پروفیسر اخترالواسع
نعت نبی پاک کی پرنور وادی مدہوشی اور سرمستی کی وادی نہیں ہے۔ یہ جائے صدادب ہے، اس سرکار میں ربع مسکون سرنگونِ قلب و نظرہیں۔ خواجہ و سلطان کے لیے اس در کی خاکروبی باعث عزت و شرف ہے۔ ایک فارسی شاعر نے نعت کے اس مقام سے آگاہ کرتے ہوئے مقام عبدیت اور مقام نبوت کے التزام کو دو خاص آداب سے بیان کیا ہے ؎
یعنی باخدا دیوانہ باش و با محمدؐ ہوشیار
(یعنی عبدیت میں تو دیوانگی چل سکتی ہے لیکن شان رسالت میں صرف فرزانگی ضروری ہے۔) اور عرفی نے اس مقام کی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے ؎
عرفی مشتاب ایں رہ نعت است نہ صحرا ست
آہستہ کہ رہ بر دم تیغ است قدم را
(اے عرفی جلدی مت کر یہ نعت کی راہ ہے کوئی صحرا نہیں ہے، آہستہ قدم اٹھا جیسے کہ تلوار کی دھار پر چل رہا ہو۔)
نعت گوئی کی صنف شاعری کی قدیم ترین اصناف میں سے ہے۔ اگر دیکھا جائے تو نعت کی صنف خود قرآن حکیم میں موجود ہے لیکن قرآن حکیم شاعری کی کتاب نہیں ہے اورنعت گوئی شاعری ہے۔ اس لیے فن نعت گوئی کے بانی جناب رسالت مآب ﷺکے مربی اور چچا حضرت ابوطالب ہیں۔ حضرت ابوطالب نے نعت گوئی کا آغاز کیا۔ جناب حسان بن ثابت نے اپنے خون جگر سے اسے سینچا اور اس کے برگ و بار نکالے، کعب بن زہیر نے اس میں پھول مہکائے اور گل ریزی و ثمرباری کی ایسی فضا استوار ہوئی کہ مختلف زبانوں میں ہزاروں لوگ مستانہ وار اس چمنستان نعت کو نور و نکہت سے سجاتے رہے۔ یہ وادی پر کیف ایسی مسحور کن ہے کہ جس طرح اس میں زبان کی قید ختم ہوگئی اسی طرح ایک وقت آیا کہ مذہب و ملت کے تاروپود بھی نعت کے گرد وپیش سے ختم ہوگئے اور بے شمار غیرمسلم یہ نعرہ دیتے ہوئے نظر آئے ؎
عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
اور کہیں یہ صدائیں گونجنے لگیں ؎
مومن ہی کے دل میں نہیں سودائے محمدؐ
ہر دل ہے فدائے رخ زیبائے محمدؐ
ہندوستان کی سرزمین جس کو دین و دھرم سے خاص انسیت ہے اور وسیع المشربی اور کشادہ دلی کے لیے بے مثال ہے۔ اس سرزمین پر شعرا نے نعت کے لیے عربی و فارسی کی تقلید بھی کی اور یہاں کے رنگ و مزاج میں رچا بسا نیا اسلوب بھی وضع کیا۔ مثلاً محسن کاکوروی کا قصیدہ ہے ؎
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل
یہ قصیدہ خالص ہندوستانی اسلوب ہے۔ اس میں ہندوستانی اساطیری کرداروں کو نعت سے جوڑا گیا ہے۔ اس سرزمین پر نعت نبیؐ پاک کے یہ زمزمے جس طرح مسلمانوں نے گائے اسی طرح ہندوئوں نے بھی اس میدان میں بصد ادب و عجز و نیاز سلام کیا اور ایسے گلہائے عقیدت نثار کیے جو کیف و جذبہ میں پوری طرح ڈوبے ہوئے تھے۔ کئی شعراء کا نعتیہ کلام اتنا زیادہ ہے کہ ان کے مستقل مجموعے شائع ہوئے جیسے کالی داس گپتا رضا نے اپنی نعتوں کا مجموعہ ’اجالا‘ کے نام سے شائع کیا اور ایسے شعراء تو بے شمار ہیں جنہوںنے ایک یا چند نعتیں کہیں۔
ہندو شعراء کے جواہر ہائے بے بہا سے لوگ مستفید ہوتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ہرایک کی دسترس میں نہیں تھے۔ اخباروں، رسالوں، جرائد اور پرانے دیوانوں میں بند پڑے ہوئے اس چمن کو دوبارہ آراستہ کرنے کی سعادت جناب دھرمیندر ناتھ کو ملی۔ جناب دھرمیندرناتھ اس کے مستحق تھے کہ ان کو یہ سعادت حاصل ہوتی ان کی حیات مستعار کا بڑا حصہ اسی دشت کی سیاحی میں گزرا تھا وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ابنائے قدیم میں شامل ہیں اور جامعہ کی مذہبی وسیع المشربی کی عجیب و غریب مثال ہیں۔ جامعہ کا دستور ہے کہ یہاں جب بھی کوئی جلسہ یا محفل منعقد ہوتی ہے تو اس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوتاہے جامعہ کی یہ روایت یہاں کا ادب اور یہاںکا طریقہ ہے کوئی مذہبی عصبیت نہیں ہے اور اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں ڈاکٹر دھرمیندرناتھ۔ جنہوںنے جامعہ کی چہار دیواری میں بہت سے جلسوں کے آغاز میں تلاوت قرآن پاک کی سعادت حاصل کی۔
زمانہ طالب علمی سے ہی ڈاکٹر دھرمیندرناتھ کو سیرت رسولؐ سے شغف تھا۔ جب وہ درجہ ثانوی میں تھے تو اس وقت دہلی کے تمام مسلم اسکولوں میں سیرت نگاری سے متعلق تقریری مقابلہ میں اول درجہ سے کامیاب ہوئے۔ طالب علمی کے دور کا یہ شغف اور شوق حرزجاں بنا رہا اور مرور ایام کے ساتھ اس میں پختگی آتی گئی۔ آج ان کے شوق و عقیدت کے جلو سے ان کی بے مثال کتاب ’ہمارے رسول ﷺ‘ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ اس ضخیم کتاب میں انہوںنے اردو کے غیر مسلم شعرا کا نعتیہ کلام جمع کیا ہے۔ اپنی نوعیت کی اس منفرد کتاب میں اردو کے 394، فارسی کے 25، ہندی کے 7، پنجابی کے 4، گوجری کا ایک، سندھی کے 2اور مراٹھی کے 2، ہندو شاعروں کا نعتیہ کلام اور ان کے مختصر سوانحی کوائف جمع کردیے ہیں۔ یہ کتاب رائے زنی فرہنگی سفارت خانہ جمہوری اسلامی ایران، دہلی سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں صرف شعرا کا کلام ہی نہیں ہے بلکہ یہ کتاب فن نعت گوئی کا بھی ایک جامع مرقع ہے۔ تقریباً 250 صفحات میں نعت گوئی کی تاریخ، فن نعت کے رجحانات اور اس صنف سخن میں شعراء کے مختلف تجربات کو بیان کیا ہے، اس کے بعد شعراء کا کلام اور ان کے حالات لکھے ہیں اور اس حصہ کا نام گلشن بے خزاں رکھاہے جو واقعی ایسی بہار ہے جس میں کسی خزاں کا گزر نہیں۔ کتاب کا انتساب آیت کریمہ ’ورفعنا لک ذکرک‘( اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا) کے حوالہ سے خود شان رسالت کے نام ہے اور اس کی مناسبت بیان کرتے ہوئے ان روشن ضمیروں کے نام عملی انتساب ہے جنہوں نے ہر ایک میں نور حق دیکھاہے۔
تقریظ، مقدمہ، پیش گفتار اور مصنف کے سوانحی کوائف کے بعد اصل کتاب شرو ع ہوتی ہے جس کا پہلا باب، نعت کی تعریف اور ماہیت پر ہے۔ دوسرے باب میں نعت کی تاریخ بیان کی گئی ہے جس میں نعتیہ شاعری کا ارتقاء ، عربی نعتیہ شاعری، فارسی نعت گو شعراء اور پھر اردو میں نعتیہ شاعری کے آغاز و ارتقاء کا بیان ہے۔ تیسرے باب میں ہندوستان میں نعت گوئی پر مقامی اثرات، انداز فکر، آداب نعت گوئی اور زبان کا تذکرہ ہے۔ چوتھے باب میں غیرمسلم شعراء کی نعت گوئی۔ پانچویں باب میں غیر مسلم شعراء کی نعتیہ شاعری کا ارتقاء چھٹے باب میں غیر مسلم شعراء کی نعتوں کے موضوعات اور ہیئتیں، تجزیہ اور توضیح اور ساتویں باب میں غیرمسلم شعراء کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیاہے۔ اس طرح سات ابواب میں انہوںنے نعت کی تعریف سے ہندو شعراء کی نعت گوئی تک کے طویل تاریخی سفر کو نہایت خوبصورت زبان میں بیان کردیا ہے۔ اس کے بعد اصل کتاب شروع ہوتی ہے۔
ڈاکٹر دھرمیندرناتھ جو بلاشبہ اپنے والد پنڈت گوپی ناتھ امنؔ لکھنوی کے صحیح جانشین اور ان کی روایت کے امین ہیں۔ انہوںنے اس کتاب کی تالیف کے ذریعہ ایک عہدساز کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس میں برصغیر کی تہذیبی روایت کے اندر پیوست نعت گوئی اور محسن انسانیت کی بارگاہ میں خراج عقیدت کے پھول نظر آتے ہیں۔ ہم تلسی داس کو راماین کے حوالے سے جانتے ہیں۔ لیکن میدان نعت میں ان کی خوبصورت کاوش سے لوگ واقف نہیں جب وہ کہتے ہیں ؎
تب لگ جو سندرم چھ کوئی
بنا محمدؐ پار نہ ہوئی
اور خالص ہندی رنگ میں ڈوبی ہوئی راگ کھمانچ میں اس قوالی کی داد تو اصحاب ذوق ہی دے سکتے ہیں ؎
جگ جوتی ، سوامی اوتاری، ترے روپ کے واری سیدناؐ
من موہن گردھر ، گردھاری، ترے روپ کے واری سیدناؐ
رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھ پوری کی رباعی ؎
انوار بے شمار معدود نہیں
رحمت کی شاہرہ مسدود نہیں
معلوم ہے کچھ تم کو محمدؐ کا مقام
وہ امت اسلام میں محدود نہیں
یہ کتاب دراصل فراق گورکھپوری کی اسی رباعی کی شرح ہے کہ نعت محمدؐ امت اسلام میں محدود نہیں ہے اور بھی سینکڑوں ہیں جو مذہب کے تو اس طرح متبع نہیں ہیں جیسا کہ اسلام میں مطلوب ہے لیکن نعت نبی کی محفل میں باریاب ہیں۔ اور ان کی یہ باریابی دراصل اس ذوق و شوق اور قلب و نظر کی وسعت دامانی کی مثال ہے جو ہندوستان کے سماج و مذہب میں رچی بسی ہے۔
بہترین کتابت سے آراستہ، خوب صورت کاغذ پر دیدہ زیب سرورق کے ساتھ یہ کتاب انتہائی لائق تحسین کارنامہ ہے، ڈاکٹر دھرمیندرناتھ جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے لائق ترین فرزندوں میں سے ہیں، اس کارنامہ پر قابل مبارکباد ہیں اور ضرورت ہے کہ اس کاوش کو آگے بڑھایا جائے اور تحقیق کا یہ دَر جو ڈاکٹر دھرمیندرناتھ نے کھولاہے اس کو آگے بڑھایا جائے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]