مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ فاصلاتی تعلیم کی حالت انتہائی افسوسناک،طلبہ کا کوئی پرسانِ حال نہیں

4

نئی دہلی (نمایندۂ خصوصی) ’مانو‘ ایک سینٹرل یونیورسٹی ہے، جہاں ریگولر تعلیم کے ساتھ ساتھ فاصلاتی نظامِ تعلیم بھی رائج ہے،جس کے تحت ملک بھر کے ہزاروں طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس کے نام پر پورے ملک میں اس یونیورسٹی کے کئی مقامی مراکز ہیں جہاں درس و تدریس کے ساتھ امتحانات بھی منعقد ہوتے ہیں ، اس عنوان سے یونیورسٹی کو اچھی خاصی گرانٹ بھی ملتی ہے،مگر زمینی سطح پر شعبۂ فاصلاتی تعلیم کی حالت انتہائی خستہ ، ناگفتہ بہ اور طلبہ کے لیے حد درجہ تکلیف دہ ہے ۔ اس شعبے میں داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات کو نہ تو وقت پر کتابیں بھیجی جاتی ہیں اور نہ ہی وقت پر امتحان ہوتاہے اور رزلٹ شائع ہونے میں تو تقریباً پانچ مہینے تک کا وقفہ ہو جاتاہے ،پھر کاپی جانچ کرنے کا معلوم نہیں کیا نظام ہے کہ تمام سوالات کے مطلوبہ جوابات دینے کے باوجود عموماً طلبہ کے صرف ۴۵ یا زیادہ سے زیادہ ۵۰فیصد نمبرات آتے ہیں ،جس کی وجہ سے یہاں تعلیم پانے والے طلبہ ترقی کرنے اور تعلیمی میدانوں میں آگے بڑھنے سے محروم رہ جاتے ہیں ؛کیوں کہ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں ماسٹرز یا پی ایچ ڈی میں داخلے کے لیے کم از کم ۵۰ فیصد نمبرات حاصل کرنا ضروری ہے ،نیز جو طلبہ یہاں سے بی اے کرنے کے بعد بی ایڈ کرتے ہیں ، وہ کم نمبر کی وجہ سے صلاحیت کے باوجود سرکاری اداروں میں بحالی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ سب سے زیادہ پریشان کن مرحلہ تو رزلٹ کا ہوتا ہے،وقت پر رزلٹ نہ آنے کی وجہ سے، بڑی مشکل سے کسی بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد بھی وقت مقررہ پر مارک شیٹ اور سرٹیفکیٹ جمع نہ کرپانے کی بنا پر ان کا داخلہ ختم کردیا جاتاہے۔
اس سال تو کورونا کے نام پر یونیورسٹی کے اس شعبہ نے طلبہ پر ظلم کی انتہا ہی کردی ہے ،۲۰۲۰ء کے اگست میں ہونے والا امتحان ایک سال کی تاخیر سے ۲۰۲۱ء کے اگست میں کروایا گیا اور اب امتحان پر دو ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے؛لیکن رزلٹ کا کوئی پتہ نہیں ہے ،حالانکہ بہت سے طلبہ کو مختلف یونیورسٹیوں کے مختلف کورسز میں داخلہ لینے کی وجہ سے کہیں ۱۵ اور کہیں ۲۰نومبر تک فائنل ایئر کا رزلٹ جمع کرنا ضروری ہے ،ورنہ ان کا داخلہ ختم ہوجائے گا۔ ایڈمیشن لینے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ جب وہ ’مانو‘ کے ذمے داروں کو ای میل کرتے ہیں، تو ان کو کوئی جواب نہیں ملتاہے، اسی طرح اگر وہ فون کرتے ہیں،تو ان کا فون یاتورسیو نہیں ہوتا یا رسیو ہوتا ہے، تو ان کی رہنمائی کرنے کے بجائے یہ کہہ کرکہ مجھے نہیں معلوم ہے ،فون رکھ دیا جاتا ہے اور ان کو مایوسی کے غار میں بے دریغ ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ اپنے ہی طلبہ کے ساتھ مانو کے ذمے داروں کا یہ رویہ نہایت شرمناک اور غیر اخلاقی؛بلکہ غیر انسانی ہے۔ ایک تو یوں بھی اس ملک میں مسلمانوں کے لیے تعلیم کی راہیں اتنی آسان نہیں،بہت سے نوجوان جو اپنے گھریلو حالات یا دوسری ناگزیر وجوہات کی بنا پر ریگولر کورسز میں داخلہ نہیں لے سکتے،وہ ’مانو‘ کے شعبۂ فاصلاتی تعلیم کے ذریعے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں،مگر یہ بھی اگر طلبہ کے تئیں ایسی سرد مہری اور بے حسی کا مظاہرہ کرے گی، تو کون اور کیوں یہاں داخلہ لے کر وقت برباد کرنا چاہے گا؟ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل میں یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ مولانا آزاد یونیورسٹی کے فاصلاتی تعلیم کے شعبے میں داخلہ لینا اپنی زندگی کوبرباد کرنے کے مترادف ہے۔ ایک طالب علم نے بڑی عاجزی اور منت سماجت کے ساتھ وہاں کےایک ذمے دار سے کہا کہ رزلٹ آنے سے قبل حد درجہ ضرورت کے وقت یونیورسٹیز اپنے طلبہ کو کنڈیشنل رزلٹ؍سرٹیفکٹ دیتی ہیں ،آپ بھی دے دیجیے ؛تاکہ جہاں میرا داخلہ ہوا ہے وہاں داخلہ باقی رہ جائے ؛کیوں کہ میں نے بڑی مشقت ومحنت اورشب وروز ایک کرکے تیاری کرنے کے بعد وہاں داخلہ لیا ہے ،اگر سرٹیفکٹ نہیں دیاگیا تو میراداخلہ ختم ہوجائے گا ،تو انہوں اس طالب علم کے جذبات سے کھیلتے ہوئے کہاکہ ہمارے یہاں یہ سسٹم نہیں ہے اور اسی پر بس نہیں کیا ؛بلکہ اس سے اس اہل کار نے پوچھا کہ تمھیں میرا نمبر کہاں سے ملا ،پھر نمبر دینے والے کانام بتانے پر اسے بھی برا بھلا کہا اور اس طالب علم سے کہاکہ آیندہ مجھے فون مت کرنا۔ یہ کیسا شرمناک رویہ ہے،جبکہ تعلیمی اداروں میں دوسروں کے تعاون،ہمدردی،بلند اخلاقی اور رہنمائی کی تعلیم دی جاتی ہے اور ہر تعلیمی ادارہ اپنے طلبہ کے مستقبل کو روشن کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ؛لیکن ’مانو‘ کے ذمے داروں کا رویہ اس کے بر عکس ہے۔بہت سے طلبہ کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی نے فالو آن کورسز کے لیے رجسٹریشن اور پیمنٹ کی تاریخ کا اعلان کیا اور اب اس میں ۲۱؍نومبر تک توسیع بھی کردی گئی ہے،مگر ویب سائٹ پر ۲۰۱۹ء میں داخلہ لینے والے طلبہ کے لیے رجسٹریشن کا آپشن ہی نہیں آرہا ہے اور طلبہ اگر مقامی مرکز یا ’مانو‘سے رابطہ کرتے ہیں تو انھیں تشفی بخش جواب نہیں مل رہا ہے،جس کی وجہ سے وہ بھی پریشان ہیں اور مزید ایک تعلیمی سال کے ضیاع کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے۔
یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن، جو بظاہر کافی ایکٹیو نظر آرہے ہیں اور یونیورسٹی کے نظام کو بہتر کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں،انھیں ترجیحی بنیاد پر شعبۂ فاصلاتی تعلیم کے نظام کو بہتر کرنے پر توجہ دینی چاہیے،خاص طورپر داخلے کے پروسیس، کتابوں کی ترسیل،امتحان کے نظام اور نتائجِ امتحان کے اجرا کے سلسلے میں جو لاپروائی اورغیر ذمے دارانہ رویہ اس شعبے کا رہتا ہے،اسے جلد از جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے؛تاکہ طلبہ کا یونیورسٹی پر اعتماد بحال ہو اور وہ یہاں سے اپنے تعلیمی مراحل کی تکمیل کرکے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کے قابل بن سکیں –

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS

4 COMMENTS

  1. Addmission ke waqt notice board par likha tha ki har sunday 10AM to 01PM lecture hoga , lekin 2 ½ saal se zyada hone ke baad bhi ek lecture bhi nhi hua ,aur hamen intizamia ne kaha ki lecture ke liye alag se paise ikaththa karo tab ek teacher ka arrengement karte hain !

Comments are closed.