تبدیل ہوتا ہندوستان-بدلتی جمہوریت

0

محمد فاروق اعظمی

چنگیز خان نے بھی کبھی اپنے مفتوحین سے یہ مطالبہ نہیں کیاتھا کہ اسے تاناشاہ، وناش پرش، ڈھونگی، دوہرا کردار، ظالم و جابر نہ کہاجائے وہ تو گھوڑے کی ننگی پشت پر سوار ہوکر آتا، علاقہ فتح کرکے وہاں مفتوحین ہی میں سے منتخب کرکے اپنا نمائندہ بٹھاتا اور نئی فتح کیلئے پابہ رکاب ہوجاتا۔ اپنی تمام تر ظلم و بربریت اور سنگ دلی کے باوجود اسے یہ ادراک تھا کہ وہ علاقہ فتح کررہاہے دل نہیںلہٰذا مفتوحین اس پر عاشق نہیں ہوسکتے ہیں وہ مزاحمت کریں گے، برا بھلا کہیںگے۔ داد و فریاد، نالہ و شیون کا فطری عمل روکا نہیں جاسکتا ہے۔لیکن اب وقت بدل گیا ہے، نہ چنگیز خان رہا، نہ اس کے مفتوحین رہے۔اب روشن خیالی اور دور استبصار سے ہوتے ہوئے دنیا دورجمہورمیں پہنچ چکی ہے۔ فرد کی حاکمیت قصہ پارینہ ہوگئی ہے۔ نئی دنیا کیلئے نئے قوانین بنائے گئے ہیں۔فرد کے بجائے جمہور کوحکمراں قرار دیتے ہوئے ہر عامی کو حکومت میں شامل ہونے کاحق تسلیم کیاگیا ہے۔جمہوریت کے خوش نما عنوان کے تحت مساوات وانصاف اورآزادی انسانوں کا بنیادی حق ٹھہرا ہے۔
لیکن کیا ہندوستان میں بھی یہی جمہوریت ہے، کیایہاں بھی جمہور ہی حکمراں ہے، کیا مساوات و انصاف اور آزادی یہاں کے بسنے والوں کا حق ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہوتاہو تو ہو لیکن اب شاید نہیں ہے۔ہندوستان کی حد تک گردش ایام بڑی تیزی سے پیچھے کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اب ’حاکم‘ کا مطالبہ ہے کہ اس کے مفتوحین اس پر عاشق ہوجائیں، اسے ظالم، جابر، سنگ دل، تاناشاہ اور آمر نہ کہیں،پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیرہر تبدیلی قبول کرلیں، اس کے ہر قول کو فرمان امروز سمجھیں، ہر عمل کو نوشتہ تقدیر جانیں اور ’ کاتب تقدیر‘ کے فیصلہ پر سر تسلیم خم کردیں۔ حاکم کے طے کردہ ضابطہ حیات سے سر مو انحراف بغاوت سمجھی جائے گی اور باغی نشان عبرت بنادیے جائیں گے۔ لنکیش گوری سے لے کر اخلاق، نجیب اور پہلوخان تک یہ ’نشان عبرت‘جابہ جاقائم بھی کردیے گئے ہیں اور ہرگزرتے دن کے ساتھ ان میں تیستاسیتلواڑ اور محمد زبیر کا اضافہ کرکے بغاوت، اعتراض، احتجاج اور مزاحمت کا راستہ بند کیاجارہاہے۔
گزرنے والاہفتہ بھی کئی بڑی تبدیلیوں کا نقیب رہاہے۔ پہلی تبدیلی تو یہی کی گئی کہ قومی نشان کی ہیئت میں خوف و دہشت کی آمیزش کرکے جمہوریت کو خونخوار شکل دے دی گئی ہے۔ یہ تبدیلی پارلیمنٹ ہائوس کی نئی عمارت کی چھت پر نصب کیے جانے والے اشوکا ستون میں کی گئی ہے۔پارلیمنٹ کے اسپیکر کے بجائے وزیراعظم کے ہاتھوں سے اس کی نقاب کشائی بھی تنازع کا ایک سبب ہے۔ لیکن اصل تبدیلی اشوکا کے ستون میں شیروں کی دہشت زدہ کردینے والے نقوش میں کی گئی۔ قومی نشان اشوکا کے ستون میں چار شیراب تک طاقت، ہمت، اعتماد اور فخر کی علامت سمجھے جاتے تھے۔لیکن اب ان میں ان سب صفات کے بجائے صرف ایک صفت دہشت اور خوف کی نظر آرہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اشوکا ستون کو تیار کرنے کا کام ٹاٹا پروجیکٹس لمیٹڈ کو دیا گیا تھا، کمپنی نے اس مجسمے کو شکل دینے کیلئے اورنگ آباد کے مجسمہ سازبین الاقوامی شہرت کے حامل فنکار سنیل دیورے کا انتخاب کیاجنہیں اس مجسمہ کی گل کاری میں پانچ سال لگے ہیں۔اس بڑے مجسمے کو تیار کرنے کیلئے مجسمہ ساز اور اس سے جڑے تمام لوگوں کی محنت، حکومت کی جانب سے خرچ کی گئی بھاری رقم کے باوجود ہندوستان کی روح کی نرمی، ستیہ میو جیتے کا صبر اور ہمت کا نقش اس مجسمہ میں نہیں ابھاراجاسکا ہے۔غصہ سے دھاڑتے ہوئے شیروں کے نوکیلے دانت باہر نکلے ہوئے ہیںاور عزت و وقار کی صفت غائب اور نفاست عنقا محسوس ہورہی ہے۔ انہیں دیکھ کر صرف ایک احساس خوف کا پیدا ہورہاہے۔یہ خوفناک شیر نئی تعمیرہورہی پارلیمنٹ کی عمارت یعنی جمہوریت کے ’ مندر‘پر نصب کیے گئے ہیں وہ جمہوریت جو ہر طرح کے خوف و دہشت اور ظلم و جبر کے خاتمہ کی علامت سمجھتی ہے۔
