کی کوشش تیز ہو گئی۔سب کچھ ٹھیک سا چل رہا تھا۔’بھارت جوڑو‘ یاترا کے بہتر نتائج سامنے آرہے تھے۔ راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کو دلی طلب کر صدر بننے کی پیش کش ہو گئی۔ وہ وزیر اعلیٰ بنے رہنے کے ساتھ پارٹی کا صدر بننے کا خواب دیکھ رہے تھے،لیکن راہل گاندھی سے ملاقات کے بعد وزیر اعلیٰ کا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ششی تھرور کے صدر کا انتخابات لڑنے کے اعلان کے ساتھ یہ کہا گیا کہ اس عہدے کے لیے جتنے زیادہ امیدوار ہوں گے،اتنا ہی پارٹی کے لیے سودمند ہوگا۔پارٹی اعلیٰ کمان کا گمان تھا کہ اشوک گہلوت کے پارٹی کا صدر اور سچن پائلٹ کو راجستھان کا نیا وزیراعلیٰ بننے میں کوئی رُکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔ بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی سے کچھ زیادہ ہی خوش راہل گاندھی یہ بھول گئے کہ ابھی 2024کے عام الیکشن میں بہت وقت ہے۔تب تک لوگوں کے جوش اور موجودہ رفتار کا برقرار رہنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ حالات کب تبدیل ہو جائیں اور سیاست کا اُونٹ کس کروٹ بیٹھے ،کہا نہیں جا سکتا؟ کچھ زیادہ پُر اعتمادی کی بنا پرپارٹی اعلیٰ کمان سے راجستھان کی حکومت میں شامل اراکین اور پارٹی رہنماؤوں کے چہرے پڑھنے میں بھول ہو گئی۔ دو برس قبل سچن پائلٹ کے ذریعہ اپنے 19حامی ممبران اسمبلی کے ساتھ بغاوتی تیور دکھانے سے زبردست سیاسی بحران پیدا ہو گیا تھا۔اسے ذہن میں رکھا جانا چاہئے تھا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ موجودہ بحران سے پارٹی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔
[email protected]
حالات بھانپنے میں ناکام کانگریس قیادت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS