اروند گپتا
آئندہ سال یکم جنوری سے چین اپنے یہاں ایک نیا اراضی قانون نافذ کرنے جارہا ہے، جو اس کے سرحدی علاقوں کے تحفظ کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس قانون کے التزامات اب تک پوری طرح سے واضح نہیں ہیں، اسی لیے اس سے متعلق قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ چین 14ممالک کے ساتھ اپنی 22ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ لمبی سرحد شیئر کرتا ہے۔ منگولیا اور روس کے بعد ہندوستان سے ہی اس کی سب سے زیادہ سرحدیں ملی ہوئی ہیںاور سب سے زیادہ تنازع بھی یہیں ہے۔ اسی وجہ سے نئے قانون کو ہندوستان کے خلاف سمجھا جارہا ہے اور جواز دیے جارہے ہیں کہ نئی دہلی کے ساتھ چل رہے سرحدی تنازع پر بیجنگ نے یکطرفہ کارروائی کی ہے۔ بدھ کو ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اپنے بیان میں تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اس قانون کی آڑ میں کہیں چین دوطرفہ سرحدی مذاکرات پر منفی اثر نہ ڈالے۔ حالاں کہ قانون ایسے مذاکرات کا احترام کرنے کی وکالت کرتا ہے، لیکن زمین پر اسے کس شکل میں اُتارا جائے گا، یہ دیکھنے والی بات ہوگی، اور اسی پر ہندوستان کا اگلا قدم بھی منحصر ہوگا۔
دراصل اس پورے تنازع کی وجہ میڈیا میں شائع ہوئے کچھ الفاظ ہیں۔ خبروں کے مطابق، یہ قانون ’چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو برقرار رکھتا ہے‘ اور قوم کو کہتا ہے کہ ’وہ اس کی سالمیت کا تحفظ کرنے یا اسے کمزور کرنے والی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب قدم اٹھائے۔‘ چوں کہ اس میں متنازعہ سرحدی علاقہ پر بھی اپنا حق جتایا گیا ہے، اس لیے اس قانون کا ایک اشارہ یہ ہے کہ اب سرحدی تنازع پر چین کوئی بات چیت نہیں کرے گا، بلکہ وہ اپنے قبضہ والی سبھی زمین پر اپنا جھنڈا لہرائے گا۔ یعنی، گزشتہ تین دہائیوں سے سرحدی تنازع سلجھانے کے لیے ہندوستان کے ساتھ اس کے جتنے دوطرفہ مذاکرات ہوئے ہیں، وہ سبھی بیکار ہوگئے ہیں۔
تو، کیا چین کا رویہ تبدیل ہوگیا ہے؟ فی الحال، اسے صحیح صحیح نہیں کہا جاسکتا۔ مگر سرحدی تنازع سلجھائے بغیر متنازعہ علاقہ کو خودمختار بتانے کی اس کی کوشش دوطرفہ مذاکرات میں پیچیدگیاں ضرور پیدا کرسکتی ہے۔ ہم سال2005کے ’ہندوستان-چین سرحد سوال کے حل کے لیے سیاسی پیمانہ اور رہنما اصول‘ کے مطابق دوطرفہ سرحدی تنازع کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے تحت ہمارے خصوصی نمائندے، جو قومی سلامتی کے مشیر ہیں، چین کے خصوصی نمائندے سے ملتے ہیں۔ کئی مرتبہ دونوں میں بات چیت ہوچکی ہے۔ اگر نیا قانون واقعی خودمختاری پر زور دیتا ہے تو کیا اب یہ بات چیت نہیں ہوگی؟ ہماری تشویش کی وجہ یہی ہے۔
دوسری طرف، کچھ تجزیہ کار چین کی اس کارروائی کو ایک الگ چشمے سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ نئے قانون سے چین کے رویہ میں کوئی تبدیلی آنے والی ہے۔ وہ اسے سرحدی علاقوں کے مینجمنٹ سے جوڑتے ہیں، جو ہر ملک کا ذاتی اور اندرونی مسئلہ ہے۔ ان کے مطابق، یہ قانون سرحد پار سے ہونے والی غیرقانونی سرگرمیوں کو روکنے اور دراندازی بند کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس لیے اس کا اثر دوطرفہ بات چیت پر نہیں ہوگا اور ہمارے تمام معاہدے پہلے ہی کی طرح قائم رہیں گے۔
ان دونوں نظریہ میں کون صحیح ہے اور کون غلط، یہ تبھی معلوم ہوگا، جب قانون سے متعلق پوری طرح سے وضاحت ہوگی۔ خودمختاری کا اعلان کرنے کا ایک مطلب یہ نکلتا ہی ہے کہ چین کے رویہ میں سختی آئی ہے۔ اسی لیے، وزارت خارجہ کے ترجمان کی تشویش سمجھی جاسکتی ہے۔ ہندوستان اور چین کی سرحد پر مئی، 2020سے حالات کشیدہ ہیں۔ گلوان کی پرتشددجھڑپ نے عدم اعتماد کی کھائی کو مزید گہرا کردیا ہے۔ فوجی کمانڈر سطح کے 12ادوار کے مذاکرات کے باوجود اب تک درمیان کا راستہ نہیں نکل پایا ہے۔ چین ایکچوئل کنٹرول لائن کی صورت حال کو بدلنے کی یکطرفہ کوششیں کرتا رہتا ہے، جس سے سرحد پر امن و امان متاثر ہوتا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان کی درخواست کے باوجود چین ایل اے سی کو واضح کرنے کے لیے متفق نہیں ہوا ہے۔ سرحد کے بارے میں سنجیدہ بات چیت کا تو خیر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب چین ایل اے سی کے نزدیک گاؤوں کی بسا کر بڑی تعداد میں فوجیوں کو تعینات کرکے سرحد کی خلاف ورزی کرکے اپنی زمین بنانے میں مصروف ہے۔ ان حرکتوں کا یہی مطلب ہے کہ وہ سرحدی تنازع کے حل کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے۔ ایسے میں نیا قانون ہندوستان کے دل میں فطری طور پر شبہ پیدا کررہا ہے۔ مگر سرحدی تنازع پر جب کبھی میٹنگیں ہوں، تو ہم اپنے رُخ کے ساتھ ہی بات چیت کی میز پر بیٹھیں۔ ہمارا ایجنڈا پہلے ہی کی طرح رہنا چاہیے۔ ہمیں محتاط ہوکر آگے بڑھنا ہوگا، کیوں کہ سرحد ایک سنگین مسئلہ ہے۔ صرف اندازہ لگاکر دوطرفہ بات چیت کو بے پٹری کرنا یا آپسی کشیدگی کو ہوا دینا مناسب نہیں۔ جب تک قانونی التزامات واضح نہیں ہوجاتیں، کسی طرح کا قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
7؍ستمبر1993کو ہندوستان اور چین کے مابین ایسا پہلا دوطرفہ معاہدہ ہوا تھا، جس میں ایکچوئل کنٹرول لائن کو شامل کیا گیا تھا۔ 1996کے معاہدہ میں دونوں ممالک ایل اے سی کے اوپر اعتماد بحالی سے متعلق متفق ہوئے۔ اس کے بعد ایل اے سی کو واضح کرنے کے لیے نقشوں کے لین دین پر بھی اتفاق رائے ہوا۔ مگر ایک سیکٹر کو چھوڑ کر کسی اور کے نقشے کا لین دین چین نے نہیں کیا ہے۔ یکم اکتوبر،2013کو ایک اور معاہدہ ہوا، جو یہ یقینی بناتا ہے کہ ایل اے سی پر گشت کبھی مسلح جدوجہد کی شکل اختیار نہ کرلے۔ ان سب کا یہی مطلب ہے کہ دونوں ممالک کے پاس دوطرفہ سرحدی تنازع سلجھانے کے خاطرخواہ سسٹم ہیں، لیکن مناسب پیش رفت نہیں ہورہی۔ ایسے میں، چین کے نئے قانون سے سرحد پر پیچیدگیوں میں مزید اضافہ ہوگا، جو پہلے سے ہی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔
(مضمون نگار وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیں)
(بشکریہ:ہندوستان)