مغربی بنگال میں بدلتی سیاست

0

سیاست میں جس طرح سیاسی لیڈروں کی وفاداری ہمیشہ یکساں نہیں رہتی، کبھی بھی وہ پارٹی بدل سکتے ہیں، اسی طرح سیاسی حالات بھی ہمیشہ یکساں نہیں رہتے خاص طور سے الیکشن کے دوران ہوا کا رخ اتنی تیزی سے بدلتا ہے کہ سوچنے ، سمجھنے اورسنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔حکمت عملی بدلتے بدلتے معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے ۔یوں تو ملک کی 5ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں لیکن خبروں میں سب سے زیادہ مغربی بنگال ہے۔ آسام، تملناڈو، کیرالہ اورپڈوچیری کا ذکر اسی وقت سنائی دیتا ہے جب یا تو وہاں ٹکٹوں کی تقسیم ہوتی ہے یا بڑے لیڈروں کے دورے اورانتخابی جلسے ہوتے ہیں ۔ مغربی بنگال میں حالات ہی کچھ ایسے ہیںکہ نہ چاہتے ہوئے بھی بحث ہوتی ہے اوربیانات آتے ہیں۔ وہاں الیکشن بھی طویل 8مرحلوںمیں ہورہا ہے ۔ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں لیڈروں کی شمولیت بھی سب سے زیادہ وہاں ہورہی ہے۔ اب جبکہ امیدواروں کی فہرست جاری ہوگئی ،کاغذات نامزدگی داخل کرنے کاعمل شروع ہوچکا توانتخابی مہم زور پکڑتی جارہی ہے اورحالات بھی بدل رہے ہیں ۔
مغربی بنگال میں انتخابی مہم کے دوران2 واقعات ایسے پیش آئے جن سے بڑے پیمانے پر تبدیلی کے امکانات نظرآرہے ہیں ۔ایک نندی گرام میں وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو لگی چوٹ اوردوسرا ریاست کی سیاست میں تحریک چلانے والے کسان لیڈروں کا داخلہ اوران کے جلسے ۔ان دونوں کا اثر ریاست کے دیہی علاقوں پر بڑے پیمانے پر پڑسکتا ہے۔ غور طلب امرہے کہ جس دن وزیر اعلیٰ کو چوٹ لگی اور وہ انتخابی مہم سے دورہوئیں۔ بی جے پی کے خلاف مہم چلانے کی کمان کسان لیڈروں نے سنبھال لی اوروہ مہاپنچایت کرنے لگے۔ کولکاتا کی سڑکوں پر ریلیاں نکالیں ۔ کسانوں کی مہاپنچایت بھی ان علاقوں میں ہوئی جہاں کسانوں کی تحریک چلاکر ممتا بنرجی نے ریاست میں بائیں محاذ کا مضبوط قلعہ اکھاڑپھینکا تھا اوروہ نندی گرام سے کھڑی بھی ہیں ۔یعنی ممتا کو چوٹ لگنے سے پارٹی کی انتخابی مہم میں جو کسر رہ گئی تھی ، وہ کسانوں نے پوری کردی۔کسانوں نے اگرچہ ترنمول کانگریس کیلئے ووٹ نہیں مانگا،لیکن بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کی ان کی اپیل سے اشارے تو وہی مل رہے ہیں ۔
بی جے پی نے اگرچہ ممتابنرجی کو گھیرنے کی پوری تیار کی ہے ۔ میدان میں ممبران پارلیمنٹ ، مرکزی وزرا، وزرائے اعلیٰ اورتنظیمی عہدیداران کی پوری فوج اتار دی ہے ۔پھر بھی پارٹی کو احساس ہے کہ کسانوں کی للکار اورممتاکی چوٹ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ممتابنرجی کے تیور بھی کچھ ویسے ہی نظر آرہے ہیں ۔اسپتال سے13مارچ کو ڈسچارج ہوتے ہی حرکت میں آگئیں ۔سب سے پہلے14 مارچ کو ’نندی گرام دیوس ‘ منانا اورپولیس کی فائرنگ میں مارے گئے مظاہرین کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ٹوئٹ بھی کیا اورجنوبی کولکاتامیں وہیل چیئر پر 5 کلومیٹر لمبا روڈ شو کیا اوراگلے دن درگا پورمیں 2ریلیاں کرنے کا اعلان کردیا ۔ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ مجھے زیادہ درد ہورہا ہے لیکن لوگوں کے درد کو میں زیادہ محسوس کررہی ہوں ۔ہم نڈر ہوکر لڑیں گے اورزخمی شیر زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست میں اب انتخابی سیاست کس رخ پر جاسکتی ہے ۔فی الحال ریاست میں ’ کھیلا ہوبے ‘نعرہ چل ہی رہا تھا ، اب ترنمول حامیوں نے ایک نیا نعرہ دے دیا کہ ’ بھنگ پائے کھیلاہوبے ‘یعنی ٹوٹے پیر سے کھیلیں گے ۔غرضیکہ ریاست کی انتخابی سیاست میں کسانوں کی انٹری اورممتاکی چوٹ سے حالات کافی بدلے بدلے سے نظر آرہے ہیں اوران کا اثر انتخابات اورنتائج پر پڑنے کا پوراامکان نظر آرہاہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS