اسلام میں خود کُشی کی مذمت

0

محمد کلیم الدین مصباحی

آج کل خود کشی کا رجحان اتنا عام ہوتا جا رہا ہے کہ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں آئے دن خود کشی کے واقعات رونما ہو تے رہتے ہیں ،جن کی خبریں اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے ہم دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں ۔
خود کشی کیا ہے؟ :’’خود کشی بزدلی اور کم ہمتی کی دلیل ہے ،یہ کمزور اور مایوس لوگوں کے لئے زندگی کے مسائل ومشکلات ،آزمائشوں اور ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کر نے کا ایک غیر اسلامی ،غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقہ ہے ‘‘۔اس وقت پوری دنیا میں خود کشی کرنے والوں کی اعدادو شمار سے متعلق عالمی ادارہ صحت نے جو رپورٹ پیش کی ہے وہ نہایت ہی چونکانے دینے والی ہے ۔
’’ عالمی ادارہ صحت کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال دس لاکھ لوگ خود کشی کرتے ہیں ،خود کشی کی یہ شرح ایک لاکھ افراد میں ۱۶ ؍ فیصد بنتی ہے ،اس حساب سے دنیا میں ہر ۴۰؍ سیکنڈ کے بعد ایک شخص خود کشی کرتا ہے ،دنیا کی کل اموات میں خود کشی کے باعث ہونے والی اموات کی شرح ایک عشاریہ آٹھ فیصد ہے ۔ایک سروے کے مطابق اس شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔صرف بھارت اور چین میں پوری دنیا میں خو دکشیوں کی ۳۰؍ فیصد اموات واقع ہو رہی ہیں، جو کہ بڑی حولناک شرح ہے‘‘۔مذکورہ اعداد و شمار نہایت ہی تشویشناک ہے ۔
خود کشی کے اسباب :جب ہم اخبار بینی کرتے ہیں تو خود کشی کے ایک سے ایک نئے واقعات سامنے آتے ہیں ،کتنے طلبہ امتحان میں ناکامی کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں ،کتنے لوگ کاروباری خسارہ برداشت نہیں پاتے اور ذہنی تناوّ کا شکار ہو کر اپنے آپ کو مار لیتے ہیں ،کبھی میاں بیوی کے درمیان ہوئے تنازع خود کشی کا سبب بنتے ہیں ،کبھی بیماریوں سے تنگ آکر خود کشی کر لیتے ہیں ،کبھی فقر وفاقہ اور غربت وافلاس سے بھری زندگی سے مایوس ہو کر اپنے آپ کو مار لینے میں ہی بھلائی سمجھتے ہیں ،کتنے لوگ قرض کے بوجھ تلے دب کر اپنے آپ کو مار لیتے ہیں ،کبھی ساس بہو کی آپسی لڑائی ایک دوسرے کے خلاف بد گمانی اور روز روز کی خانہ جنگی سے پریشان ہو کر ،بہو ئیںاپنے آپ کو ختم کر لینے میں ہی بھلائی سمجھتی ہیںاور اپنے آپ کو ختم کر لیتی ہیں ،اس کے علاوہ بے شمار حالات اور ہیں جو خود کشی کے سبب بنتے ہیں ۔
خود کشی مسئلہ کا حل نہیں :ایک مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھے ،اور یہ یقین رکھے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہی ہے ،اللہ تعالی ہر حال میں اپنے بندے کو آزماتا ہے کبھی خوشی دے کر آزماتا ہے تو کبھی غم میں مبتلا کر کے آزماتا ہے ،کبھی مصائب آلام سے دوچار کرتا ہے تو کبھی دنیا کے وسائل سے بہر ور کرکے،کبھی صحت وفراخی کے ذریعے تو کبھی تنگی اور بیماری کے ذریعے ،کبھی مالداری اور تونگری دے کر تو کبھی فقرو فاقہ اور غربت وافلاس میں مبتلا کر کے ،کبھی اولاد دے کر کبھی بے اولادی سے،۔اللہ ہر طرح سے ہمیں آزماتا ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ اللہ کا فرمانبردار بندہ کون ہے اور نا فرمان کون۔ایسے حالات میں ایک مخلص بندہ کی پہچان ہے یہ کہ وہ اپنے رب کی رضا پر راضی ہو ،نہ کہ حالات سے مجبور ہو کر خود کشی کر کے بزدلی اور کم ہمتی کا مظاہرہ کریں ۔ایسے لوگ جو ان نامساعد حالات میں ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور صبرو شکر کے دامن سے وابستہ رہتے ہیں ،اللہ تعالی ان پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے ،جیسا کہ اللہ تعالی نے خود ارشاد فرمایا :’’ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں :ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ‘‘اس آیت سے پتا چلا کہ ان پریشان کن ماحول میں ان پریشانیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے سب سے بہتر ہتھیا ر صبر ہے ،مگر افسو س اس بات کا ہے کہ جانتے ہوئے بھی ان حالات میں انسان کا ایک بڑا طبقہ ان مصائب وآلام اور تکالیف پر صبر کرنے کے بجائے اپنے آپ کو مار دیتے ہیں ،خود کشی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ خود کشی خود ایک مسئلہ ہے ،جس کو اسلام نے حرام قرار دیاہے اور خود کشی کر نے والوں کے لئے سخت اور دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے۔ قرآن میں خود کشی کی ممانعت:قرآن و سنت کی روشنی میں خود کشی حرام ہے ۔اللہ تعالی قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے ۔’’اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ اس آیت میں اللہ تعالی نے ہر وہ چیز جو ہلاکت کا سبب ہو، ان سب سے باز رہنے کا حکم دیا ہے ،حتی کہ میدان جنگ میں بے ہتھیا ر جانا، یا زہر کھانا، یا کسی طرح خود کشی کر نا یہ سب حرام ہے، اور اپنے آپ کوہلاکت میں ڈالنا ہے ۔دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے ۔’’اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو ،بیشک اللہ تم پر مہربان ہے ۔اور جو ظلم وزیادتی سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اسے آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے ‘‘ خود کو ہلاک کرنے کی چار صورتیں بیان کی گئی ہے، ان چار صورتوں میں سے ایک صورت خود کو ہلاک کر نے کی، خود کشی کرنا ہے ،یعنی اس آیت مبارکہ میں بھی اللہ تعالی نے خود کشی سے منع فرمایا ہے ۔اور ہر اس چیز سے منع فرمایا جو انسان کی ہلاکت کا سبب ہے ۔
احادیث میں خود کشی کی مذمت :خود کشی سے متعلق چند احادیث بھی ملاحظہ کریں کہ کس قدر اللہ کے نبی ؐ نے خود کشی کرنے والوں کے لئے عذاب اور وعیدیں بیان فرمائی ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ :اللہ کے نبی ؐ ارشاد فرماتے ہیں :’’جس نے اپنا گلا گھونٹا وہ جہنم میں اپنا گلا گھونٹتارہے گا اور جس نے خود کو نیزہ مارا وہ جہنم کی آگ میں خود کو نیزہ مارتا رہے گا ‘‘۔(بخاری ،کتاب الجنائز )
دوسری حدیث جو حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ہی مروی ہے ،سر کار مدینہ ؐ نے ارشاد فرمایا:جو پہاڑ سے گر کر خود کشی کرے گاوہ نار دوزخ میں ہمیشہ گرتارہے گا ،اور جو شخص زہر کھا کر خود کشی کرے گا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ زہر کھاتا رہے گا ۔جس نے لوہے کے ہتھیار سے خود کشی کی تو دوزخ کی آگ میں وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میںہو گا اور وہ اس سے اپنے آپ کو ہمیشہ زخمی کرتا رہے گا۔آج خود کشی کے لئے جن طریقوں کو اختیار کیا جاتا ہے وہ سب نہایت ہی اذیت ناک ہو تے ہیں ۔اس حدیث کی روشنی میں پتا چلا کہ دنیا میں خود کشی کر نے والا جو بھی طریقہ اختیار کرے گا ،جہنم میں اس کو اسی کے ساتھ عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ،یعنی اسی کے ذریعے اس کو عذاب دیا جائے گا ۔خود کشی کتنا سنگین جرم ہے اس کا اندازہ رحمت ؐ کے اس عمل سے لگا سکتے ہیں کہ آپ سراپا رحمت ہونے کے باوجود خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی،جب کہ آپ کے اخلاق کریمانہ کا عالم یہ تھا کہ آپ اپنے دشمنوں کو بھی دعائیں دیتے ۔

اس حوالے سے ایک حدیث ملاحظ فرمائیں ۔
حضرت جابر بن سمرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ؐ کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو نیزے سے ہلاک کر لیا تھا ،پس آپ ؐ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔
کس قدر نبی کریم ؐ نے خود کشی کرنے والوں سے ناراضگی کا اظہار فرما کر ہمیں اور آپ کو اس سے بچنے کی تلقین فرمائی ۔ اس کے علاوہ سنن ابوداؤد،نسائی،مسنداحمد ابن حنبل وغیرہ میں بھی احادیث موجود ہیں ۔حاصل کلام یہ کہ خودکشی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے ، بلکہ ایک بہت بڑا گناہ اور غیر اخلاقی اور غیر اسلامی طریقہ ہے ،جس سے ہر انسان کو بچنا چاہئے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS