اس وقت جنوبی ہندوستان کی تین ریاستوں میں سیاسی پا رہ چڑھا ہوا ہے۔ ان میں دو ریاستیں ایسی ہیں جہاں اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات کے لیے صف بندی تقریباً ہوچکی ہے جبکہ ایک ریاست کرناٹک میں اسمبلی انتخابات ہوچکے ہیں اور اب بدلے ہوئے حالات میں موجودہ حکمراں پارٹی یعنی کانگریس اور بی جے پی کے درمیان نونک جھونک اورسیاسی رسہ کشی دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ خیال رہے کہ سیاسی حساس ریاست کرناٹک میں 2019کی لوک سبھا کی انتخابات میں بی جے پی نے کل 28لوک سبھا سیٹوں میں سے 25پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ اب سیاسی پنڈت نظر جمائے بیٹھے ہیں کہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کیا گل کھلائے گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ اسمبلی انتخابات میں کراری شکست کے بعد بی جے پی 2019کے نتائج 2023میں نہ دہراسکے، مگر سیاست میں کب کیا ہوجائے کہنا مشکل ہے اور ا بھی لوک سبھا انتخابات بھی دور ہیں۔ جنوبی ہند کی ایک اور ریاست تلنگانہ میں اس وقت سیاسی پارہ چڑھا ہوا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ قومی پارٹیوں (بی جے پی، کانگریس) میں سے کسی بھی پارٹی کی حکومت تلنگانہ میں نہیں ہے۔
بی آر ایس کو اتحاد المسلمین کی حمایت حاصل ہے۔ بی جے پی اور کانگریس اس فراق میں ہے کہ وہ موجودہ ریاستی سرکار اکھاڑ پھینکیں۔ دو روز قبل وزیر اعظم کے اس بیان نے کہ بی آر ایس این ڈی اے کا حصہ بننا چاہتی تھی، مگر انہوںنے مرکز کے حکمراں اتحاد میں بی آر ایس کو شامل کرنے سے انکارکردیا۔ یہ جملہ بڑا معنی خیز اور حکمراں اتحاد کو چوٹ پہنچانے والا ہے۔ کانگریس نے حسب توقع وزیراعظم کے اس جملے کے مفاہم اخذ کرنے شروع کردیے ہیں اور کانگریس کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ بالکل درست کہا تھا کہ بی آر ایس اور بی جے پی اندر خانے ملی جلی ہوئی ہیں اور بی آر ایس بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔ اس جملے نے تلنگانہ میں حکمراں بی آر ایس کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ بی آر ایس کا اچھا خاصا عمل دخل اقلیتی طبقے میں ہے۔ ظاہر ہے کہ وزیراعظم کا یہ تبصرہ اسمبلی انتخابات اور بعد ازاں اگلے سال وسط میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں بھی چوٹ پہنچائے گا۔
تلنگانہ میں لوک سبھا کی 17سیٹیں ہیں ۔ 2019میں بی آر ایس کو 9سیٹیں ملی تھیں ، بی جے پی کو4، کانگریس کو 3 اور اتحاد المسلمین کو ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیابی ملی تھی، جبکہ تلنگانہ میں ایک طویل عرصے سے کانگریس کی سرکار نہیں بن پائی ہے، لیکن اس مرتبہ کانگریس کو بڑی امیدیں ہیں۔ کانگریس کو لگتا ہے کہ تمل ناڈو میں جس طریقے سے غیرمعمولی طور پر کامیابی حاصل کی تھی اس کا اثر پڑوس کی تلنگانہ ریاست میں پڑے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کانگریس پارٹی بی آر ایس و اتحاد المسلمین اتحاد اور بی جے پی کو دیوار پر دھکیلنے میں کامیابی حاصل کرپائے گی او ر بی جے پی کس حد تک نقصان کو روک پائے گی۔ کیونکہ کرناٹک میں بی جے پی کے زوال کا اثرتلنگانہ میں بہرکیف پڑے گا۔کانگریس پارٹی میں کافی جوش وخروش ہے ۔ کانگریس پارٹی جنوبی ہند کی ریاستوں پر توجہ دے رہی ہے۔ یہ بات بھارت جوڑو یاترا سے بالکل واضح ہوگئی ہے ، مگر اس کا فائدہ کیا ہوگا۔ موجودہ اسمبلی انتخابات میں کتنا ہوگا اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
جنوبی ہند کی ایک اور ریاست تمل ناڈو میں حالات بالکل مختلف ہیں، تمل ناڈو کی دونوں سیاسی جماعتوں ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے درمیان ماضی کی طرح تلواریں کھینچی ہوئی ہیں۔ حکمراں ڈی ایم کے کا اتحاد یو پی اے یا انڈیا اتحاد سے ہے۔ تمل ناڈو میں لوک سبھا کی 39 سیٹیں ہیں جن میں ڈی ایم کے پاس 38سیٹیں ہیں۔ یہ حقائق وقوائف اس بات کا اشارہ ہیں کہ وہاں بی جے پی یا اے آئی ڈی ایم کے کے لیے امکانات کس قدر قلیل ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اے آئی اے ڈی ایم کے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان سیاسی تال میل بالکل ختم ہوگیا ہے ۔ یہ دونوں پارٹیاں ایک طویل عرصے سے جامع حکمت عملی کے تحت انتخابی اتحاد کی حصہ تھیں، مگر دراوڑ سیاست میں بی جے پی کس حد تک اپنی اہمیت برقرار رکھ پائے گی ۔ یہ دیکھنا دلچسپی کے باعث ہوگا، مگر ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کے سامنے بڑے چیلنجز ہیں اور جنوبی ہند کی سرزمین بی جے پی کے لیے اس قدرذر خیز نہیں ہیں جنتی شمالی ہند میں۔
جنوبی ہندوستان میں بی جے پی کیلئے چیلنجز برقرار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS