قیصر محمود عراقی
خوشامد ایک ایسی قینچی ہے جو عقل و فہم کے پر کاٹ کر انسان کو آزاد پر واز سے محروم کر دیتی ہے ، خوشامدیوں میں گھِرا ہوا انسان شیرے کے قوام میں پھنسی ہو ئی مکھی کی طرح بے بس اور معذور ہو تا ہے ، رفتہ رفتہ اس کے اپنے حواس معطل ہو جا تے ہیں اور وہ وہی کچھ دیکھتا ، سنتا ، بولتا، سونگھتا اور محسوس کر تا ہے جو چاپلوس ٹٹو چاہتے ہیں ۔ جس سربراہ مملکت کی کر سی کو خوشامد کی دیمک لگ جا ئے وہ پائیدار نہیں رہتی ، اس کے فیصلے ناقص ہوتے ہیں اور اس کی رائے دوسروں کے قبضے میں چلی جاتی ہیں ۔ حضرت معاویہ ؒ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا : ’’ ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بہت بچو کیونکہ یہ تو ذبح کر نے کے مترادف ہے ، اس فرمان رسول ﷺ سے واضح ہوا کہ کسی انسان کے سامنے اس کی تعریف کر نا اس کو ذبح، یعنی ہلاک کر نے کے مترادف ہے، یعنی ہو سکتا ہے کہ وہ شخص خود پسندی اور تکبر کا شکار اور شیطان کی طرح گمراہ ہو جا ئے ۔
افسوس کہ ہمارے معاشرے میں خوشامد کی اتنی عادت ہو چکی ہے کہ وہ شعبہ جات جہاں پر جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کے لئے ہر مشکل کا سامنا کر نے کا عہد کیا جا تا ہے وہاں خوشامد نے اپنے پنجے گاڑ دیئے ہیں ، سیاست میں اپنے رہنما کی تو جہ حاصل کر نے کے لئے خوشامد کر نا تو روایت بن چکی ہے لیکن صحافت میں افسران بالا کی تعریف میں اس حد تک آگے چلے جا نا کہ خوشامد بن جائے قابل تعریف عمل نہیں ہے ۔
ما نا کہ خوشامد کر نے والے بہت سی مراعات حاصل کر نے میں کامیاب ہو جا تے ہیں بلکہ بعض تو اس سے بھی آگے صرف اپنی ذات کے لئے افسران بالا سے گھر کی تعمیر سے بچوں کی ملازمتوں تک کے فائدے حاصل کر لیتے ہیں ۔ کسی کے بھی اچھے کام کی تعریف کر نا اچھی عادت ہے ، بچوں کی تعلیمی صلاحتیں مزید بہتر کر نے کے لئے ان کی مناسب تعریف انتہائی ضروری ہے اسی طرح سرکار ملازمین اور افسران بالا کا اپنے فرائض بہتر انداز میں سر انجام دینے پر اُن کی تعریف بھی ضروری ہے تا کہ آئندہ بھی وہ اپنے کاموں کو احسن ا نداز میں سر انجام دے سکیں ۔ لیکن ہمارے یہاں خاص طور پر چھوٹے شہروں میں افسران کی تعریف کو اس حد تک کیا جا تا ہے کہ خوشامد بن جا تی ہے ۔ ان کے لوگوں سے اور رکھے جا نے والے ہر رویہ اور عمل پر داد تحسین کے ڈھول بجائے جا تے ہیں جبکہ یہی افسران مثبت تنقید کر نے والے کو نظر انداز کر کے ایک مخصوص گروہ کو اہمیت دینا شروع کر دیتے ہیں ۔
قارئین کرام ! یہ بات بالکل درست ہے کہ تنقید برائے تنقید ایک اچھا عمل نہیں ہے، ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے جو بلا وجہ تنقید کر نا اپنا فرض سمجھتے ہیں ، ان کے پاس کوئی ٹھوس دلائل بھی نہیں ہو تے اور نہ کوئی مثبت تجاویز ہو تی ہیں ۔ اگر ضلع یا تحصیل کی بات کی جا ئے تو ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کا عہدہ ہو یا مختلف محکموں کے سر براہان اُن کی ٹرانسفر معمول کی بات ہے لیکن ہمارے یہاں پر آنے والے کو گزرے ہو ئے بہتر اور اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک ثابت کر نے میں خوشامدی ٹولہ آگے آگے ہو تا ہے ۔ یہی ٹولہ ہر آنے والے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو سب سے بہتر ثابت کر نے کے لئے ہر جگہ پہنچ جا تا ہے۔ بلکہ خوشامد کر تے کر تے یہ تک بھول جا تے ہیں کہ یہاں پہلے بھی کسی کی تعریف میں انہوں نے یہ ہی جملے دہرائے تھے اور آفرین یہ کہ ملک کے سب سے بڑے امتحانات میں کامیابی حاصل کر کے اعلیٰ عہدہ حاصل کر نے والے بھی خوشامد کر نے والوں کے گر ویدہ نظر آتے ہیں ۔ ایک لوگ تو وہ ہیں جو اپنی سیاسی ، سماجی یا صحافتی خدمات فراہم کر نے کے لئے مختلف سرکاری اداروں کے اجلاسوں یا پریس کانفرنسوں میں بلائے جا تے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو افسران کا منظور نظر بننے کے لئے دفاتر میں ڈیرے جمائے رکھنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ اعلیٰ افسران سے دوری کا ذکر نجی محفلوں اور لوگوں میں کر تے پھر تے ہیں تا کہ وہ معتبر کہلانے کے ساتھ اپنے کاروبار وں کو تحفظ بھی فراہم کر سکیں ۔
قارئین محترم ! اگر دین اسلام کی تعلیمات سے ناواقف شخص ایسی حرکت کرے تو دُکھ نہیں ہو تا کیونکہ وہ جاہل ہے مگر افسوس ہمارے اہل علم اور تعلیم یافتہ بھی اس مرض کے شکارہو چکے ہیں کہ جب ان کے سامنے ان کی خوب تعریف کی جا تی ہے اور وہ اُس تعریف کر نے والے کو منع بھی نہیں کر تے ۔ اس مرض میں سیاسی رہنمائوں سے لے کر مذہبی رہنمائوں سمیت سرکاری افسران بھی شامل ہیں ، اکثریت اس مرض کا شکار ہو چکی ہے ۔ کسی بھی سیاسی رہنما اور سرکاری افسر کو یہ سوچنا چاہیے کہ جو کام میرے سے پہلے مکمل ہو چکے ہیں ان کا کریڈیٹ مجھے کیوں دیا جا رہا ہے جبکہ خوشامد کرنے والا سابق افسر کا ذکر کر نا بھی گوارا نہیں کر تا ۔ جب کبھی بھی کوئی ایسی حکومت قائم ہو تی ہے جس کو بھاری اپوزیشن کا سامنا ہو تو سرکاری افسران حکومت وقت کی خوشنود ی کے لئے ایسے علاقوں میں جہاں بر سرِ اقتدار جماعت کو کا میابی نہیں ملی ہو تی وہاں شکست کھا جا نے والے غیر منتخب افراد کو ہر مقام اور ہر فیصلہ میں آگے آگے رکھتے ہیں اور ایسے افراد کی تعریف میں اس قدر آگے چلے جا تے ہیں کہ خوشامد کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور کچھ ایسا ہی تحصیل اور ضلع کے دیگر دفاتر میں بھی نظر آتا ہے ۔
آخر میں میں کسی معروف شاعر کاکلام آپ قارئین حضرات کی نذر کر رہا ہوں۔
خوشامد کا فن جس کو آتا نہیں ہے
اسے تو کوئی منہ لگاتا نہیں ہے ۔
خوشامد کا جو بھی ہنر جا نتے ہیں
سدا ان کا افسر کہامانتے ہیں
خوشامد کا فن جس کو آتا نہیں ہے
مرادیں کبھی دل کی پا تا نہیں ہے
بے جا خوشامدنری ایک بیماری
ملوث ہے اس میں تو اب قوم ساری
حقائق کو آنکھوں سے اوجھل ہے کرتی
گناہوں سے دل کو یہ بوجھل ہے کرتی
اسی نے ہی بہتوں کی لُٹیا ڈبو ئی
مضرت سے اس کی بچا ہے نہ کوئی
جو اچھے مصاحب چنے گر کسی نے
تو کی کا میابی ہے حاصل اسی نے
خوشامد پسند جتنے بھی حکمراں تھے
بنے سارے عبرت کا آخر نشاں تھے
خوشامد سے انسان ہو تا ہے اندھا
گلے میں ہے پڑ جا تاپھانسی کا پھندا
جو ہیں طاق مکھن لگانے میں بھائی
تو افسر کی قربت ہی انہوں نے پائی
کھری بات جو بھی ہیں کہنے کے عادی
کہیں اس کو شبہہ کے مصاحب فسادی
جو تعریف منہ پہ کسی کے ہے کر تا
ہے لازم تومٹی سے منہ اسکا بھر تا
بچو اس سے یارو یہ ہے زہر قاتل
کر ے گا خوشامد جو ہے پکا جا ہل
خوشامد ایک بیماری ہے: قیصر محمود عراقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS