میڈیا کے رول پر تشویش بیجا نہیں!

0

میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے یعنی میڈیا اگر بھٹک جائے تو جمہوری نظام کے ٹھیک ٹھاک چلنے کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ اسی لیے میڈیا پر چیف جسٹس آف انڈیا، این وی رمن کی باتیں باعث تشویش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’معاملوں کو طے کرنے میں میڈیا ٹرائل ایک رہنما فیکٹر نہیں ہو سکتے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا کنگارو کورٹ چلا رہے ہیں، کبھی کبھی تجربہ کار منصفوں کو بھی معاملے پر فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ ’غلط جانکاری اور ایجنڈا سے چلنے والے مباحثے جمہوریت کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا کے مطابق، ’میڈیا کے ذریعے پھیلائے جا رہے تفریق آمیز خیالات جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں اور سسٹم کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘ ان کا خیال ہے کہ ’پرنٹ میڈیا میں ابھی بھی کچھ حد تک جواب دہی ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں جواب دہی صفر ہے۔ سوشل میڈیا کا حال اور برا ہے۔‘
چیف جسٹس آف انڈیا، این وی رمن کی میڈیا کے رول پر تشویش بیجا نہیں ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جمہوریت کو ان ملکوں کے ذی ہوش لوگ اہمیت دیتے ہیں جہاں جمہوریت ہے اور ان ملکوں کے ذی ہوش لوگ بھی اہمیت دیتے ہیں جہاں جمہوریت نہیں ہے، البتہ غیر جمہوری ملکوں کے لوگ کبھی کبھار ہی اپنے جذبات کا اظہار کر پاتے ہیں۔ تیونس میں بے روزگار گریجویٹ البو عزیزی کی خود سوزی کی کوشش کے بعد آدھے درجن سے زیادہ ملکوں کے لوگوں نے غیر جمہوری حکومتوں کو ہٹانے کے لیے احتجاج کیا تھا۔ اس کے باوجود ان ملکوں میں جمہوری نظام بحال نہیں کیا جا سکا۔ یہ واقعی ہندوستانیوں کی خوش نصیبی ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں کے بیشتر لوگ جمہوریت پسند ہیں اور انہیں جمہوریت پسند بنائے رکھنے میں ’سننے، سمجھنے اور تجزیہ کرنے‘ کی ان کی صلاحیتوں نے اہم رول ادا کیا ہے تو اس سلسلے میں میڈیا کے رول سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے، البتہ ادھر کے برسوں میں میڈیا کے رول میں تبدیلی آئی ہے ، لنچنگ کی وارداتوں سے یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ کیا لوگوں کے سننے، سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیتوں میں کمی آ رہی ہے یا وہ اپنی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہی نہیں چاہتے؟ یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ لوگوں میں آ رہی اس تبدیلی کی وجہ میڈیا ہے یا میڈیا میں آ رہی تبدیلی کی وجہ لوگ ہیں، کیونکہ ’جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے‘ کا خیال تبھی درست ثابت ہوتا ہے جب گھٹیا، سماج کو تقسیم کرنے والے مذموم پروگرام ہٹ ہو جاتے ہیں جبکہ میل ملاپ اور سماج کو آئینہ دکھانے والے پروگراموں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر کہیں دنگا، فساد ہوتا ہے تو وہاں کی دہشت ناک خبروں کی خوب چرچا ہوتی ہے اور اسی دنگے، فساد میں اپنی جان پر کھیل کر غیروں کو بچانے والوں کی یا تو خبر نہیں بنتی یا اتنی مختصر سی خبر بنتی ہے جیسے حیوانیت کے سامنے انسانیت کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو مگر حالات کو بدلنا ہوگا اور حالات میں تبدیلی تبھی آئے گی جب عام لوگ اپنا رول اس طرح ادا کریں گے کہ جانب دار اور امتیاز پر مبنی خبریں دیکھنے، پڑھنے اور ان پر تاثرات کا اظہار کرنے سے گریز کریں گے۔ اس سلسلے میں عدالتوں کا رول بھی اہم ہے۔ وہ مذموم خبروں پر از خود نوٹ لے کر میڈیا والوں کو یہ احساس دلا سکتی ہیں کہ ہر آزادی کی طرح میڈیا کی آزادی کی بھی ایک حد ہے۔ عدالتوں کے فیصلوں سے لوگ ان کی انصاف پسندی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے اگر ایک صحافی کے لیے عدالت کے دروازے آسانی سے کھل جاتے ہیں، اسے آسانی سے ضمانت مل جاتی ہے جبکہ دوسرے صحافی کو تاریخ تک آسانی سے نہیں مل پاتی تو عام لوگوں کے لیے عدالتوں کے فیصلوں کو سمجھنا بہت آسان نہیں ہوتا۔ وہ عدالتوں کے فیصلوں کو سمجھنے کے لیے یہ دیکھتے ہیں کہ جن صحافیوں کو ضمانت ملی، وہ کیسی صحافت کرتے ہیں اور جو صحافی ضمانت کے لیے عدالت کے دروازے پر بار بار دستک دے رہے ہیں، ان کی صحافت کیسی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے چیف جسٹس، این وی رمن صاحب کو یہ احساس ہے کہ الیکٹرانک میڈیا والے کیسی صحافت کر رہے ہیں اور پرنٹ میڈیا میں صحافت کیسی ہو رہی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ عدالتیں ان میڈیا والوں کی رہنمائی کریں گی جو اس طرح صحافت کرتے ہیں جیسے وہی پولیس، وہی منصف اور وہی عدالت ہوں، ان کا فیصلہ ہی حتمی فیصلہ ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پولیس کا کام پولیس کو اور عدالت کا کام عدالت کو ہی کرنا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS