واشنگٹن (ایجنسیاں) : چین کا انسانی حقوق کا ریکارڈ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے آئندہ تجزیے میں توجہ کا اہم مرکز ہو گا۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلیٰ عہدیدار نے پیر کو کہا کہ ان کا دفتر چین کی جانب سے 9 ستمبر کو اپنا انسانی حقوق کے قومی ایکشن پلان برائے 2021 تا 2025 جاری کیے جانے کے بعد اس ملک کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں‘ کے الزام پر ایک رپورٹ کو حتمی شکل دے رہا ہے۔اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے کہا، ’مجھے افسوس ہے کہ سنکیانگ کے ایغور خود مختار علاقے تک بامعنی رسائی حاصل کرنے کی ہماری کوششوں میں پیش رفت نہیں ہو سکی۔‘اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے افتتاح کے موقع پر، بیچلیٹ نے کہا کہ ان کا دفتر انسانی حقوق کے الزامات کے بارے میں دستیاب معلومات کا جائزہ لینے اور اسے عام کرنے کے منصوبوں کو حتمی شکل دے رہا ہے۔میونخ میں قائم، ورلڈ ایغور کانگریس کے پروگرام اور ایڈوکیسی منیجر زمریٹے آرکن کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کیا جانے والا یہ اپ ڈیٹ بروقت اور اہم ہے، کیونکہ یہ اپ ڈیٹ انسانی حقوق کی ہائی کمشنر کی جانب سے اس علاقے تک رسائی کے لیے تین سال تک سرکاری سطح پر درخواستوں کے بعد جاری کیا گیا ہے۔سنکیانگ میں مسلمانوں کے لیے ایک ’اصلاحی مرکز‘، ان مراکز میں انہیں اپنے عقائد چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔آرکن نے وی او اے کی مینڈرین سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’اگرچہ یہ ہائی کمشنر کے دفتر سے جاری ہونے والی پہلی رپورٹ ہو گی، لیکن یہ اقوام متحدہ کے خصوصی طریقہ کار اور ٹریٹی سے متعلق اداروں کی موجودہ رپورٹوں میں محض ایک اضافہ ہے۔‘
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کی ترجمان مارٹا ہرٹاڈو کے مطابق، اقوام متحدہ کے متعدد حکام نے سنکیانگ میں 2018 سے انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا، جن میں نسلی امتیاز کے خاتمے کی کمیٹی اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے منسلک ماہرین شامل ہیں۔ان آزاد اداروں نے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا، جن کے متعلق ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام لگایا تھا کہ بیجنگ 10 لاکھ سے زائد ایغور اور دیگر مسلم نسلی اقلیتوں کو حراستی کیمپوں میں رکھ کر اور کئی دوسروں کو جبری مشقت کرنے پر مجبور کر کے انسانیت کے خلاف جرائم کر رہا ہے۔ جب کہ ایغور کمیونٹی کے باقی ماندہ افراد کو کنٹرول کرنے کے لیے ان کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔
بیجنگ ان الزامات کو مسترد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ انسانی حقوق کے گروپ جن کیمپوں کو حراستی مراکز کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ اصل میں پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز ہیں جہاں اقلیتی گروہوں کے افراد زبان اور مختلف پیشوں کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ چین کا اصرار ہے کہ سنکیانگ میں لوگ اپنے پیشے کے انتخاب میں آزاد ہیں۔ہرٹاڈو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یو این ہائی کمشنر کا چین کا آخری دورہ 2005 میں ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے دفتر نے 2018 میں بیجنگ سے درخواست کی تھی ان کی ایک ٹیم کو ایغور نسلی گروپ کے ساتھ برتاؤ کا جائزہ لینے کیے لیے اسے سنکیانگ تک لامحدود رسائی دی جائے، تاہم اس میں ناکامی ہوئی۔ہوٹارڈو نے کہا کہ او ایچ سی ایچ آر کی جانب سے یہ کہا جا چکا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی ایک ٹیم اس علاقے میں کئی دن گزارے، متعلقہ حکام اور سٹیک ہولڈرز سے ملاقات کرے اور اسے مختلف اداروں اور سہولیات تک زیادہ سے زیادہ رسائی حاصل ہو۔ لیکن ابھی تک ان کی جانب سے اس کی منظوری نہیں دی گئی۔
مارچ میں، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے بیجنگ میں پریس کو بتایا تھا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کو سیاسی دباؤ کا سامنا ہے اور اس نے چین کے خلاف بے بنیاد اور غلط معلومات پر مبنی الزامات لگائے ہیں۔
انٹرنیشنل سروس فار ہیومن رائٹس کی پروگرام ڈائریکٹر سارہ بروکس نے کہا ہے کہ، ’یہ جائزہ اقوام متحدہ کی نگرانی اور تین سو سے زیادہ تنظیموں کے گروپ کی رپورٹنگ کی طرف پہلا قدم ہے جس کی عالمی برادری کو ضرورت ہے، اور اس کا مطالبہ بہت سی ریاستوں کے ساتھ ساتھ عالمی سول سوسائٹی کے 300 سے زائد گروپوں پر مشتمل اتحاد نے بھی کیا ہے۔بروکس نے کہا کہ اس قسم کی رپورٹ ’سیاست سازی‘کے دلائل کو کم کرنے اور معروضی حقائق کو پیش کرنے میں مدد دیتی ہے۔اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے، آزاد ماہرین اور عملے کے ارکان 2013 میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک، 2015 میں غیرملکی قرضوں، 2017 میں انتہائی غربت اور 2019 میں معمر افراد کے حوالے سے چین کے دورے کر چکے ہیں۔’تاہم، ان میں سے کسی بھی دورے میں ایغور علاقہ شامل نہیں تھا،‘بروکس نے کہا۔ ’آزاد ماہرین جن کو مسائل کا حقیقی طور پر جائزہ لینے کا کام سونپا گیا تھا، جیسے صوابدیدی حراست، جبری گمشدگی، تشدد، اقلیتی حقوق، مذہب کی آزادی، اظہار رائے، وغیرہ تو اس سے بار بار انکار کیا گیا۔واشنگٹن میں قائم ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ میں ایڈوکیسی اور کمیونیکیشن کے سینئر پروگرام آفیسر پیٹر ارون کے مطابق، چین کی پالیسی زیادہ سے زیادہ تاخیر اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی تحقیق کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ ڈالنے کی ہے۔ارون نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا،’اگر چین رسائی فراہم نہیں کرنا چاہتا ہے تو یہ اقوام متحدہ پر منحصر ہے کہ وہ بیرون ملک بڑے پیمانے پر دستیاب تحقیق اور شہادتوں پر توجہ دے کراپنے آزادانہ نتائج اخذ کرے۔‘
سنکیانگ میں حقوق انسانی کی صورت حال پر اقوام متحدہ کو تشویش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS