فضائی آلودگی اور غربت بچوں کی دماغی نشوونما کیلئے تباہ کن

0
peacekeeping.un.org

فضائی آلودگی کا دماغ پر اثر: دورانِ حمل اور زندگی کے ابتدائی ساڑھے آٹھ برس میں بچے پر فضائی آلودگی کے اثرات بچے کے دماغ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، اس بات کی انوائرنمنٹل پولوشن جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں فضائی آلودگی اور دماغ سریبرل سفید مادے کے درمیان تعلق کی تصدیق کی گئی۔ سریبرل سفید مادے کے نشانات دماغ کے مختلف حصوں کے درمیان رابطے کو یقینی بناتے ہیں۔ اس رابطے کی پیمائش سفید مادے کی باریک ڈھانچے کا مشاہدہ کر کے کی جاسکتی ہے جو دماغ کے نشو نما کی خاص علامت ہے۔ بارسلونا انسٹیٹیوٹ برائے عالمی صحت کے ماہرین، جن کی رہنمائی سے یہ تحقیق ہوئی، کہتے ہیں کہ تحقیق کے نتائج اس لیے اہم ہیں کیوں کہ غیر معمولی سفید مادے کے ڈھانچے کا ذہنی صحت کے مسائل جیسے ڈپریشن اور بے چینی سے تعلق پایا گیا ہے۔ تحقیق میں معلوم ہوا کہ پانچ سال کی عمر تک بچہ جتنا زیادہ آلودگی میں افشا ہوگا، اتنا زیادہ دماغ کا ڈھانچہ متاثر ہوگا۔ محققین کو معلوم ہوا کہ زندگی کے ابتدائی دو سالوں میں غبار، دھوئیں یا آلودہ مائع کے ذرات جیسے آلودہ ذرّات کی زد میں جتنا آئے گا دماغ کا بیرونی حصہ اتنا بڑا ہوگا۔ ادارے کی محقق این-کلیئر بِنٹر، جو اس تحقیق کی شریک مصفنہ بھی تھیں، کا کہنا تھا کہ دماغ کے بیرونی حصے کے بڑے ہونے کا تعلق کچھ مخصوص نفسیاتی بیماریوں (شٹزوفرینیا، آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر اور آبسیسو-کمپلسِو اسپیکٹرم ڈِس آرڈرز) سے ہوتا ہے۔
غربت بچوں کی نشوونما میں تباہ کن: غربت بھی بچوں کی دماغی نشوونما کے لیے تباہ کن اور مخصوص حصوں کا حجم مختصر کرنے والا بڑا عنصر ہے۔ یہ بات امریکہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ ماضی میں بیشتر تحقیقی رپورٹس میں غربت سے بچوں کے جسم یا دماغٰ صحت پر مرتب اثرات کا جائزہ لیا گیا مگر اس تحقیق میں یہ دیکھا گیا کہ کم آمدنی والے طبقے سے تعلق لوگوں کے بچپن سے لڑکپن تک کس طرح اثرانداز ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو کیسے۔ واشنگٹن یونیورسٹی کی اس تحقیق کے لیے محققین نے 17 سال تک مختلف خاندانوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جن میں سے 216 ایسے تھے جن کے بچے تحقیق کے آغاز میں اسکول جانا شروع نہیں ہوئے تھے۔ ان بچوں کا جائزہ لڑکپن تک لیا گیا تھا اور تحقیق کے دوران ان کے دماغی ٹیسٹ کیے گئے تاکہ سماجی حیثیت سے مرتب اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔ محققین نے بتایا کہ سب سے پہلی اور اہم ترین بات تو یہ ہے کہ بچپن میں غربت سے مرتب اثرات کے بدترین نتائج کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے ،چاہے ان بچوں کے خاندانوں کی سماجی حیثیت لڑکپن سے قبل بدل ہی کیوں نہ جائے۔ درحقیقت غربت بچوں کی دماغی نشوونما کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ محققین کے مطابق ہمارے خیال میں غربت اور اس سے منسلک مسائل جیسے مالی تناؤ، غذائی اور دیگر سب بچوں کی دماغی نشوونما پر اثرانداز ہوتے ہیں، اگر غربت کی روک تھام کی جاسکے تو ہم ان منفی نتائج کو کافی حد روکنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق جن بچوں کا تعلق اسکول جانے سے قبل غریب خاندانوں سے تھا، ان کے دماغ کے مخصوص حصوں کا حجم دیگر کے مقابلے میں مختصر تھا جبکہ ان حصوں کی نشوونما بھی وقت کے ساتھ سست روی سے ہوئی۔ محققین کا کہنا تھا کہ ابھی بھی واضح تصویر سامنے نہیںآسکی ہے کیونکہ متعدد بچے غربت کے باوجود دنیا میں بہت کچھ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، جس کی ممکنہ وجہ ان کو ملنے والی معاونت اور اضافی وسائل کی فراہمی ہوتی ہے، تاہم اس خیال کی تصدیق کے لیے ابھی مزید تحقیق کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ غربت میں پرورش سے حالات مشکل ہوجاتے ہیں مگر اس کی روک تھام ممکن ہے، یہ اچھی خبر ہے کہ ہم اس حوالے سے کچھ کرسکتے ہیں۔
بچوں میں ڈپریشن: بچپن کھیلنے کودنے اور مستی کرنے کا ہوتا ہے۔ ہر فکر سے آزاد بچپن۔ ہر پریشانی سے مبرا بچپن۔ بچپن لفظ سنتے ہی ایک خوش کن احساس ہوتا ہے اور یقینا یہ لفظ سنتے ہی ہر کوئی شخص اپنے بچپن کی یادوں میں ضرور کھوجاتا ہوگا۔ لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اسکول جانے سے قبل کی عمر کے بچے ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجائیں۔ اتنے چھوٹے بچے جو اپنے بہت سے کاموں کے لیے اپنے والدین پر انحصار کرتے ہیں اگر ان میں ذہنی دباؤ کی نشاندہی ہونے لگے تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ سے بچوں کی دماغی اور ذہنی نشوونما شدید متاثر ہوتی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق بہت چھوٹے بچوں میں ڈپریشن اور ذہنی تناو? ان کے ذہن کو بدل کر ان میں ’گرے میٹر‘ کو متاثر کرسکتا ہے۔ گرے میٹر ان بافتوں(ٹشوز) کو کہتے ہیں جو دماغی خلیات(سیلز) کو جوڑ کے ان کے درمیان ایسے سگنل کا تبادلہ ممکن بناتے ہیں جو دیکھنے، سننے، فیصلہ سازی، احساسات اور جذبات کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس طرح بچوں کے اہم افعال متاثر ہوسکتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تین سال تک کے بچے بھی ڈپریشن کے شکار ہوسکتے ہیں اور اس ان کی دماغی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔ واشنگٹن یونیورسٹی میں بچوں کی نفسیات کے ماہر ڈاکٹر جوان ایل لوبی اور ان کے ساتھیوں نے تحقیق کے بعد بتایا کہ پہلی مرتبہ یہ ثابت ہوا ہے کہ تین سال کے بچے بھی ڈپریشن کے شکار ہوسکتے ہیں اور اس کا اثر ان کی دماغی ساخت پر پڑتا ہے۔ اس سے خود انسانی دماغ کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ بہت چھوٹی عمر میں بھی دماغ بیرونی عوامل سے متاثر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر والدین بچے کی درست تربیت نہ کریں اور انہیں پیار ومحبت نہ دیں تو بھی بچوں کی نفسیات پر مضر اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح بچوں کے سامنے منفی رویہ، خراب موڈ، غربت اور گھریلو لڑائی جھگڑا بھی بہت منفی اثر ڈالتا ہے۔ جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن(جے اے ایم اے) میں شائع اس تحقیق میں 193بچوں کو نوٹ کیا گیا جن میں سے 90ڈپریشن کے شکار تھے اور ان کے ایم آر آئی اسکین بھی کیے گئے۔ اس کے بعد جب 6سے 8سال کے بچے 12سے 15برس کے ہوئے تو ان کے دماغ میں واضح تبدیلیاں دیکھی گئیں اور ان کی اسکول میں کارکردگی بھی تسلی بخش نہ تھی۔ بچوں کی دماغی نشوونما صحیح طریقہ سے ہو اور وہ اتنی کم عمر میں ڈپریشن یا ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہوں اس کے لیے والدین کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ پریشانی کن گھروں میں نہیں ہوتی۔ بچپن کھیلنے کودنے اور ہر فکر سے آزادی کا نام ہے، جب ہم ان ننھے ننھے بچوں کے سامنے اپنی مفلسی، پریشانیوں کا ذکر کریں گے یا پھر لڑائی جھگڑا کریں گے تو ان کے ننھے ننھے ذہنوںپر ان کے منفی اثرات کا پڑنا یقینی ہے۔ بچوں کے سامنے اپنے جذبات و احساسات کو قابو میں رکھیں۔ ان کے سامنے کوئی بھی ایسی بات نہ ہو جو کہ انہیں خوف میں مبتلا کرے اور ان کی سمجھ سے بالاتر ہو۔ یہ چھوٹی چھوٹی مگر اہم احتیاط آپ کے بچوں کے دماغی نشوونما میں نہ صرف مثبت رول ادا کریں گی بلکہ بچے کو اپنے بچپن کو جینے دینے میں بھی معاون ہوں گی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS