پنکج چترویدی
ہر سال کی طرح ہانپتی-گھٹن محسوس کرتی دہلی میں ایک خاموش خطرہ نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ (NO2) کا بھی خوفناک شکل میں ہے، یہ بات دہلی اسٹیٹ پولیوشن کنٹرول سینٹر یعنی ڈی پی سی سی کے ریئل ٹائم ڈاٹا سے منکشف ہے جس کے مطابق دہلی میں کئی جگہ NO2 کی سطح 2 سے 4 گنا بڑھی ہوئی ہے۔ یہ حالات تب ہیں جب دہلی میں ڈیژل سے چلنے والے ٹرکوںکی آمد پر سخت پابندی عائد ہے۔ ہم پی ایم 10اور 2.5 پر فکرمند ہیں جب کہ NO2کا اس طرح بڑھنا اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق ایک سے 25 نومبر کے دوران راجدھانی میں NO2 کی سطح اوسطاً 65 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر درج ہوئی ہے۔ NO2 کے اخراج کا اہم سبب سی این جی گاڑیوں کا بڑھتا استعمال ہے اور راجدھانی میں بڑھتے دمّے کے معاملات کا اصلی قصوروار یہی ہے۔
اسی سال جولائی-21 میں جاری کی گئی رپورٹ ’بیہائنڈ دی اسموک اسکرین: سیٹیلائٹ ڈاٹا ریویل ایئر پالیوشن انکریز اِن انڈیاز ایٹ موسٹ پاپولس اسٹیٹ کیپٹلس‘‘ (Behind the Smokescreen: Satellite Data Reveal Air Pollution. Increase in India’s Eight Most Populous State Capitals.) متنبہ کر رہی تھی کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں دہلی سمیت ملک کے کئی بڑے شہروں میں نائیٹروجن آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔ سیٹیلائٹ ڈاٹا کے تجزیے کی بنیاد پر گرین پیس انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اپریل 2020 کے مقابلے میں اپریل 2021 میں دہلی میں نائیٹروجن آکسائیڈ کی مقدار 125 فیصد تک زیادہ رہی۔ دراصل گزشتہ سال اور اس سال اپریل میں اگر موسم ایک جیسا ہوتا تو یہ اضافہ اور زیادہ یعنی 146 فیصد تک ہو سکتا تھا۔ دیہی علاقوں میں تو نائیٹروجن آکسائیڈ کے بڑھنے کے سبب کھیتی میں اندھادھند کیمیائی کھاد کا استعمال، مویشی پروری وغیرہ ہوتا ہے لیکن بڑے شہروں میں اس کا بنیادی سبب محفوظ یا گرین فیول کہے جانے والی سی این جی گاڑیوں کا اخراج ہے۔ واضح ہو کہ نائیٹروجن کی آکسیجن کے ساتھ گیسیں جنہیں ’آکسائیڈ آف نائیٹروجن‘ کہتے ہیں، انسانی زندگی اور ماحولیات کے لیے اتنی ہی نقصان دہ ہیں جتنی کاربن آکسائیڈ یا مونو آکسائیڈ۔
یوروپ میں ہوئی ریسرچ کے مطابق سی این جی گاڑیوں سے نکلنے والے نینو میٹر (این ایم) سائز کے بے حد باریک ذرّات کینسر، الزائمر، پھیپھڑوں کے امراض کو کھلی دعوت دیتے ہیں۔ ۔۔۔ پورے یوروپ میں اس وقت محفوظ ایندھن کی شکل میں گاڑیوں میں سی این جی کے استعمال پر ریسرچ ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ یورو-6 سطح کی سی این جی گاڑیوں کے لیے بھی ذرّات کے اخراج کی کوئی زیادہ سے زیادہ حد مختص نہیں ہے اور اسی لیے اس سے پیدا ہو رہی فضائی آلودگی اور اس کے انسان کی زندگی پر برے اثرات اور عالمی ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ ماحولیات دوست کہے جانے والے اس ایندھن سے بے حد مائیکرو لیکن مہلک 2.5 این ایم(نینو میٹر) کا اخراج پٹرول-ڈیژل گاڑیوں کی نسبتاً 100 سے 500 گنا زیادہ ہے۔ بالخصوص شہری ٹریفک میں جہاں گاڑیاں بہت آہستہ چلتی ہیں، ہندوستان جیسے زیادہ انتہائی گرمی کے ماحول میں سی این جی گاڑیاں اتنی موت تقسیم کر رہی ہیں جتنی ڈیژل کار، بسیں نقصان کر رہی تھیں۔ بس کاربن کے بڑے پارٹیکل کم ہوگئے ہیں۔ یہی نہیں یہ گاڑیاں فی کلومیٹر چلنے میں 20 سے 66 کلوگرام امونیا اخراج کرتی ہیں جو گرین ہاؤس گیس ہے، جس کا رول اوزون چھتری کو تباہ کرنے میں ہے۔
یہ سچ ہے کہ سی این جی گاڑیوں سے دیگر ایندھن کے مقابلے میں پارٹیکولیٹ میٹر 80 فیصد اور ہائیڈروکاربن 35 فیصد کم خارج ہوتا ہے لیکن اس سے کاربن مونو آکسائیڈ اخراج پانچ گنا زیادہ ہے۔ شہروں میں اسموگ اور ماحولیات میں اوزون لیئر کے لیے یہ گیس زیادہ مہلک ہے۔
ماحولیات میں ’آکسائیڈ آف نائیٹروجن‘ گیس زیادہ ہونے کا راست اثر انسان کے نظام تنفس پر پڑتا ہے۔ اس سے پھیپھڑوں کی صلاحیت کم ہوتی ہے، سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ ’آکسائیڈ آف نائیٹروجن‘ گیس ماحول میں موجود پانی اور آکسیجن کے ساتھ مل کر تیزابی بارش کر سکتی ہے۔ سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ کے 2011 کی ایک ریسرچ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ سی این جی ماحولیاتی کمیوں کے بغیر نہیں ہے، یہ کہتے ہوئے کہ سی این جی جلانے سے ممکنہ خطرناک کاربونل اخراج کی سب سے اونچی شرح پیدا ہوتی ہے۔ ریسرچ کے مطابق ریٹروفیٹیڈ سی این جی کار انجن 30 فیصد زیادہ میتھین خارج کرتے ہیں۔ برٹش کولمبیا یونیورسٹی کی ایک اسٹڈی میں کانر رینولڈس اور ان کے ساتھی ملند کانڈلیکر نے گاڑیوں میں سی این جی استعمال کرنے کے سبب گرین ہاؤس گیسوں-کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کے اثرات پر ریسرچ کی تو پایا کہ اس طرح کے اخراج میں 30 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ان گیسوں کے سبب ماحولیاتی درجۂ حرارت میں۔ خیال رہے کہ سی این جی بھی پٹرول ڈیژل کی طرح فوسل ایندھن ہی ہے۔ یہ بھی قبول کرنا ہوگا کہ گرین ہاؤس گیسوں کی نسبت ایئروسول (پی ایم) قلیل مدتی ہوتے ہیں، ان کا اثر زیادہ علاقائی ہوتا ہے اور ان کی کولنگ اور ہیٹنگ کی حد ابھی بھی کافی غیریقینی ہے۔ جب کہ گرین ہاؤس گیسوں سے ہونے والا نقصان وسیع اور عالمی ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ڈیژل-پٹرول بھی خطرناک ہیں اور اس کا متبادل بنی سی این جی بھی- دنیا کو اس وقت زیادہ سے زیادہ توانائی کی ضرورت ہے۔ جدید ترقی کا تصور بغیر انجن کی تیز رفتار کے ممکن نہیں اور اس کے لیے ایندھن پھونکنا ہی ہوگا۔ ان دنوں شہری گاڑیوں میں متبادل توانائی کے طور پر بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں لائی جارہی ہیں لیکن یہ یاد نہیں رکھا جارہا کہ پانی، کوئلہ یا ایٹم سے بجلی پیدا کرنا ماحولیات کے لیے اتنا ہی زہریلا ہے جتنا ڈیژل پٹرول پھونکنا- بس فوسل ایندھن کی دستیابی کی حد ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ خراب ہوگئی بیٹری سے نکلا تیزاب اور سیسہ اکیلے فضا ہی نہیں بلکہ زمین کو بھی بنجر بنا دیتا ہے۔ شمسی توانائی کو محفوظ کہنے والے یہ نہیں بتاپارہے ہیں کہ گزشتہ دس سال میں ساری دنیا میں جو شمسی توانائی کے لیے قائم کنورٹرس کی عمر ختم ہونے پر اسے کیسے نمٹایا جائے گا، کیوں کہ اس میں کیڈمیم، سیسہ جیسی ایسی دھاتیں ہیںجنہیں لاوارث چھوڑنا فطرت کے لیے مستقل نقصان دہ ہوگا لیکن اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
سی این جی سے نکلی نائیٹروجن آکسائیڈ اب انسانی زندگی کے لیے خطرہ بن کر ابھر رہی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہم جدیدیت کے جنجال میں ان خطروں کو پہلے نظرانداز کرتے ہیں جو آگے چل کر خوفناک ہوجاتے ہیں۔ خیال رہے کہ فطرت کے برعکس توانائی، ہوا، پانی کسی کا بھی کوئی متبادل نہیں ہے۔ فطرت سے زیادہ پانے کا کوئی بھی طریقہ انسان کو تکلیف ہی دے گا۔
[email protected]