پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
گزشتہ دنوں ہندوستان کی سپریم کورٹ میں وکیل وکاس سنگھ کا تبصرہ ناقابل معافی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں آگے کچھ لکھوں، میں یہ بتانا چاہتی ہو ں کہ ہوں کہ صحافت کے علاوہ میں انسانی حقوق کے تحفظ کی سالیسٹر بھی ہوں، جسٹس مہر چند مہاجن ، چیف جسٹس، جسٹس راجہ جسونت سنگھ ، سپریم کورٹ کے جج جسٹس اے ایس آنند، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ، جسٹس سی کے مہاجن، جسٹس ایل دیو سنگھ اور بیریسٹر کا تعلق میرے خاندان سے ہی ہے۔ جج کی زندگی اس قدر آسان نہیں ہوتی میں نے دیکھا ہے ذاتی زندگی میں انہیں سماجی فاصلہ بنائے رکھنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خفیہ ایجنسیاں بھی ان پر سخت نظر رکھتی ہیں ، جسٹس آنند اور گرین جج جسٹس کلدیپ سنگھ نے ہندوستان ٹائمس ہتک کیس میں سخت فیصلے لیے اور انڈیٹر چندن مشرا جنہوں نے یہ لکھا ’’ سپریم کورٹ کو دماغی علاج کرانے کی ضرورت ہے۔‘‘ کی بڑی قیمت چکانی پڑی۔ ہر شہری جانتا ہے کہ وکیلوں کا پیشہ انصاف کرانا اور حقائق کو صحیح روپ سے رکھنا ہے۔ پچاس فیصد سے زیادہ اپنا کام قانون کے دائرے میں کرنا ہے، 50فیصد تو جھوٹے دلائل پر مبنی کیس عدالت میں دائر کیے جاتے ہیں۔ میرے ساتھی جو دہلی کی ہائی کورٹ میں جج رہے ہیں۔ نے ایک بار بتایا ’’ ان کے وکیل جب ہمارے سامنے پیش ہوتے تھے تو مجھے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کتنا سچ اور کتنا جھوٹ بول رہے ہیں۔ ‘‘ میں چپ چاپ سنتا ہوں اور چیمبر ہی جا کر سردرد کی گولی کھاتا ہوں۔
پھر وکالت کے پیشے میں اپنے موکلوںسے معاوضہ لینا بھی شہریوں کے لیے کو پریشان کن ہوتا ہے۔ وکلاء کارپوریٹ گھرانوں کے حساب سے اربوں روپے کماتے ہیں۔ یہی نہیں دہلی کے پوش علاقے جور باغ میں اربوں کے کوٹھیاں خریدتے ہیں۔ ویسے یہ کہنا مناسب ہو گا کہ وکلاء کی ’بار ایسوسی ایشن اور بار کونسل‘ ججز کے ساتھ اچھے ’بار بینچ‘ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن زیادہ تر تنظیمیں ’ٹریڈ یونین‘ کی طرح جارحانہ ہو جاتی ہیں۔ ججوں کو بھی سب کو خوش کرنے کی پالیسی گریز کرنا چاہیے۔ جسٹس دھننجے یشونت چندرچوڑ کی عدالت میں وکاس سنگھ کا رویہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ اگر وکاس سنگھ میں ذرا بھی شرم ہے تو وہ ایس سی بی اے سے استعفیٰ دے دیں۔ بے شرمی اپنے عروج پر ہے! دھننجے یشونت چندرچوڑ جیسے اسکالر، بین الاقوامی شہرت یافتہ، سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس ہمار ے لیے قابل فخر ہیں۔
سینئر وکیل کپل سبل اور نیرج کرشنا کول نے سی جے آئی چندرچوڑ اور سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر وکاس سنگھ کے درمیان تلخ کلام کے بعد ’بار‘ کی جانب سے معافی مانگی ہے۔ سبل اور کول نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ سے گہرے افسوس کا اظہار کیا۔ سبل نے کہا، ’جو ہوا اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔ مجھے نہیں لگتا کہ بار کو حدود سے تجاوز کرنا چاہیے۔ ہم سب معافی مانگتے ہیں۔‘ یہ واقعہ سپریم کورٹ میں زمین کی الاٹمنٹ کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے پیش آیا۔ وکاس سنگھ نے شہری ترقی کی وزارت کو ہدایت دینے کی درخواست کی فوری سماعت پر اصرار کیا۔ 17 مارچ 2023 یہ سماعت پہلے فہرست میں ہے تو وکاس سنگھ کو اتنی جلدی بات کیا ہے؟ سپریم کورٹ کو الاٹ کی گئی 1.33 ایکڑ اراضی کو ’چیمبر بلاک‘ میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سنگھ نے سی جے آئی کے اعصاب پر ضرب لگائی اور کہا، ’میں اسے ججوں کی رہائش گاہ پر نہیں لے جانا چاہتا ہوں۔’ جسٹس دھننجے یشونت چندرچوڑ اس پر برہم ہوگئے اور ریمارکس دیئے کہ ’میں اس طرح ڈرایا نہیں جاؤں گا، براہ کرم اپنی آواز کو نیچا کرو، میں چیف جسٹس آف انڈیا ہوں، میں کافی عرصے سے بنچ پر ہوں، میں نے کبھی ممبران سے بات نہیں کی۔ بار کا خود۔’ میں اپنی زندگی کے آخری 2 سالوں میں بھی خود سے پریشان نہیں ہونے دوں گا۔‘ جسٹس چندر چوڑ نے کہا، ’ہم روزانہ 70 سے زیادہ معاملات سنتے ہیں اور ان چیزوں کو سننے کے بعد ہم بیٹھتے ہیں، تاہم، ہم شام کو تاریخیں دیتے ہیں‘۔ اس موقع پر نیرج کول نے کہا، ’ہم سب اجتماعی طور پر معافی مانگتے ہیں۔ ہمیں بہت دکھ ہوا ہے۔ جو ہوا اس سے ہم مساوی طور پر اس پرشرمندہ ہیں او راظہار افسوس کرتے ہیں۔‘ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ وکاس سنگھ کو بنچ کے ارکان نے سخت سست کہا ہو ۔ سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ نے پہلے ایک بار زبانی طور پر ریمارکس دیئے تھے، ’مجھے پریکٹس کے بارے میں مت بتائیے، میں فیصلہ کروں گا کہ میری عدالت میں کیا ہوگا۔‘ جسٹس دنیش مہیشوری نے عدالت میں مقدمات کی سماعت کے حکم کے بارے میں ’غیر ضروری‘ اعتراضات اٹھانے کے اپنے طرز عمل پر بھی ناراضگی ظاہر کی تھی۔
جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی ایک ڈویڑن بنچ نے بھی وکاس سنگھ کے رویے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسٹر سنگھ اچھے ’ مقرر ہوسکتے ہیں‘، انہیں ’اپنی آواز اونچی نہیں کرنی چاہئے‘ اور ’عدالت کو دھمکی دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ ’ خلاصہ یہ کہ یہ کہنا درست ہے، ‘’شیم آن یو‘ وکاس سنگھ! آپ نے بہت دولت کمائی لیکن ایک مثالی وکیل نہیں بن سکے! ججز ہندوستانی آئین کے تحت کام کر رہے ہیں، اگر کسی کو فیصلے پر کوئی اعتراض ہے تو اس کے لیے قانونی کارروائی کا راستہ بھی کھلا ہوا ہے۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ عدلیہ ہندوستانی آئین اور اس کا طرز عمل جمہوری شکل کا ایک اہم ستون ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے سپریم کورٹ کے وقار کو گرانے کی کوشش کرنا سراسر بزدلی ہے۔ وکاس سنگھ کا استعفیٰ لیتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو تحلیل کرنا پڑے گا۔ نئے انتخابات کروا کر نئے صدر کا دوبارہ انتخاب کیا جائے۔ بصورت دیگر وکاس سنگھ کے بار صدر عہدے پر رہنے کے افسوسناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
[email protected]
چیف جسٹس چندر چوڑ نے وکلا کو آئینہ دکھایا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS