بڑی طاقتوں کے اتحاد سے چین کے پیٹ میں مروڑ

0

چین کے صدر شی کا دورئہ ماسکو ایسے دور میں ہورہا ہے جب امریکی قیادت والے مغربی ممالک مغربی ایشیا میں اس کی سفارتی کامیابی پر ششدر رہ گئے ہیں۔ چین نے ایسے دو متضاد نظریات والے حریفوں کو سمجھوتے کے لئے راضی کرلیا جوکہ مغربی ایشیا میں سیاسی بالادستی کے لئے کئی محاذوں پر جنگ لڑ رہے تھے۔ اسی دوران یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ چین کی قیادت گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے چلی آرہی یوکرین جنگ کوختم کرنے کے لئے بھی مصالحت کی کوششیں کر رہی ہے۔ امریکہ برطانیہ اورآسٹریلیا پر مشتمل ایک اتحاد نے چین کے بڑھتے اثرورسوخ اور توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے کے لئے ایک اتحادکو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے ذریعے پیسیفک اوسین ودیگر خطوں میں چین کی پیش قدمی کو روکا جاسکے۔یہ ایک فوجی اتحادہوگا جس کو آوکس کا نام دیا گیا ہے۔ آسٹریا اس سمجھوتے کے ذریعہ ایڈیلیٹ میں نیوکلیرہتھیاروں سے لیس ایک آبدوز امریکہ اور برطانیہ کے تعاون سے بنائے گی۔ چین اتحاد کے اعلان کو اشتعال انگیزی قرار دیتا ہے۔ چین کا اندیشہ ہے کہ اس علاقہ میں تائیوان اور جنوبی چین کے سمندری خطے میں اس کوچیلنج کرتا ہے۔ چین چیلنج کیا ہے کہ ممالک کو کوئی ایسا اتحاد نہیں وضع کرنا چاہئے جو کسی تیسرے ملک کے خلاف ہو۔ چین نے اس سمجھوتے کو سردجنگ کی علامت قرار دیا ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے درمیان سمجھوتے کا اعلان اس لئے بھی چین کے لئے تکلیف دہ ہے کہ بہت جلد قواڈ (Quad) ممالک جوکہ آسٹریلیا، انڈیا، جاپان، جاپان اورامریکہ پر مشتمل ہیں، کا اجلاس جلدی ہوگا۔ قواڈ چین کے بڑھتے اثرورسوخ کو کنٹرول کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں امریکی دفاعی وزارت نے ایک ایسے مشتبہ غبارے کو تباہ کیا تھا جس کے بارے میں امریکہ کا اندیشہ تھا کہ وہ چین کے لئے جاسوسی کر رہا تھا۔ اگرچہ چین نے اس کارروائی کو جارحیت قرار دیا تھا مگر وہ تمام تر دلیلوں اوراستدلال کے باوجود یہ ثابت نہیں کرسکا کہ یہ موسمی مزاج کو پرکھنے والا غبارہ سات سمندرپار امریکہ کے خطے میں کیا کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ تائیوان کے مسئلہ پر امریکہ اور چین میں جو تصادم ہے وہ انتہائی شدید ہے اور امریکہ کی تائیوان کے امورمیں دلچسپی چین کو بے چین کئے ہوئے ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ اگرچہ تائیوان خودمختار ہے مگراس علاقے پر اقتدار اعلیٰ اسی کا ہے اور یہ خطہ آج نہیں تو کل چین کی ریاست کا مکمل حصہ بنے گاجبکہ امریکہ کا خیال ہے کہ تائیوان ایک مکمل طورپر آزاد جمہوریت ہے اور چین اس چھوٹے سے جزیرے کو ہڑپنا چاہتا ہے۔ جزائر سلیمان میں آسٹریلیا کو چیلنج کرتے ہوئے چین نے وہاں کی حکومت کے ساتھ ایک فوجی سمجھوتہ کرلیا ہے جس کے تحت وہ اس خطے میں اپنی فوجی بحری بیڑے کو تعینات کر سکا ہے۔ یہ مجموعی صورت حال ایسے حالات میں پیش آرہی ہے جب مغربی ممالک یوکرین میں روس کی طاقتور فوج سے برسرپیکار ہے۔ مغربی دنیا روس کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ناٹو کی قیادت میں ایک فوجی مہم چلارہی ہے۔ دراصل یوکرین جوکہ ایک زمانے میں سوویت یونین کا حصہ تھا۔ بعدمیں دیگر ریاستوںکی طرح اس نے بھی خودمختاری کا اعلان کردیا تھا۔ روس چاہتا ہے کہ سوویت یونین کے بکھرائو کے بعد جوخطے اورممالک اس سے علیحدہ ہوگئے تھے واپس اس کے ساتھ کسی مضبوط فوجی اقتصادی اتحاد کا حصہ بن جائیں یا کمزور ہیں تو وہ ان کو اپنی سرزمین کا حصہ بنانلے۔ یوکرین کے معاملے پر اس کی اس لئے توجہ زیادہ ہے کہ یوکرین مغربی ممالک سے قربت اختیارکر رہا تھا اور اس نے حتی الامکان یہ کوشش کی کہ مغربی ممالک اس کوناٹو میں شامل کرکے اس کے دفاعی نظام کومستحکم کردیں۔ اسی تگ و دو میں روس نے یوکرین کے کئی علاقوں پر یا تو قبضہ کرلیا یہ ان علاقوں میں اپنی من مانی اورمن پسند حکومتیں اوراپنی کنٹرول والے علاقے وضع کردیے یہ اقدام یوکرین کی علاقائی اقتداراعلیٰ کو چیلنج کرنے والے تھے۔ کریمیا کے معاملے کو لے کر 2014 میں اس نے جو کاررو ائی کی تھی اس کے نتائج آج تک بھگتنے پڑ رہے ہیں ۔اس وقت مغربی ممالک نے کریمیا پر روسی قبضے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا لیکن روس نے اس وقت فوجی لحاظ سے اہم خطے پر قبضہ کرکے وہاں پر اپنی فوجی موجودگی کو مضبوط کرلیا۔ چین اور روس کی دوستی نظریاتی خطوط مشترکہ مفادات پر قائم ہے۔ دونوں ملک پرانے رفیق ہیں اور کمیونسٹ نظریات کی وجہ سے دونوں ملکوں میں تصادم اس سطح کا نہیں ہے جتنا کہ دو بڑی طاقتوں میں ہوتا ہے۔ یہی نکتہ ہے جوکہ مغربی ممالک کو پریشان کر رہا ہے۔ اگرچہ چین کی حکومت نے روس کی فوجی مدد نہیں کی مگروہ روس کے ساتھ اقتصادی تعاون کر رہا ہے جوکہ مغربی ممالک کے روس کو الگ تھلگ کرنے کے منصوبوں کو ناکام کرنے والا ہے۔
پچھلے دنوں جب چین نے یوکرین اور روس کے درمیان مصالحت کی بات کہی تو اس پر مغربی ممالک اورامریکہ کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ مغربی ممالک کولگتا ہے کہ روس کے تئیں جھکائوکودیکھتے ہوئے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ روس کے معاملے میں چین غیرجانبدار ہو۔ امریکہ نے کہا کہ اگر وہ واقعی مصالحت چاہتا ہے تواس کو غیرجانب دار ہونا پڑے گا۔ فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر روس اس خطے میں بھی اپنی سفارتی کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو یہ مغربی طاقتوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ اگر چین جنگ بندی پر دونوں فریقوں کو راضی بھی کرلیتا ہے تو اس کابراہ راست فائدہ روس کو ہوگا کیونکہ کسی بھی جنگ بندی معاہدے کے بعد روس کو یہ مہلت مل جائے گی کہ وہ فوجی طاقت کو مزید مستحکم اورمجتمع کرلے۔ روس کے حامی کئی مبصرین کی رائے ہے کہ یوکرین میں جنگ کا جاری رہنا کسی حد تک مغربی ممالک کے مفاد میں ہوگا۔ کئی حلقے پہلے سے ہی یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ روس اور یوکرین میں تصادم کو بڑھا کر ناٹو ممالک نے اپنے عزائم کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور یوکرین اس جنگ میں پھنس گیا ہے جس کی قیمت وہاں کے عوام اٹھا رہے ہیں۔ ٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS