ڈاکٹر جینتی لال بھنڈاری
اس وقت لاجسٹک لاگت سے متعلق مختلف قومی اور بین الاقوامی رپورٹوں میں کہا جارہا ہے کہ ہندوستان میں لاجسٹک لاگت میں کمی کرکے پیداوار اور برآمد میں تیزی سے اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹریفک مینجمنٹ میں سدھار کرکے جہاں لاجسٹک لاگت کم کی جاسکتی ہے، وہیں وقت اور توانائی کی بچت کرتے ہوئے حادثات میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے۔ غورطلب ہے کہ ملک میں ایک دو برس میں لاجسٹک لاگت میں کچھ کمی نظر آنے لگی ہے۔ ورلڈ بینک کے لاجسٹک پرفارمینس انڈیکس-2023 میں ہندوستان 6پائیدان کی چھلانگ کے ساتھ 139ممالک کی فہرست میں 38ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔ 2018میں 44ویں اور 2014میں 54ویں مقام پر تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں اکتوبر، 2021 میں اعلان کردہ قومی لاجسٹکس پالیسی(این ایل پی) کے عمل درآمد اور 2020 سے نافذ پیداوار پر مبنی ترغیبی اسکیم (پی ایل آئی) کے ابتدائی متوقع نتائج سے لاجسٹک لاگت میں کمی آنے کا منظر بننے لگا ہے۔
لاجسٹک پرفارمینس انڈیکس کے تحت کچھ اہم پیرامیٹرز، انفرااسٹرکچر، انٹرنیشنل شپمنٹ اور لاجسٹک صلاحیت سے متعلق ہندوستان کی سبقت کی پوری دنیا میں نشاندہی ہورہی ہے۔ ماڈرنائزیشن اور ڈیجیٹلائزیشن سے بھی لاجسٹک پرفارمینس بہتر ہوئی ہے۔ عام طور پر پیداوار میں کچے مال کی لاگت پہلے نمبر پر اور مزدوروں کی لاگت دوسرے نمبر پر ہوتی ہے۔ پھر لاجسٹک لاگت کا نمبر آتا ہے۔ لاجسٹک لاگت کا مطلب ہے، مصنوعات اور سامان کو پیداوار کی جگہ سے منزل مقصود تک پہنچانے تک لگنے والے نقل و حمل، گودام و دیگر خرچ۔ لاجسٹک لاگت کم یا زیادہ ہونے میں بنیادی انفرااسٹرکچر کا اہم کردار ہوتا ہے۔ سڑکیں بہتر اور دیگر بنیادی ڈھانچہ کی مناسب سہولتیں ہوں تو تیزی سے سامان پہنچنے، ٹرانسپورٹ سے متعلق چیلنجز اور ایندھن لاگت کم ہونے سے بھی لاجسٹک لاگت کم ہوجاتی ہے۔ اگر مقررہ وقت میں بنیادی انفرااسٹرکچر سے متعلق پروجیٹکس پورے ہوجاتے ہیں تو بھی لاجسٹک لاگت میں کمی آتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گتی شکتی یوجنا تقریباً 100لاکھ کروڑ روپے کا اولوالعزم پروجیکٹ ہے، جس کا ہدف ملک میں مربوط بنیادی انفرااسٹرکچر کا ڈیولپمنٹ کرنا ہے۔ درحقیقت ملک میں سڑک، ریل، آبی گزرگاہوں وغیرہ کا جو انفرااسٹرکچر ہے، وہ الگ الگ 16وزارتوں اور محکموں کے تحت ہے، ان کے مابین تال میل اور رابطہ میں اضافہ کرنا گتی شکتی یوجنا کا اہم فوکس ہے۔ حقیقت میں نئی لاجسٹک پالیسی گتی شکتی یوجنا کی سپلیمنٹری ہے۔ نئی لاجسٹک پالیسی کے ذریعہ 10برس میں لاجسٹکس سیکٹر کی لاگت 10فیصد تک لائی جائے گی۔ چوں کہ موجودہ وقت میں لاجسٹکس کا زیادہ تر کام سڑکوں کے ذریعہ ہوتا ہے، لہٰذا نئی پالیسی کے تحت ریل ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ شپنگ اور ایئر ٹرانسپورٹ پر زور دیا جارہا ہے۔ تقریباً 50فیصد کارگو ریلوے کے ذریعہ بھیجے جانے کا ہدف آگے بڑھایا جارہا ہے اور سڑکوں پر ٹریفک کو کم کیا جارہا ہے۔ اس وقت مرکزی حکومت سڑک اور ریلوے ٹریک، دونوں میں سدھار پر توجہ دے رہی ہے۔ شہروں اور صنعتی و تجارتی مراکز کے درمیان کی دوری کم کرنے کے لیے ڈیڈیکیٹیڈفریٹ کوریڈور کے ذریعہ ریلوے ٹریک سے مال ڈھلائی تیز کرنے کا نظم کررہی ہے تو ملک کے تقریباً ہر حصہ میں گرین فیلڈ ہائی وے پروجیکٹ چل رہے ہیں۔ ہائی ویز پر مبنی انڈسٹریل کوریڈور بھی بنائے جارہے ہیں۔
یہ بات بھی واضح طور پر نظر آرہی ہے کہ بنیادی انفرااسٹرکچر کے تحت سڑکوں، ریلوے، بجلی اور ہوائی اڈوں کے علاوہ بندرگاہ سے متعلق سڑک اور ریل کنیکٹوٹی میں بھی نجی سرمایہ کاری کی روانی اہم کردار ادا کررہی ہے۔ سفر کی بنیاد پر ہندوستان کی تقریباً 95فیصد غیرملکی تجارت سمندری راستہ سے ہوتی ہے۔ جدید ترین بندرگاہ پالیسی کے تحت بندرگاہ ’لینڈلارڈ ماڈل‘ کی شروعات کے ساتھ حکومت کی ملکیت والی ’اہم بندرگاہ‘ کی آپریشنل ذمہ داریاں پرائیویٹ سیکٹر کو سونپنے کی حکمت عملی کے سبب بندرگاہ ڈیولپمنٹ اور آپریشنز میں گھریلو اور غیرملکی پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت داری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ملک کے کونے کونے کے شہری حصوں میں سڑکوں پر گاڑیوں کی بھرمار اور اس سے ٹریفک میں ہونے والی دشواریوں سے جہاں وقت اور توانائی کا نقصان ہوتا ہے، وہیں پیداوار اور جی ڈی پی پر بھی اثر پڑتا ہے۔ عام طور پر عالمی سطح کی سڑکوں کے معیار پر سڑک کی تعمیر پر کافی رقم خرچ کی جاتی ہے مگر ٹریفک کو آسان بنانے کے پس منظر میں مناسب پارکنگ پر مناسب خرچ پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ایسے میں گاڑی کے ڈرائیور سڑکوں کے کسی بھی حصہ پر گاڑی کھڑا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس سے آمدورفت میں پریشانی ہوتی ہے۔ سڑکوں پر بڑی تعداد میں لوگ تناؤ، بحث و مباحثہ اور حادثات کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ 15مئی2023کو روڈ ایکسیڈنٹ سیمپلنگ سسٹم فار انڈیا کے ڈیٹابیس کی بنیاد پر باش لمیٹڈ کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 2021میں سڑکوں پر پیدل چلنے والے زخمی لوگوں کی تعداد 29200تھی جو یوروپ اور جاپان کے مشترکہ سڑک حادثات سے زیادہ تھی۔ ایسے میں شہروں میں سڑک اور ٹریفک نظام میں سدھار کے لیے قدم بڑھانا ضروری ہے۔
(مضمون نگار ماہرمعاشیات ہیں)