عبیداللّٰہ ناصر
دوسری جنگ عظیم اور ہندوستان کی آزادی کے بعد اگر عالمی سفارت کاری کی تاریخ مرتب کی جائے تو سب سے اہم کارنامہ ناوابستہ تحریک کا قیام ہے جس کے داعی ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو تھے۔ دہلی میں پہلی افرو ایشیائی کانفرنس کا انعقاد بھی ان کی کامیاب سفارت کاری کی مثال ہے لیکن سب سے اہم کامیابی انہیں تب ملی تھی جب انہوں نے سویز نہر کے مسئلہ پر اسرائیل، برطانیہ اور امریکہ کو مصر کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ان کے اس کارنامہ پر پاکستان کے سب سے بڑے اخبار ’جنگ‘ کے ایڈیٹر رئیس امروہوی نے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا تھا :
’’حکمت پنڈت جواہر لعل نہروکی قسم
برہمن زادہ میں شان دلبری ایسی تو ہو‘‘
اس کے بعد امریکہ اور چین میں دوستی کرانے کی پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی درپردہ کوششوں اور امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنجر کا دورۂ چین ایک سنگ میل ثابت ہوا تھا۔اس کے بعد ایسا نہیں کہ سفارت کاری کے میدان میں اور کارنامے نہ ہوئے ہوں لیکن تاریخ کی دھارا موڑنے میں ان سفارتی کارناموں کی سب سے زیادہ اہمیت رہی ہے جبکہ سوویت یونین کیافغانستان پر قبضہ، عراق پر امریکہ کی یلغار اور عرب-اسرائیل تنازع حل کرانے میں کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو سمجھوتوں کی ناکامی، عالمی سفارت کاری اور عالمی امور خاص کر دو ملکوں کے درمیان اختلافات کو حل کرنے میں اقوام متحدہ کی ناکامی اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں جس کا تازہ ترین نمونہ روس کا یوکرین پر حملہ اور اقوام متحدہ کا بیچارگی سے اسے دیکھتے رہنا ہے۔
سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد ایسا لگتا تھا کہ اب دنیا ایک قطبی ہوچکی اور اب دنیا میں وہی ہوگا جو انکل سام چاہیں گے۔ اسرائیل کی دیدہ دلیریوں کی کھلی حمایت اور عالمی برادری خاص کر خود عرب ملکوں کی بزدلانہ اور بے شرم خاموشی، عراق پر امریکہ کا حملہ اور اقوام متحدہ نیز عالمی برادری کا صرف زبانی جمع خرچ کرنا تقریباً 15لاکھ عراقیوں کی موت، دنیا کے اس سب سے زیادہ ترقی یافتہ خوش حال ملک کا گور غریباں میں تبدیل کردیا جانا، اس کے بعد افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا، پوری دنیا پر امریکہ کا ایک بے لگام سانڈ جیسا رویہ، ایسا لگتا تھا کہ انکل سام پوری دنیا کے بادشاہ ہوگئے ہیں لیکن پھر دنیا نے کروٹ لی، انکل سام نے لیبیا عراق مصر میں اپنے پٹھو بٹھا تو دیے لیکن اس مہم جوئی نے اس کی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا جس کا خمیازہ صرف امریکہ کو ہی نہیں،2008-09کی کساد بازاری کی شکل میں دنیا کے ہر ملک کو بھگتنا پڑا تھا۔ ادھر افغانستان میں اندھادھند بمباری کرکے اسے کھنڈر بنا دینے کے باوجود امریکہ حسب منشاکامیابی نہیں حاصل کرسکا اور اسے جھک مار کے بنا اپنے مشن کی کامیابی کے راہ فرار اختیار کرنی پڑی، شاید ویتنام کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب امریکی فوج کسی ملک سے پٹ کر واپس جا رہی تھی۔
لیکن ایک قطبی دنیا کا انکل سام کا خواب شرمندۂ تعبیر کبھی نہیں ہو پایا، پہلے یوروپی یونین نے اس کی معاشی طاقت کو چیلنج کیا اور آج بھی یورو امریکی ڈالر سے زیادہ مضبوط کرنسی ہے، پھر دھیرے دھیرے پوتن کی قیادت میں روس نے کروٹ لینا شروع کیا، عراق، لیبیا، مصر میں توچچا کامیاب ہوگئے لیکن روس نے شام کے اپنے مضبوط قلعہ اور اس کے صدر بشارالاسد کو بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور آج شام بھلے ہی خانہ جنگی اور عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے کھنڈر بن چکا ہو لیکن بشارالاسد کا اقتدار برقرار ہے۔امریکہ کی بالادستی، ناٹو کی توسیع اور اسے روس کی سرحد تک پہنچانے کی امریکی خواہش کو پوتن کی جانب سے سب سے بڑا چیلنج ملا۔اس سے قبل پوتن سابق سوویت یونین کی ایک نو آزاد جمہوریہ آرمینیا کو ہڑپ کر چکے تھے، ان کا اگلا نشانہ یوکرین تھا، اس کے صدر زیلنسکی اپنی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت بچائے رکھنے کے لیے ناٹو میں شامل ہونا چاہتے تھے جبکہ روس اپنی سرحد پر امریکہ کی ایسی موجودگی کو اپنے لیے خطرہ محسوس کررہا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ روس نے یوکرین پر قبضہ کرنے کیلئے اس پر حملہ کر دیا، وہ سمجھ رہا تھا کہ یوکرین اس کے سامنے زیادہ دن ٹھہر نہیں پائے گا لیکن آج تقریباً ایک سال ہو گیا یوکرین امریکی اور یوروپی ملکوں سے ملنے والے ا سلحہ کے زور پر روس کو سخت ٹکر دے رہا ہے۔بیشک یوکرین کو جان و مال کا زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے لیکن وہ اپنی آزادی اور سالمیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔پوتن اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور طاقت کے نشہ میں مفاہمت کی اب تک کی تمام کوششوں کو نظر انداز کر چکے ہیں۔روس اپنی سرحد پر ناٹو کی شکل میں امریکہ کی موجودگی کو اپنے لیے فطری طور سے ایک مستقل خطرہ سمجھتا ہے، دوسری جانب ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے یوکرین بھی آزاد ہے کہ وہ جس گروپ میں چاہے رہے اور جس ملک سے چاہے دوستی رکھے۔ روس اور یوکرین دونوں کے مفاد کو مدنظر رکھ کر ہی دونوں ملکوں میں جنگ بندی ممکن ہوسکتی ہے اور اقوام متحدہ نیز عالمی برادری ابھی تک دونوں ملکوں کے مفاد کا تحفظ کرتے ہوئے کوئی مفاہمتی فارمولا نہیں تلاش کر سکے ہیں۔
ادھر چین اپنے مینوفیکچرنگ سیکٹر کے بل پر ایک مضبوط معاشی طاقت بننے کے بعد اب عالمی امور میں بھی اپنی حیثیت منوانا چاہتا ہے، اس کا ایک مقصد ساؤتھ چائنا سی میں امریکی مداخلت اور اس کی گردن پر ہاتھ رکھنے کی سازش کی کاٹ بھی ہے اور عالمی امور میں امریکہ کی بالادستی ختم کرکے چین کو اس مقام پر پہنچانا ہے جہاں سرد جنگ کے زمانہ میں کبھی سوویت یونین ہوا کرتا تھا۔ سفارتی میدان میں اس کا سب سے اہم اور تازہ ترین کارنامہ سعودی عرب اور ایران میں مفاہمت کرانا ہے جس کے لیے چین کے صدر شی جن پنگ نے ذاتی دلچسپی بھی لی اور سرگرمی بھی دکھائی۔ دونوں ملکوں میں کئی دہائیوں سے چلی آ رہی تلخی ختم کر کے سفارتی تعلقات قائم ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے حالانکہ یمن کے معاملہ میں دونوں ملکوں کے اختلافات برقرار ہیں،لیکن اگر افہام و تفہیم کا راستہ کھلا ہے تو یہ مرحلہ بھی حل ہو ہی جائے گا۔ اصل میں سعودی عرب سمیت زیادہ تر عرب ممالک امریکہ کے زیر اثر تھے اور ہیں بھی لیکن اسرائیل کا خاص کر دو ملکی فارمولہ کو نظرانداز کرکے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اپنی بستیاں مسلسل تعمیر کرتے رہنے اور غزہ کے علاقہ میں فلسطینی عوام پر مظالم کو لے کر عربوں خاص کر عرب عوام میں امریکہ کو لے کر سخت ناراضگی ہے کیونکہ امریکہ ایک غیر جانبدار اور ایماندار ثا لث کا کردار نہیں ادا کر سکا۔چین میں چونکہ یہودی لابی کا کوئی اثر نہیں ہے، اس لیے وہ عربوں خاص کر فلسطینی کاز کی کھل کر حمایت کر سکتا ہے، بھلے ہی وہ اسرائیلی مظالم روکنے کے لیے کوئی عملی قدم نہ اٹھا سکے لیکن روس کے ساتھ مل کر اسرائیل پر دباؤ ڈال کر فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ عرب ملکوں میں اگر اس کی ساکھ بڑھی تو یہ اسرائیل پر ایک دباؤ ضرور ہوگا ۔
شی جن پنگ نے گزشتہ دنوں روس کے صدر پوتن سے بھی ملاقات کی اور یوکرین میں جاری جنگ پر تفصیلی گفتگو کی اور اس کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی سے بھی فون پر گفتگو کی۔ دونوں متحارب سربراہان مملکت سے گفتگو کے بعد اب چین اپنا ایک امن مشن یوکرین بھیجنے والا ہے، ظاہر ہے کہ پوری زمینی تیاری کے بعد ہی یہ مشن یوکرین جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق چین کے صدر نے زیلنسکی سے کہا ہے کہ ایٹمی جنگ میں کوئی ملک فاتح نہیں ہوتا اور تباہی صرف دو ملکوں تک ہی محدود نہیں رہتی، پوری انسانیت اس سے تباہ ہوتی ہے۔ادھر پوتن کے رویہ میں بھی کچھ نرمی دکھائی دی ہے اور انہوں نے چین کے امن مشن کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ روس ہر اس کوشش میں تعاون کرے گا جو جنگ کو ختم کرنے کی لیے کی جائے گی۔روس اور یوکرین کی جنگ کی قیمت دنیا کا ہر ملک کسی نہ کسی شکل میں ادا کر رہا ہے، اگر چین کی سفارتی مہم کامیاب ہو، دونوں ملکوں میں جنگ بند ہو جائے تو یہ نہ صرف چینی سفارت کاری کی کامیابی ہوگی، بلکہ پوری دنیا سکون کا سانس لے گی۔
عالمی امورمیں چین کی یہ بڑھتی سرگرمی ہندوستان اور امریکہ دونوں کے لیے تشویش کا سبب ہے۔ چین کی توسیع پسندانہ پالیسی کی وجہ سے ہند-چین سرحد پر مسلسل کشیدگی بنی ہوئی ہے، ادھر چین قراقرم شاہراہ کے ذریعہ خلیج فارس تک ا پنا اثر اور پہنچ بڑھا رہا ہے، پاکستان اس کا حلیف ہے ہی، افغانستان اور ایران سے بھی اس نے نزدیکی بڑھا لی ہے، دوسری جانب تبت کٹھمنڈو ریلوے لائن بچھا کر وہ نیپال تک سیدھی پہنچ بنا رہا ہے۔ جاپان اور ویتنام سے بھلے ہی اس کے سرحدی تنازع ہوں لیکن وہ ہند-چین سرحد پر زیادہ توجہ دے کر ہندوستان کے لیے تشویش پیدا کر رہا ہے۔چین اور پاکستان کی دوستی ہندوستان کے حق میں نہیں ہے، اس کا سدباب ہی ہندوستانی سفارت کاری کی کامیابی کا امتحان ہے۔ دوردراز امریکہ کی دوستی سے زیادہ اہم پڑوسیوں سے خوشگوار تعلقات اور سرحدوں پر امن ہے۔ چین پر ہمہ وقت نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ جو چین جواہر لعل نہرو کا نہ ہوا ،وہ مودی یا کسی اور ہندوستانی وزیراعظم کا کیا ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]