مجبوری یا مفت خوری ؟

0

یہ بات سچ ہے کہ تہواروں کے موسم میں ڈِسکاؤنٹ والی چیزوں کی بھرمار نظر آتی ہے اور انتخابی موسم میں پارٹیاں اس طرح ’یہ دیں گے‘، ’وہ دیں گے‘کے وعدے کرتی ہیں کہ کئی بار حیرت ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں یہ ایشو سرخیوں میں رہا ہے اور اب یہ سپریم کورٹ میں ہے۔ 3 اگست کو ہندوستان کے چیف جسٹس این وی رمن کی سربراہی والے بنچ نے مفت سہولتوںپر ایک بنچ بنانے کی بات کہی ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ مفت سہولتوںکے وعدے صحیح ہیں بھی یا نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آگے کیا ہوگا، سپریم کورٹ اس معاملے میں کیا فیصلہ سنائے گا۔ فی الوقت دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ مفت سہولتیں لینے والے کیا سبھی لوگ مجبوری میں سہولتیں لیتے ہیں یا وہ مفت خوری کو برا نہیں مانتے یا ان کے پاس ہمیشہ یہ گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ مفت میں سہولتیں لینے سے انکار کر سکیں۔ ہندوستان میں عام طور پر بجلی، پانی یا پھر توانائی پر سبسڈی دی جاتی ہے۔ تعلیم بھی بڑی حد تک فری ہے۔ بڑی حد تک کہنا اس لیے ٹھیک معلوم ہوتا ہے، کیونکہ آبادی کے لحاظ سے سرکاری اسکول نہیں ہیں اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پرائیویٹ اسکول میں فیس کتنی لی جاتی ہے جبکہ کئی ملکوں میں حصول علم کی سہولتیں مفت ہیں۔ فن لینڈ میں تو کوئی شخص جب تک چاہے تعلیم حاصل کر سکتا ہے، اسے پڑھائی جاری رکھنے کے لیے فیس کے بارے میں سوچنا نہیں پڑے گا۔ فن لینڈفری ایجوکیشن کی سہولت صرف اپنے شہریوں کوہی نہیں دیتا، ان لوگوں کو بھی دیتا ہے جو ہیں تو کسی اور ملک کے شہری مگر یہاں رہتے ہیں۔ اب جواب طلب سوال یہ ہے کہ کیا فن لینڈ سے ہندوستان کا موازنہ کرنا ٹھیک ہوگا؟ اس کا جواب ایک لفظ میں ہے، نہیں! پہلی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی 138 کروڑ کی آبادی کے مقابلے میں فن لینڈ کی آبادی 55 لا کھ 30 ہزار ہی ہے یعنی ہندوستان کی آبادی کے مقابلے فن لینڈ کی آبادی 249 گنا کم ہے۔ ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی کی آبادی بھی فن لینڈ کی آبادی سے 5گنا زیادہ ہے۔ دوسری طرف فن لینڈ کی فی کس آمدنی ہندوستان کی فی کس آمدنی سے بہت زیادہ ہے۔ فن لینڈ کی فی کس آمدنی 53,745 ڈالر ہے جبکہ ہندوستان کی فی کس آمدنی 2,543 ڈالر ہے، اس لیے فن لینڈ میں مفت تعلیم کی یا کوئی اورسہولت دینا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
بات جب یوروپی ملکوں کی کی جاتی ہے تو اکثر موضوع گفتگو وہاں دی جانے والی سہولتیں ہی ہوتی ہیں جبکہ گفتگو اس پر بھی ہونی چاہیے کہ توانائی کی بچت اور ماحول کو صاف رکھنے کے لیے وہ کیا اقدامات کرتے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ کئی معاملوں میں ڈنمارک یوروپ کا ایک مثالی ملک ہے۔ وہاں تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، اچھی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول اور علاج و معالجے کے لیے لوگوں کو کافی سہولتیں فراہم کرائی جاتی ہیں مگر اسی ڈنمارک میں کار لینے کا خواب اتنی آسانی سے لوگ پورا نہیں کر پاتے جتنی آسانی سے ترقی پذیر ملکوں کے لوگ پورا کر پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈنمارک میں نئی کار خریدنے پر150 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے لوگ کار رکھنے کے بجائے سائیکل رکھنا ہی زیادہ پسند کرتے ہیں۔ سرکار نے سائیکل چلانے والوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے 12,000 کلومیٹر سے بھی زیادہ کا سائیکل ٹریک بنوایا ہوا ہے۔ سائیکل چلانے سے لوگوں کو پیسے کی بچت ہوتی ہے۔ سرکار کو اس بات کے لیے زیادہ پریشان نہیں ہونا پڑتا کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کے سائیکل چلانے کا مثبت اثر ڈنمارک کی آب و ہوا پر بھی پڑتا ہے۔ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کو ایک ایسا شہر کہا جاتا ہے جہاں آدمی کم اور سائیکلیں زیادہ ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، کوپن ہیگن کی آبادی 6 لاکھ ہے جبکہ وہاں سائیکلوں کی تعداد 6.75 لاکھ ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS