صبیح احمد
دنیا ایک بار پھر مشرقی اور مغربی طاقتوں کے مسابقتی دائروں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ کیا یہ نئی سرد جنگ ہے یا سابقہ سرد جنگ کے بچے ہوئے حصہ کو پھر سے سرگرم کیا گیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ تھوڑا تھوڑا دونوں ہی ہے۔ ولادیمیر پوتن کے لیے 20 ویں صدی کی سپر پاور کیلئے دشمنی کبھی ختم ہی نہیں ہوئی، حالانکہ اقتصادی اور فوجی لحاظ سے واضح طور پر فاتح طے ہو چکا تھا اور یہ سوویت یونین نہیں تھا۔ روس کے صدر کم از کم قومی تصور میں اس ذلت کو پلٹنے کے لیے پرعزم ہیں۔ روس اب بھی عالمی سطح پر پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس اس ملک کی علاقائی توسیع کی بھوک کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال امریکہ کے ساتھ برابری کریملن کے لیے ایک دور کی بات ہے لیکن چین کے لیے یہ قریبی افق پر ایک نئی منزل ہے۔
چینی صدر نے حالیہ دنوں میں ایک اہم پیش رفت کی ہے۔ ژی جن پنگ 20 مارچ کو روس کے 3 روزہ دورے پر گئے تھے۔ امریکہ اور ہندوستان سمیت دنیا کے تمام ممالک چینی اور روسی صدور کی حالیہ ملاقات کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ اور اس دورے کے حوالے سے عالمی سیاست میں کئی دلائل پیش کیے جا رہے ہیں۔ درحقیقت روس اور چین رسمی طور پر دوست نہیں ہیں۔ یعنی اسلحہ اور رسد کے معاملے میں وہ ایک دوسرے کے تئیں پابند نہیں ہیں۔ حالانکہ گزشتہ چند سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان قربتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف یوکرین پر حملے کے بعد کئی ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، وہیں دوسری جانب چین اور روس کے درمیان قربتیں بڑھ گئی ہیں۔ یوکرین حملے کے بعد ژی جن پنگ اور ولادیمیر پوتن کئی بار اپنی دوستی کا اظہار کر چکے ہیں۔ دونوں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہماری دوستی کی کوئی حد نہیں۔ جن پنگ روسی صدر پوتن کو اپنا بہترین دوست قرار دے رہے ہیں۔ 2018 میں دونوں رہنما روس میں اکنامک فورم کے دوران ایک ساتھ چائے پیتے دیکھے گئے تھے۔ 2019 میں چینی صدر کی سالگرہ پر پوتن نے انہیں ایک خصوصی کیک اور آئس کریم کا ایک ڈبہ تحفے میں دیا تھا۔ دونوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہماری دوستی ان تحائف اور ایک دوسرے کو دکھائے جانے والے پیار کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ حالانکہ روس اور چین کے درمیان شروع سے ہی خوشگوار تعلقات نہیں رہے ہیں۔ 1960 کی دہائی میں دونوں ملک ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ 1969 میں روس اور چین کے درمیان سرحدی تنازع کی وجہ سے ایٹمی جنگ کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ وسطی ایشیا طویل عرصہ سے روس کے لیے ایک اہم خطہ رہا ہے۔ حالانکہ یہ علاقہ بعد میں جغرافیائی و سیاسی اور اقتصادی نقطہ نظر سے چین کے لیے اہم ہو گیا۔ اس وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان وسطی ایشیا پر غلبہ حاصل کرنے کی دوڑ لگی رہتی ہے۔ قزاقستان اور ازبکستان جو کبھی سوویت یونین کا حصہ تھے، سلامتی کے لیے روس پر منحصر ہیں۔ وہیں چین ان ممالک میں ریلوے، ہائی ویز اور پائپ لائنیں بنا رہا ہے۔ در حقیقت یہ دونوں ممالک وسطی ایشیا پر تسلط کے لیے مقابلہ آرائی کر رہے ہیں۔
بہرحال گزشتہ کچھ برسوں میں روس اور چین کے معاشی تعلقات میں بھی پیش رفت دکھائی دی ہے۔ 2014 میں روس نے کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب امریکی صدر براک اوباما نے روس پر کئی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ چین نے ان پابندیوں کے دوران روس کی مدد کی تھی۔ گزشتہ سال روس نے پھر یوکرین پر حملہ کر دیا۔ اس کے بعد کئی مغربی ممالک نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ اس دوران چین نے وہ سامان فراہم کیا جو روس مغربی ممالک سے خریدتا تھا۔ چین نے روس کو اسمارٹ فونز، کمپیوٹر چپس اور فوج کے لیے استعمال ہونے والی اشیا کے لیے خام مال فراہم کیا۔ روس-یوکرین جنگ کے بعد چین اور روس کے درمیان تجارت میں بلاشبہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یوکرین کے ساتھ جنگ نے روس کی معیشت کو مزید خراب کر دیا ہے۔ پوتن کا بنیادی مقصد چین کے ساتھ دوستی کے ذریعہ ملکی معیشت کو فروغ دینا ہے۔ روس کے لیے چین بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے صحیح انتخاب ہے۔ مغربی ممالک نے روس سے تیل اور قدرتی گیس کی خریداری پر پابندی لگا دی ہے۔ چین نے اس بحران کے دوران توانائی خرید کر ایک طرح سے روس کی مدد کی۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ چین نے روس کو جنگی مواد اور اسلحہ دیا۔ حالانکہ چین نے اس دعویٰ کو مسترد کردیا ہے۔ ہندوستانی خارجہ پالیسی کے ماہرین بھی پوتن-جن پنگ ملاقات کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ درحقیقت روس اور چین دونوں ہی ایسے ممالک ہیں جن کی امریکہ سے نوک جھونک ہوتی رہی ہے۔ اور وہ امریکہ پر ہندوستان کو بہلا پھسلا کر اپنے حق میں کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ روس اور چین دونوں اپنے باہمی تعلقات کو ’نو لِمٹ پارٹنرشپ‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس سے ہندوستان کے سیکورٹی خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ دراصل روس کا چین کے قریب آنا ہندوستان کے سیکورٹی نظام کے لیے اچھا نہیں ہے۔ روس طویل عرصہ سے ہندوستان کو اسلحہ فراہم کرنے والا ملک رہا ہے۔ ہندوستان اور چین کے درمیان 1960 کی دہائی سے تعلقات خوشگوار نہیں رہے ہیں۔ 1962 میں چین نے ہندوستان پر حملہ کرکے لداخ کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کی ہزاروں کلومیٹر طویل سرحد پر کشیدگی کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ 2020 میں کوروناوبا کے دوران بھی چینی فوج نے لداخ کے کئی علاقوں میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔ اس جھڑپ کے دوران کئی ہندوستانی فوجی شہید بھی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد کئی اور مقامات پر بھی نوک جھونک ہوئی۔ اب تک چینی افواج سرحد سے مکمل طو ر پر پیچھے نہیں ہٹی ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب یوکرین کے تنازع میں روس خود کو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے درمیان تنہا کھڑا پا رہا ہے، چین اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے۔
اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کے تحت صدر جن پنگ خود کو ایک ’عالمی رہنما‘ کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں اور ان کا راستہ فی الحال روس-یوکرین جنگ کے میدان سے ہو کر گزرتا ہے۔ اگر چین روس-یوکرین جنگ کو رکوانے کی کوشش کرتا ہے اور اسے اس کوشش میں کامیابی مل جاتی ہے تو اس سے دنیا میں چین کے تئیں اعتماد میں لازمی طور پر اضافہ ہوگا۔ روس-یوکرین جنگ میں چین نے بظاہر غیرجانبداری دکھانے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ چین نے روس کے موقف کی حمایت کی ہے اور امریکہ اور ناٹو ممالک کو اس جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ چین چاہتا ہے کہ روس مغربی ملکوں کے ساتھ ساتھ امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی حمایت کرے۔ چین کا موقف ہے کہ امریکہ اس کے بڑھتے ہوئے دبدبہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جن پنگ امریکہ کی مبینہ کوششوں کے خلاف کئی بار سخت موقف اختیار کر چکے ہیں۔ اس نئی سرد جنگ میں مغرب کو خطرہ کسی اور طاقت کے بلاک سے نہیں ہے، یہ پیچیدہ مسائل سے نبردآزما ہونے میں ان کی ناکامیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ بہرحال روس اور چین کے صدور کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات نے دنیا کی سب سے زیادہ توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ اب یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ یہ ملاقات عالمی سیاست میں کیا گل کھلاتی ہے۔
[email protected]