شیر کے اس ’شاندار مجسمہ‘ کے سرپرستوں کا کہنا ہے کہ یہ قومی نشان لوگوں کی نگاہ کی رسائی سے دور کافی بلند جگہ پر نصب ہے۔ یعنی دھاڑتے اور گرجتے ہوئے شیر کے نوکیلے دانت لوگوںکی نظروں میں نہیں آئیں گے۔ یعنی جس طرح گزشتہ 8 برسوں سے خوف کی حکمرانی، جمہوریت کی آڑ میں عوام کی نظروں سے چھپائی گئی ہے، اسی طرح عوام کی نظروں سے دور بلندی پر ایستادہ خوفناک شیر ’جمہوریت کے مندر‘ پر راج کرے گا۔
دوسری تبدیلی ایوان میں الفاظ کے استعمال کیلئے حدود کا تعین اور نئی لغت سازی ہے۔ حکومت اور حکمرانوں کی سماعت پر گراںگزرنے والے تمام الفاظ ممنوع قرار دے دیے گئے ہیں۔بے روزگاری، بھکمری، مہنگائی اور کساد بازاری پر قابو پانے میں مکمل ناکامی کے باوجود ایوان میں حکومت کو ’نااہل‘ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ بھلے ہی خوف کی حکمرانی کیوں نہ ہو، ایوان میں حکومت کیلئے آمرا ور ڈکٹیٹر جیسے الفاظ نہیں کہے جائیں گے۔ وزرا اور سابق جج حضرات پر جنسی بے راہ روی کا الزام ہی کیوں نہ ہو، ایوان میں جنسی ہراسانی(سیکسوئل ہریسمنٹ) کا لفظ قابل قبول نہیں ہوگا۔ترقی کے بلند بانگ دعوے کرنے کی حکومت میں آکسیجن کے بغیر مرنے والے سیکڑوں ہندوستانیوں کے کرب کااظہار کرنے کیلئے ’ وناش پرش‘ نہیں کہاجاسکتا ہے۔ ’نہ کھائوں گانہ کھانے دوںگا‘ کے دعوے کے برخلاف ملک کی ہرچیز اونے پونے بیچنے والی حکومت کیلئے ’دوہرا کردار‘ کا لفظ بھی نہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ملک فسادات کی آگ میں جلتا رہے اور شہروں میں دنگائی ننگا ناچ کریں مگر ایوان میں دنگا اور فساد کا لفظ نہیں بولا جاسکتا ہے۔ غداری کے الزام میں ہزاروں بے قصوروں کو عقوبت خانوں میں ڈال دیا جائے مگر ایوان میں ’ غداری‘ بولنے پر پابندی رہے گی۔بار بار رنگ بدلنے والی حکومت کو ’ گرگٹ ‘ بھی کہنا قابل مواخذہ ہوگا۔سال بھر تک موسم کی شدت جھیلتے ہوئے تحریک چلانے والے کسانوں سے بات نہ کرنے والی حکومت کو بے حس، مغرور، متکبر اور اناپرست بھی نہیں بولاجاسکتا ہے۔ مختلف ریاستوں میں حکومت گرانے اور حکومت بنانے کیلئے ’ آپریشن لوٹس‘پر کروڑوں روپے صرف ہوتے رہے لیکن ’خریدو فروخت ‘ اور’ہارس ٹریڈنگ‘ کا لفظ نہیں بولا جاسکتا ہے۔ 15-15 لاکھ روپے اور ہر سال3کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والوں کو ’جھوٹا‘ بھی نہیں بو لاجاسکتا ہے۔
تیسری تبدیلی پارلیمنٹ کے حدود میں احتجاج اور دھرنے کی بابت ہے۔اندرون ایوان زبان بندی کے بعد ایوان کے احاطہ میں دھرنا و احتجاج پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔اب حزب اختلاف عوام کے مسائل پر ایوان کے احاطہ میں دھرنا بھی نہیں دے سکتا ہے اور نہ مظاہرہ و احتجاج کی اجازت ہوگی۔
یہ تبدیلیوں سے گزرتا اس سوشلسٹ، سیکولر، ڈیموکریٹک ریپبلک ’ انڈیا‘ کا موجودہ منظر نامہ ہے جہاں اس کے تمام شہریوں کیلئے سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف، خیال، اظہار، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی، مساوات اور فرد کی عظمت کی ضمانت دی گئی ہے۔ تبدیل ہوتے ہندوستان کی بدلتی جمہوریت کو چنگیز خان کی روح بھی بڑی حیرت سے دیکھ رہی ہوگی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS