آخر کار بی جے پی نے پارٹی ترجمان نوپورشرما کو 6سال کے لئے معطل کردیا، یہی نہیں دہلی بی جے پی کے میڈیاانچارج نوین جندل کوبھی پارٹی سے باہر کاراستہ دکھادیااور ساتھ ہی صفائی بھی پیش کی کہ پارٹی تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے ۔پارٹی کے ترجمان ارون سنگھ کا کہنا ہے کہ پارٹی کسی بھی ایسے نظریہ کے خلاف ہے جوکسی بھی کمیونٹی یا مذہب کی توہین کرتاہے۔وہ ایسے توہین کرنے والوں کی حمایت نہیں کرتی ۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بی جے پی ایسے کسی بھی نظریہ کو نہ تو قبول کرتی ہے اورنہ اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔ملک کا آئین بھی ہر شہری سے تمام مذاہب کا احترام کرنے کی توقع کرتاہے ۔ پارٹی کسی بھی مذہبی ہستی یا شخصیت کی توہین کی سخت مذمت کرتی ہے۔ہمیں ملک کی سالمیت ، یکجہتی اور ترقی کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ پارٹی نے اپنے بیان یا صفائی میں کسی کا نام تو نہیں لیا لیکن فوراً بعد نوپور شرما اورنوین جندل کے خلاف تادیبی کارروائی کرکے اشارہ کردیا کہ ان کی کرتوت کے تناظرمیں پارٹی کو یہ سب کرنا پڑاہے ۔تاہم ایسا کرنے میں پارٹی نے دیر کردی پھر بھی یہی کہا جائے گا کہ ’دیر آید درست آید‘۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تادیبی کارروائی کے بعد نوپور شرمانے کہا ہے کہ اگرمیری باتوں سے کسی کے جذبات مجروح ہوئے تو میں اپنے الفاظ واپس لیتی ہوں۔ میری منشاکسی کو ٹھیس پہنچانے کی نہیں تھی۔ بتایاجاتا ہے کہ پارٹی کو یہ سب کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کیونکہ کانپور کے تشددسے نوپورشرماکا متنازع بیان جوڑکردیکھا جارہا تھااوریہ کہا جانے لگا ہے کہ متنازع بیان کے خلاف احتجاج میںوہاں دکانیں بند کرانے کی کوشش کی گئی جس کے بعد 2 فرقوں میں لڑائی ہوئی اور حالات کشیدہ ہوگئے ۔بات اتنی بڑھ گئی کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق20پولیس اہلکارسمیت 40افراد زخمی ہوگئے اور سیکڑوں لوگوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ،جن میں سے کچھ کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ۔اس طرح حرکت کسی اورنے کی اورنقصان کسی اورکو ہوا ۔جو مقدمات کانپور میں درج کئے گئے اگر شروع میں نوپور شرما کے خلاف درج کرلیا جاتا ،جن کے خلاف پارٹی نے تاخیر سے تادیبی کارروائی کی ہے توشاید کانپور میں احتجاج ، کشیدگی اورتشددکی نوبت نہیں آتی۔ اسی طرح دہلی فسادات سے قبل بھی ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ایسے لوگوں پر کوئی آنچ نہیں آئی۔خوش آئندبات ہے کہ پارٹی نے دیر سے سہی نوپورشرما کے متنازع بیان سے خود کو الگ کرلیا۔
نوپورشرمانے ایک ٹی وی ڈبیٹ میں پیغمبراسلام کے خلاف متنازع بیان دیا تھا جبکہ نوین جندل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پرماحول بگاڑنے والی متنازع باتیں کہی تھیں۔ بہرحال دونوں کے خلاف تادیبی کارروائی ہوگئی ، کیوں ہوئی؟ اورکس تناظر میں ہوئی ؟ یہ سبھی کوپتہ چل گیا ۔ متنازع یا دھمکی آمیز بیانات دینے والے ملک میں یہی 2لیڈرنہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کی طویل فہرست ہے ، جن کے بیانات وقتاًفوقتاً آتے رہتے ہیں ،لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ چھوٹے لیڈروں کو حوصلہ بڑے لیڈروں کے بیانات سے ملتا ہے۔ پارٹی نے جو وضاحتی بیان جاری کیا ہے ، اگریہی بات وہ اپنے لیڈروں سے حکم کے طور پر کہے تو آئندہ اس طرح کے حالات کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ مذہب ،مذہبی پیشوااور مذہبی کتب بہت ہی حساس معاملے ہیں ۔لوگوں کے جذبات واحساسات ہی نہیں بلکہ ان کے عقائد بھی ان سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان کے خلاف بولنا یانازیباحرکت کرنا ماحول خراب کرنے کی دعوت دینا ہے ۔ کوئی بھی اپنے مذہب ، مذہبی پیشوا اورمذہبی کتب کی توہین برداشت نہیں کرتا ۔ یہ بات بارہا تجربے میں آچکی ہے ۔پھر بھی غیر ارادتاً نہیں ارادتاً وہی غلطی دہرائی جاتی ہے۔تاکہ کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوں اورجب ہنگامہ ہو تو سستی شہرت حاصل ہویا پولرائزیشن کی وجہ سے ووٹ ملے ۔
کانپور کا تشدد بھی غلط اورنوپور شرما کی باتیں بھی غلط ۔ کسی کے لئے جواز نہیں پیدا کیا جاسکتا ۔غلط کو فوراً ہی غلط کہنا چاہئے، اس میں ذرابھی تاخیر نہیں کرنا چاہئے اورنہ ہی کسی کے ردعمل کا انتظار کرنا چاہئے۔جیساکہ نوپور شرماکے معاملہ میں دیکھا گیا، کیونکہ کرتا کوئی اورہے، نزلہ کہیں اورگرتاہے اورخمیازہ کوئی اور بھگتتا ہے۔ اگرمعاملہ کو جڑمیں ہی ختم کردیں توآگے بات نہیں بڑھے گی اور ناخوش گوارواقعات پیش نہیں آئیں گے ۔حالات سے سبق سیکھنا چاہئے ۔
[email protected]
دیر آید درست آید
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS