طالبان حکومت اور ہندوستان کی تشویش

0

کل یعنی11ستمبر کو امریکہ کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردانہ حملوں کے 20برس مکمل ہو جائیں گے۔ان حملوں کے بعد القاعدہ سربراہ کی تلاش میں امریکہ اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ آور ہواتھا اور طالبان کی حکومت ختم ہوگئی تھی۔ا ب 20برسوں کے بعد افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان کی عبوری حکومت ٹھیک اسی دن یعنی11ستمبر کو حلف لینے والی ہے۔دو دن بیشتر ہی طالبان نے افغانستان میں عبوری حکومت تشکیل دیتے ہوئے کابینہ کے ناموں کا اعلان کیا تھاجس کے مطابق محمد حسن اخوند امارت اسلامیہ افغانستان کے قائم مقام وزیراعظم جب کہ ملا عبدالغنی برادر اور ملا عبدالسلام نائب وزرائے اعظم ہوں گے۔نئی حکومت کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے طالبان کی جانب سے پاکستان، چین، ترکی، ایران، قطر اور روس کو باقاعدہ دعوت دی گئی ہے۔
طالبان نے اپنے سابقہ موقف میں لچک دکھاتے ہوئے کئی ایسے اعلانات کیے ہیں جن سے یہ محسوس ہورہاہے کہ یہ اب 1996 والے طالبان نہیں ہیں جب انہوں نے بندوق کے زور پر دہشت اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر حکومت قائم کی تھی۔ طالبان کاموجودہ رویہ ظاہر کررہاہے کہ جدید دنیا سے ہم آہنگ ہونے کیلئے انہوں نے اپنے اندر کئی تبدیلیاں کی ہیں۔تشدد اور انتہا پسندی میں سرگرم رہنے والے طالبان نے خود اعلان کیا ہے کہ وہ رواداری اور روشن خیالی کے جلو میں سبھی کو ساتھ لے کر آگے بڑھیں گے۔باوجود اس کے دنیا کے کئی ممالک مطمئن نہیں ہیں۔ طالبان نے جس عبوری حکومت کا اعلان کیا ہے اس میں مبینہ دہشت گرد تنظیم حقانی نیٹ ورک اور قندھار پر مرکوز طالبان گرو ہ کا غلبہ ہے، جبکہ دوحہ میں قائم طالبان گروپ، جس نے بین الاقوامی سطح پر مذاکرات کیے تھے اور ہندوستان کے ساتھ بھی بات چیت کی تھی، فی الوقت حاشیہ پر ہے۔عبوری حکومت میں خواتین کو شامل کرنے اور حلف برداری سے قبل مظاہروں پر پابندی لگادیے جانے کی وجہ سے ہندوستان سمیت کئی ممالک میں سخت تشویش پائی جارہی ہے اور یہ کہا جارہاہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کا کردار بدل جائے گا۔
جہاں تک ہندوستان کی تشویش کا تعلق ہے تو اسے محل نظر ہی کہا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان کی موجودہ عبوری حکومت میں وزیراعظم بنائے گئے محمد حسن اخوند کے سر پر 2001 میں بامیان میں گوتم بدھ کے مجسموں کو تباہ کرنے کا الزام ہے اور وہ اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں ہیں۔ اسی طرح وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں جن کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔ کہاجاتا ہے کہ 2008 میں کابل میں ہندوستانی سفارت خانے پرہونے والے حملے کے ذمہ دار یہی سراج الدین حقانی ہیں اوران کے پاکستان کے آئی ایس آئی سے بھی گہرے مراسم ہیں۔ہندوستان کی تشویش اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ طالبا ن کی عبوری حکومت نے اعلان کیا ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان میں اسلامی اور شرعی قانون کے تحت حکومت چلائی جائے گی۔
کس ملک کی حکومت کس قسم کا دستور بناتی ہے، آئین سازی کرتی ہے اور اپنی حکومت کے کام کاج کوکن خطوط پر چلاتی ہے یہ کلیتاًاس ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس کا فیصلہ اس ملک کے عوام کو کرنا ہے کہ اپنے اوپر حکومت کا حق وہ کسے تفویض کرتے ہیں،کیا ان پر بندوق حکومت کرے گی یا اتفاق رائے سے منظور کیا ہوادستور و آئین کی حکمرانی ہوگی۔دنیا میں درجنوں ایسے ممالک ہیں جہاں مذہبی قدامت پسندحکومتیں قائم ہیں، انہیں نہ صرف دنیا تسلیم کیے ہوئے بلکہ ان کے ساتھ ان کے خصوصی سفارتی ا ور تجارتی تعلقات ہی نہیں بلکہ ثقافتی او ر علمی تبادلہ کے خصوصی ادوار بھی ہوتے ہیں۔ سعودی عرب، قطر، ایران، عراق، ملیشیا، مالدیپ، نائیجیریا، سوڈان ، متحدہ عرب امارات اور یمن سمیت کم و بیش ڈیڑھ درجن ایسے ممالک ہیں جہاں اسلامی شریعت نافذ ہے۔ ان ممالک سے دنیا بھر کے سفارتی مراسم ہیں۔ان ممالک میں دنیا بھر کے لوگ نہ صرف آتے جاتے ہیں بلکہ وہاں کاروبار و تجارت کرتے ہیں اور شہریت بھی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ہندوستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک صرف افغانستان کیلئے پریشان ہیں۔
اس پریشانی اور تشویش کو محل نظر ہی کہا جاسکتا ہے۔تشویش اور پریشانی کا اگر کوئی حقیقی سبب ہوسکتا ہے تو وہ ہے بنیاد پرستی، انتہا پسندی، تنگ نظری ، مذہبی تعصب اور سو چ و فکر کی پستی جن کی کوکھ سے اختلاف و افتراق جنم لیتے ہیں اور تنازعات کا سبب بنتے ہیں۔ ان بلائوں سے ہمارا ملک بھی پاک نہیں ہے۔ہمیں صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ خود ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں جڑ پکڑتی مذہبی تعصب ، تنگ نظری اورا نتہائی پسندی کے تئیں فکر مند ہوناچاہیے۔ دنیا کی بڑی بڑی قومیں تعصب اور تنگ نظری کے سبب ہی فنا ہوچکی ہیں۔اگر طالبان نے ان سے اب بھی اپنا پیچھا نہ چھڑا یا تو ان کا یہ دور بھی بہت جلد فنا پر ہی تمام ہوگا۔ہمیں اس پر بہت زیادہ تشویش کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ہم بھی ہر طرح کے تعصب ، تنگ نظری اور انتہاپسندی سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS