چرنجیت سنگھ چنّی کو کمان، ہندوستانی سیاست میں ایک موڑ

0
Image: India TV News

شکیل اختر
انڈیا کی ریاست پنجاب میں گزشتہ ہفتے کیپٹن امریندر سنگھ کے ڈرامائی استعفے کے بعد چرنجیت سنگھ چنی نے ریاست کے نئے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا ہے۔58 برس کے چنی ریاست کے پہلے دلت وزیراعلیٰ ہیں۔ کانگریس پارٹی نے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر ایک دلت کی تقرری کو ریاست کی تاریخ میں ایک نیا باب قرار دیا ہے۔
پنجاب میں نوجوت سنگھ سدھو اور سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کے درمیان کئی مہینے سے اقتدار کے لیے رسہ کشی چل رہی تھی۔ امریندر کانگریس کے ایک طاقتور رہنما تھے۔ انھوں نے ریاست میں کانگریس کو اس وقت فتح دلائی تھی جب پورے ملک میں وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے کانگریس کو شکست فاش سے دو چار کیا تھا۔ کیپٹن امریندر سنگھ کو ریاست کے عوام میں خاصی مقبولیت حاصل تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ عوام سے دور ہونے لگے اور اپنی ہی پارٹی کے ارکان اسمبلی بھی ان سے نالاں رہنے لگے۔
یہی وہ وقت تھا، جس کا بے چین نوجوت سنگھ سدھو کو شدت سے انتظار تھا۔ وہ دھیرے دھیرے مقبول ہوتے گئے اور ارکان اسمبلی کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ آتی ہوئی نظر آئی۔ کانگریس نے کئی مرحلوں پر امریندر سنگھ اور سدھو کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کی لیکن حالات مزید پیچیدہ ہوتے گئے۔
یہ ایک دلچسپ پہلو ہے کہ پنجاب میں تقریباً 32 فیصد آبادی دلت ہے لیکن دلت کوئی ایک متحد گروپ نہیں۔ وہ الگ الگ سیاسی نظریات سے وابستہ ہیں۔ پنجاب میں نوجوت سنگھ سدھو اور سابق وزیر اعلی کیپٹن امریندر سنگھ کے درمیان کئی مہینے سے اقتدار کے لیے رسہ کشی چل رہی تھی۔
اپوزیشن اکالی دل، بی جے بی اور بی ایس پی سبھی اپنے اپنے طریقے سے دلتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں لیکن ریاست میں دلت وزیر اعلیٰ کے بارے میں ابھی تک کوئی آواز نہیں اٹھی تھی۔ پنجاب میں کچھ عرصے سے ہندو بمقالہ سکھ وزیر اعلی کی بحث نے ضرور زور پکڑا ہے۔ سکھوں میں جٹ سکھوں کا اثر زیادہ ہے اور جٹ کی جگہ ایک دلت کو وزیر اعلی بنانا ایک بڑا فیصلہ تھا۔
اخبار ٹائمز آف انڈیا نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سماجیات کے پروفیسر سریندر جوڑ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ فیصلہ ’ایک اہم قدم ہے۔ آج کی سیاست میں شناخت بہت اہم پہلو ہے۔‘
وہ ایک دلت کو وزیر اعلیٰ مقرر کرنے کے فیصلے کو محض علامتی قدم سے آگے کا ایک جرات مندانہ فیصلہ تصور کرتے ہیں لیکن ملک کے نامور صحافی ہرتوش سنگھ کا خیال ہے کہ کانگریس نے دلت کارڈ کھیل کر کیپٹن امریندر سنگھ اور نوجوت سدھو دونوں کو وقتی طور پر خاموش کرایا ہے۔
کیپٹن امریندر سنگھ نے مستعفی ہونے کے بعد نوجوت پر ملک دشمن ہونے کا الزام عائد کیا اور کہا تھا کہ اگر کانگریس نے سدھو یا ان کے کسی قریبی ساتھی کو وزیر اعلی مقرر کیا تو وہ اس کی شدت سے مخالفت کریں گے لیکن فی الحال دونوں خیموں میں خاموشی ہے۔کانگریس کے سیںئیر رہنما رنندیپ سنگھ سورجے والا نے دلی میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ کانگریس نے ایک غریب اور عام آدمی کو وزیر اعلی کا عہدہ دیا ہے۔انھوں نے کہا ’چرنجیت سنگھ چنی کی حلف برداری کے ساتھ پنجاب میں ایک نئی تاریخ رقم کی گئی ہے۔ یہ قدم دلت اور غریب طبقے کو مزید طاقت دے گا اور ان کے لیے نئے راستے کھولے گا۔‘
ریاست میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ‏عام آدمی پارٹی اصل اپوزیش پارٹی بن کر ابھری تھی۔نوجوت سنگھ سدھو اور کیپٹن امریندر کی رسہ کشی کے درمیان گزشتہ مہینے کے اواخر میں ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل اے بی پی اور سی ووٹرز کے ذریعے کیے گئے ایک جائزے میں ‏عام آدمی پارٹی کو پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے قریب پایا گیا تھا۔
عام آدمی پارٹی انتہائی جوش میں ہے اور آئندہ چند مہینوں میں پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ عام آدمی پارٹی ان میں سے اتر پردیش، اترا کھنڈ، پنجاب اور گوا میں انتخاب لڑ رہی ہے جبکہ پنجاب، گوا اور اترا کھنڈ میں اس کا اثر پہلے سے کافی بڑھا ہے۔
ان ریاستوں میں ‏‏عام آدمی پارٹی بی جے پی کے لیے ایک اہم چیلنج کے طور پر ابھر رہی ہے۔ کئی مقامات پر پارٹی نے بی جے پی کو دفا‏عی رخ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔پنجاب میں کانگریس کو اصل چیلنج بی جے پی اور اکالی دل سے نہیں بلکہ ‏عام آدمی پارٹی سے ہے۔ کانگریس نے ریاست میں کسی نئے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے ایک دلت وزیر اعلی ضرور مقرر کیا ہے لیکن ریاست کی اصل قیادت اب سدھو کے ہاتھ میں ہوگی۔ وہ ریاست کی انتخابی کمیٹی کے سربراہ ہیں اور الیکشن انھی کی قیادت میں لڑا جائے گا۔ نوجوت سنگھ سدھو کانگریس کے نہیں بلکہ ملک کی سیاست میں تیزی سے ابھرتے ہوئے ایک سیاسی ستارہ ہیں۔انھوں نے پہلے مرحلے میں اپنے سبھی حریفوں کو حاشیے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ان کا اصل امتحان اسمبلی انتخاب میں ہو گا۔ پنجاب کا آئندہ انتخاب نوجوت سنگھ سدھو اور عام آدمی پارٹی دونوں کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
چرنجیت سنگھ چنّی: انڈین پنجاب کے پہلے دلت وزیر اعلیٰ کون ہیں؟چرنجیت سنگھ چنّی انڈیا کے پنجاب میں دلت برادری کے پہلے رہنما ہیں جنھیں ریاست کے وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کا موقع ملا ہے۔چرنجیت سنگھ چنّی، چمکور صاحب اسمبلی حلقے سے جیت کر وِدھان سبھا یعنی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔2007 میں چرنجیت سنگھ نے پہلی بار آزاد امیدوار کی حیثیت سے اسمبلی انتخاب جیتا لیکن سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے انھیں کانگریس میں شامل کروایا۔ اُنھوں نے کانگریس کے ٹکٹ پر سنہ 2012 کے اسمبلی انتخابات جیتے تھے۔
چرنجیت سنگھ کیپٹن امریندر سنگھ کی کابینہ میں تکنیکی تعلیم اور صنعتی تربیت، سیاحت اور ثقافتی امور کے وزیر تھے۔ چرنجیت سنگھ کے تین بھائی ہیں۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ، منوہر سنگھ اور سکھونت سنگھ۔ چرنجیت سنگھ چنّی کی بیوی کملجیت کور ڈاکٹر ہیں اور ان کے دو بیٹے ہیں۔
چرنجیت سنگھ خاندان کے قریبی ساتھی بال کرشنا بٹو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خاندان روپڑ کے علاقے میں ایک پیٹرول پمپ اور ایک گیس ایجنسی کا مالک ہے۔
چنّی کے والد ہرش سنگھ چند روزگار کے لیے کئی سال عرب ممالک میں رہے۔ انڈیا واپس آ کر اُنھوں نے موہالی میں ٹینٹ ہاؤس کا کاروبار شروع کیا۔
بال کرشنا بٹو نے بی بی سی کو بتایا کہ جوانی کے دنوں میں چنّی اپنے والد کے کام میں ان کی مدد کرتے تھے اور وہاں بلدیہ کے کونسلر بننے کے بعد بھی انھوں نے خیمے لگانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ان کے بھائی ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ چنّی نے چندی گڑھ کے گروگووند سنگھ خالصہ کالج میں تعلیم حاصل کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔ اس کے بعد چرنجیت سنگھ نے پنجاب ٹیکنیکل یونیورسٹی سے ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی۔ چرنجیت سنگھ کے ایک اور قریبی ساتھی مکیش کمار منکا کا کہنا ہے کہ مطالعے میں ان کی دلچسپی اتنی زیادہ تھی کہ وزیر ہونے کے بعد بھی وہ پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔
58 برس کے چرنجیت سنگھ چنّی کا سیاسی سفر سنہ 1996 میں شروع ہوا جب وہ کھر بلدیہ کے چیئرمین بنے۔ اس دوران ان کی ملاقات کانگریس کے سینئیر رہنما رمیش دت سے ہوئی۔ سیاست میں وہ ابتدائی دنوں سے ہی رمیش دت سے رابطے میں رہے۔ اگرچہ چرنجیت سنگھ دلت کانگریس لیڈر چوہدری جگجیت سنگھ کے ساتھ بھی رابطے میں تھے لیکن سنہ2007 کے انتخابات میں اُنھیں ٹکٹ نہیں مل سکا۔ چرنجیت سنگھ نے فیصلہ کیا کہ وہ چمکور صاحب سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔ان کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا اور وہ یہ انتخاب جیت گئے۔
سنہ 2012 میں جب کیپٹن امریندر سنگھ نے انھیں ٹکٹ دیا تو وہ ایک بار پھر جیت کر صوبائی اسمبلی تک پہنچ گئے۔ 2015 سے 2016 تک وہ سنیل جاکھڑ کے بعد پنجاب قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔کیپٹن امریندر سنگھ کی حکومت کے ادھورے وعدوں کے خلاف بلند ہونے والی آوازوں میں چرنجیت سنگھ کی آواز بھی شامل تھی۔کہا جاتا ہے کہ اُنھوں نے پنجاب کانگریس کمیٹی کی سربراہی نوجوت سنگھ سدھو کو دینے کی بھی حمایت کی تھی۔
ریاستی اسملبی میں کانگریس کے نئے وزیر اعلیٰ کے طور پر چرنجیت سنگھ کے نام کے اعلان کے ساتھ ساتھ بی جے پی پنجاب کے ایک رہنما نے ٹوئٹر پر ان سے متعلق تین سال پرانے کیس کا بھی حوالہ دیا۔ سنہ 2018 میں جب چرنجیت سنگھ وزیر تھے تو ان پر ایک خاتون آئی اے ایس افسر کو ’نامناسب پیغامات‘ بھیجنے کا الزام لگا تھا۔ جب یہ معاملہ اٹھا تو اس وقت کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے بیان دیا تھا کہ ’جب یہ معاملہ چند ماہ قبل میرے نوٹس میں لایا گیا تو میں نے وزیر چرنجیت سنگھ سے کہا کہ وہ خاتون افسر سے معافی مانگیں اور وزیر نے ان سے معافی مانگ لی تھی۔‘
اس وقت چرنجیت سنگھ نے اپنی وضاحت میں کہا تھا کہ ’ٹیکسٹ میسج غیر ارادی طور پر خاتون افسر کے موبائل نمبر پر چلا گیا تھا اور اب معاملہ حل ہو گیا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS