ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
بدلتے سیاسی و سماجی منظر نامے نے جہاں نوع انسانی کی فکر ونظر اور عقل و شعور کو جھنجھوڑا ہے تو وہیں بہت حدتک اس بات کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان حالات میں نوع انسانی کی کیا ذمہ داری ہے؟ حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں افراط ہے تو کہیں تفریط، اعتدال و توازن اور ہم آ ہنگی کہیں نہیں نظر آرہی ہے۔ مفاد پرست عناصر نے جس قدر سیاسی قدروں کو مخدوش کیا ہے وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہے، اسی طرح سماجی روایات کے تقدس کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے وہ بھی اب عام سی بات ہے۔ ان تمام احوال کے تناظر میں یہ بات کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والوں اور اصحاب دانش و بینش، نیز فکرو نظر کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان بدلتے ہوئے حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور درست منصوبہ بندی کرکے قوم و ملت کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔ ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ بدلتے ہوئے حالات پر کنٹرول کیسے قائم کیا جاسکتا ہے۔ آ ج کا المیہ یہ ہے کہ حالات کا رخ تیزی سے بدل تو رہا ہے مگر ہم اور ہماری قیادت کا دم بھرنے والے پوری طرح خاموش ہیں۔ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ اب قائدین وعمائدین بھی کہیں نہ کہیں حالات سے جان بوجھ کر آ نکھیں موند رہے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی آ گے یہ کہ اب تو سچ کو سچ اور غلط کو غلط کہنے کی بھی سکت باقی نہیں رہی ہے۔
بدلتا عالمی منظرنامہ اور اس کے تقاضے ہم سے کچھ کہہ رہے ہیں، ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور نئے حالات اور چیزوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا، کیوں کہ اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو ہر دور میں نوع انسانی کی درست رہنمائی کرتا ہے۔ حالات کا رخ تو بہت کچھ کہہ رہا ہے، تاہم اس وقت جو ضرورت ہے وہ محبت، پیار اور اخوت و بھائی چارگی کی ہے۔ انہی پاکیزہ اوصاف کے ذریعے ملک کے سماجی نظام کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے۔
ہندوستانی سماج جن خصوصیات وامتیازات کا حامل ہے وہ بہت اہم اور گرانقدر ہیں، ان کا پوری دنیا میں شہرہ ہے اور اس لیے ان کو بچانا نہایت ضروری ہے۔ ایک طرف ہمارے سامنے ہمارے اپنے مفادات ہیں، سیاسی قوت کا حصول ہے، عہدوں کی طلب اور خواہش ہے تو وہیں ہمارے سامنے ہندوستانی معاشرے کی وہ تصویر ہے جس میں آ ئے دن کسی نہ کسی بے قصور کو ہجومی تشدد کا شکار بنا دیا جاتا ہے یا نفرت آ میز مواد اور نعروں سے سماج کے جذبات کو برانگیختہ کیا جارہا ہے۔ مقدس اور برگزیدہ شخصیات کی شان میں گستاخی کرنا ایک جرم عظیم ہے خواہ ان مقدس شخصیات کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ملک سیکولر نظام کا علمبردار ہے، آ ئین ہند کی رو سے ملک کے تمام طبقات اور معاشروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کو چاہیں اختیار کریں۔ اس کے باوجود سماجی طور پر جو اذیتیں اور دل آ زاری اقلیتی طبقے کی کی جارہی ہے، وہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔ ملک میں جو بھی نفرت یا دل آ زاری کا کا م کررہے ہیں، اس پر نظر ڈالنے اور اس کے پس منظر کو سمجھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر اور دانستہ طور پر کیا جارہاہے۔ اس سے فرقہ پرست طاقتیں جو حاصل کرنا چاہتی ہیں، وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہے۔ افسوس تو مزید اس وقت ہوتا ہے جب پولیس کی موجودگی میں تمام حرکتیں کی جاتی ہیں مگر پولیس خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے گریزاں نظر آتی ہے۔ ایسی بھی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں کہ الٹا مظلومین پر شکنجہ کس دیتی ہے اور مجرمین کی کھلے عام حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ اس لیے ملک کا سیاسی وسماجی ڈھانچہ ہی تبدیل نہیں ہورہا ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ ہندوستانی معاشرے کی روح کو زخمی کیا جارہاہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اب نوبت یہاں تک آ ن پہنچی ہے کہ ہندوستان کا جمہوری معاشرہ اور اس کی مجموعی قدریں پوری طرح زخمی کی جا چکی ہیں۔ ان حالات سے باہر کیسے آ یا جائے ملک کی سماجی اور سیاسی قدروں نیز اس کے روح پرور منظر کو کیسے محفوظ کیا جائے، اس وقت ان تمام لوگوں کے سامنے یہ ایک بڑا سوال ہے جو اصحاب علم وفضل اور صاحب اقتدار ہیں۔ دنیا کے موجودہ سماجی اور سیاسی نظام کو انسانیت کے تئیں نفع رساں کیسے بنایا جائے، اس پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تناظر میں یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے یہ جو یکسر ملک میں مسلم کمیونٹی کے خلاف مستحکم ہورہے ہیں، اس کے پس پردہ بنیادی اسباب و عوامل پر بھی نہایت توسع سے غور کرنا ہوگا۔ نتیجتاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے صرف تنظیموں اور جماعتوں کا رجسٹریشن کرایا۔ ایک نہیں بلکہ سیکڑوں سوسائٹیاں بنا ڈالیں مگر مجموعی طور پر وہ سوسائٹیاں سب مل کر اتنا کام نہیں کر پائیں جتنا ایک جماعت نے کردیا ہے۔ یاد رکھئے کسی بھی قوم کی عظمت اور اس کے وقار کو زندہ رکھنے کے لیے سب سے بنیادی ضرورت ہے اس قوم اور معاشرے کا اتحاد، اگر وہ معاشرہ سماجی وسیاسی رویوں پر متحد ہے تو پھر اس کو دنیا کی کوئی طاقت بھی کمزور یا بے استعمال نہیں کرسکتی ہے۔ اب دیکھئے مسلم جماعتیں ابھی تک یہ اہم کام بھی پورے طور پر نہیں کرپائیں کہ وہ مسلم کمیونٹی کو سیاسی اور سماجی طور پر یکجا کردیتیں۔ دوسری بنیادی چیز یہ ہے کہ قوموں کے زندہ اور حساس ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس قوم کا سیاسی شعور پوری طرح بیدار ہو، آج دیکھ لیجیے سیاست میں حصہ داری تو دور کی بات آ ج بھی مسلم کمیونٹی میں ایسے افراد موجود ہیں جو سیاسی موضوع پر بات کرنے کو گناہ تصور کرتے ہیں۔ ہماری جماعتیں جب یہی دو بنیادی کام پورے طور پر ابھی تک نہیں کر سکیں تو پھر مزید کیا امید کی جاسکتی ہے۔ ان چیزوں سے آراستہ یا سیاسی وسماجی شعور پیدا کرنے کے لیے تعلیم کی بنیادی ضرورت ہے، اس میدان میں بھی ہماری نمائندگی نا کے برابر ہے۔ اب سوچئے سمجھئے اور حالات کا تجزیہ کیجیے کہ آ خر ان حالات میں ہم کو اپنے روشن مستقبل کے لیے کیا کرنا ہوگا۔بدلتے سماجی اور سیاسی نظام میں ہم کو اپنا تشخص بھی برقرار رکھنا ہے اور اپنی نسلوں کے لیے پر امن فضا بھی استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہمارا وجود تو ہے لیکن اس کے اندر وہ درد اور آگاہی نہیں بچی ہے جس کی رواں حالات میں ضرورت ہے۔ آخر میں یہ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بدلتا عالمی منظرنامہ اور اس کے تقاضے ہم سے کچھ کہہ رہے ہیں، ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور نئے حالات اور چیزوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا، کیوں کہ اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو ہر دور میں نوع انسانی کی درست رہنمائی کرتا ہے۔ حالات کا رخ تو بہت کچھ کہہ رہا ہے، تاہم اس وقت جو ضرورت ہے وہ محبت، پیار اور اخوت و بھائی چارگی کی ہے۔ انہی پاکیزہ اوصاف کے ذریعے ملک کے سماجی نظام کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے۔
[email protected]