موسمیاتی تبدیلی معاہدہ یا منافقت

0

موسمیاتی تبدیلیوں اورماحول پر پڑرہے اس کے اثرات کے تعلق سے دنیا بھر میں فکرمندی کا اظہار کیا جاتا ہے اوراس کے خلاف فوری اقدامات کرنے پر بھی تمام ممالک متفق ہوجاتے ہیں۔اقوام متحدہ کانفرنس اور اجلاس کا انعقاد بھی کرتا ہے لیکن ان کے نتائج وہ نہیں نکلتے ہیںجن کا دعویٰ کیاجاتا ہے۔ اس سال بھی اقوام متحدہ نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں دنیا کے 190 ممالک کے 35ہزار سے زائد مندوبین کو اکٹھا کیا ہے۔ ان مندوبین میں 90ممالک کے سربراہان مملکت بھی شامل ہیںجو دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی پر اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ COP-27 یعنی کانفرنس آف دی پارٹیز(آف یونائیٹڈ نیشنز کلائمیٹ چینج کانفرنس )کے نام سے ہورہی اس کانفرنس میںدنیا کوا نسانوں کے رہنے کے لائق برقرار رکھنے کیلئے مختلف طرح کی تجاویز کو معاہدے کی شکل دی گئی ہے اورآج اقوام متحدہ نے اس کا پہلا مسودہ جاری کیا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مسودے میں ان ہی باتوں کا اور عزائم کا اعادہ کیا گیا ہے جوبرطانیہ کے گلاسکو میںCOP 26کے دوران طے کی گئی تھیں۔ حتیٰ کہ اس پہلے مسودہ میں ہندوستان کی اس تجویز کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے جس میں وزیراعظم نریندر مودی نے حیاتیاتی ایندھن کو مرحلہ وار طریقے سے ختم کرنے کی بات کہی تھی اور یوروپی یونین سمیت کئی ممالک نے اس کی حمایت کی تھی۔ہندوستان نے ہفتے کے روز تجویز پیش کی تھی کہ اس کانفرنس کااختتام صرف کوئلہ ہی نہیں بلکہ تمام حیاتیاتی ایندھن کے استعمال کو مرحلہ وار طریقہ سے ختم کرنے کے فیصلہ پر ہونا چاہیے۔اس وقت یوروپی یونین کے نائب صدر فرانس ٹیمرمینس نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ یوروپی بلاک ہندوستان کی تجویز کی حمایت کرے گا لیکن جب آج پہلا مسودہ جاری کیاگیاتو اس میں اس کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا، اس کے برخلاف موسمیاتی معاہدہ کے اس مسودہ میںکہاگیا ہے کہ متعلقہ ممالک کوئلہ سے حاصل ہونے والی توانائی کے غیرمتوازن استعمال کو مرحلہ وار طریقے سے کم کریں گے۔
مسودہ متن میں عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کیلئے صنعت سے پہلی کی سطح سے 2ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے تاہم اس میں یہ نہیں بتایاگیا ہے کہ درجہ حرارت کی تحدید نہ ہونے کی صورت میں ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کیلئے ترقی پذیر اورغریب ممالک کو مالی سہولیات کب شروع کی جائیں گی۔ اس کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی کررہے کم و بیش تمام ممالک کے وزرانے یہ تجویز دی تھی کہ اس موسمیاتی سربراہی اجلاس میں ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی آفات سے ہونے والے نقصانات سے نکلنے میں مدد کیلئے ایک فنڈ قائم کرنا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح پر اقوام کے بنائے ہوئے ہر ادارہ پر ترقی یافتہ ممالک کاہی تسلط ہے اور وہ ایسی ہر کوشش کو ناکام بنادیتے ہیںجس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کی ترقی کی قیمت پسماندہ، غریب اور ترقی پذیر ممالک کے عوام ادا کررہے ہیں۔ نام نہاد پہلی دنیا کے ممالک ترقی کے جس برق رفتار گھوڑے پر سوار ہیں، اس کے سموں سے نکلنے والاغبار کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شکل میںپوری دنیا میں زہر پھیلارہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی شکل میں زمین کی حدت بڑھتی جارہی ہے۔ موسموں کاپیٹرن بدل رہا ہے، گلیشیرپگھل رہے ہیں۔ گرم علاقوں میں سردی پڑ رہی ہے اورٹھنڈے ممالک میں لوگ گرمی سے بے حال ہورہے ہیں۔ غریب ممالک پر اس زہر کے اثرات تو انتہائی تباہ کن نظر آرہے ہیں، ان ہی وجوہات کے مد نظر ترقی پذیر ممالک نے فنڈ قائم کرنے کی تجویز بھی دی تھی مگر اس پر کسی نے کان نہیں دھرا۔اس کے برخلاف ترقی یافتہ ممالک کی کوشش یہ رہی ہے کہ کاربن اخراج کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دی جائے۔ لیکن ہندوستان نے ان ممالک کی اس حکمت عملی کوکامیاب ہونے نہیں دیا تھا، اس معاملہ میں ہندوستان کو بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور بھوٹان حتیٰ کہ چین اور پاکستان کی بھی حمایت حاصل رہی اور کانفرنس میں بحث و مذاکرہ کا بنیادی نکتہ ’ حیاتیاتی ایندھن ‘ کے گرد گھومتا رہا۔یوروپی یونین اور دیگر ممالک نے ہندوستان کے موقف کی تائید و حمایت بھی کی لیکن معاہدہ کا مسودہ ان کی منافقت کی پول کھول گیا۔اور یہ بھی ظاہر ہوگیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے تعلق سے چاہے جتنی فکرمندی کا اظہار کرلیا جائے اور کانفرنس اور سربراہی اجلاس منعقد کرلیے جائیں، پہلی دنیا کے ممالک گرین ہائوس گیسز، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج، حیاتیاتی ایندھن کے استعمال کو کم کرکے اپنی ترقی کی رفتار سے سمجھوتہ نہیں کرنے والے ہیں۔ اور اس کی قیمت دنیا کے غریب،پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو ہی چکانی پڑے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS