سب سے زیادہ آبادی والے ملکوں میں ہمارا ملک دوسرے نمبر پر ہے، چین پہلے نمبر پر ہے لیکن امکان اس بات کا ہے کہ بہت جلد وہ آبادی کے معاملے میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا، چنانچہ اسے زیادہ وسائل کی ضرورت پڑے گی جبکہ موجودہ صورتحال اور بھی بدتر ہو جاتی اگر مودی حکومت کروڑوں لوگوں کو غذائی امداد فراہم نہیں کرتی۔ اس سے ملک پر بوجھ پڑتا ہے مگر بھکمری سے لوگوں کو بچانا حکومت کی قابل تعریف کارکردگی ہی کہی جائے گی اور اس کے لیے سیاست سے پرے ہوکر اس کی تعریف کی جانی چاہیے۔ اصل میں پہلے کورونا وائرس، پھر یوکرین کی جنگ نے دنیا کے حالات بدلے ہیں اور اس بدلے ہوئے حالات سے بالکل ہی بچ جانا ہمارے ملک کے لیے بھی آسان نہ تھا۔ سرکار اقتصادیات کو پٹری پر لانے کی کوشش ہی کر رہی تھی کہ مندی کی آہٹ سنائی پڑنے لگی۔ ظاہر سی بات ہے کہ سرکار کے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے کہ اسے گھماتے ہی حالات بدل جائیں، اس لیے تشویشناک حالات کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ دنیا کی 307 کروڑ کی آبادی وہ ہے جو غذائیت سے بھرپور غذا حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس آبادی میں تقریباً ایک تہائی یعنی 97 کروڑ سے زیادہ لوگ ہندوستان میں رہتے ہیں۔ یہ رپورٹ کسی اور نے نہیں، اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن نے دی ہے۔ اس سلسلے میں اس نے اپنی رپورٹ تین ہفتے پہلے 6 جولائی، 2022 کو جاری کی ہے۔ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن نے وطن عزیز ہندوستان کے سلسلے میں جو رپورٹ دی ہے، اس کے لیے اس نے اس کا یہ پیمانہ رکھا ہے کہ ہندوستان میں 2.97 ڈالر میں غذائیت سے بھرپور غذا مل جاتی ہے۔ دنیا کے لیے یہ پیمانہ 3.537 ڈالر ہے تو ایشیا کے لیے 3.715 ڈالر ہے۔فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن نے دیگر ملکوں کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ اس کی رپورٹ کے مطابق، چین میں 12 فیصد، برازیل میں 19 فیصد، سری لنکا میں 49 فیصد لوگ وہ ہیں جو غذائیت سے بھرپور غذا حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان ملکوں کے زمرے میں پاکستان اور نیپال کی حالت کافی خراب ہے۔ پاکستان میں 83.5 فیصد لوگ غذائیت سے بھرپور غذا حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو نیپال میں ایسے لوگوں کی تعداد 84 فیصد ہے۔n
تشویش وطن عزیز کیلئے بھی!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS