پروفیسر عتیق احمدفاروقی
دمشق میں ایرانی قونصل خانہ پر اسرائیلی حملے کے جواب میں ، جیساکہ معتبر ذرائع سے پتہ چلاہے ،ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 ڈرون اورکروز میزائیل فائر کردئیے۔ ڈرون حملے ایران نے براہِ راست کئے تھے، جس میں اسرائیلی دفاعی تنصیبات اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایاگیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق ایران نے اسرائیل پر حملے میں اُن کے اتحادی یمن ،لبنان اورعراق بھی شامل ہیں۔ یہ حملہ مختلف سمتوں سے کیاگیا۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگری نے اِ ن حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہاہے کہ ایران کی جانب سے تقریباً 300ڈرون اورمیزائیل داغے گئے اورکچھ میزائیل کے حملے عراق اوریمن سے بھی کئے گئے۔ اسرائیلی فوجی ذرائع کے مطابق صرف چند ایرانی میزائل اسرائیل کی سرزمین میں گرے جس سے فوجی اڈے اور انفرااسٹرکچر کو صرف معمولی نقصان پہنچا، لیکن ایک امریکی نیوزچینل نے اپنی رپورٹ میں صیہونی حکومت کے خلاف تہران کی جوابی کارروائی کے بعد کم ازکم نومیزائیل اسرائیل کے دوہوائی اڈوں پر گرے جس سے تل ابیب کو شدید کو نقصان پہنچاہے۔ اے بی سی نے ایک سینئر امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایاکہ پانچ ایرانی بلاسٹک میزائیل نواتین ایئربیس پر گرے جس سے ایک سی ۔130ملیٹری ٹرانسپورٹ طیارہ ، ایک رنوے اورکئی گوداموں کو نقصان پہنچا۔ علاوہ ازیں چار دیگر میزائیل نیگیوایئربیس پر گرے اوراس بیس کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ یہ سچ ہے کہ اس حملے میں اسرائیل کا کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوالیکن ایران نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ابھی کے لیے اس کی اتنی کارروائی کافی ہے لیکن اگر مزید حماقت اس نے کی توبہت خطرناک رد عمل ہوگا۔
اس سلسلے میں ایران نے بین الاقوامی سطح پر اپنا موقف واضح کردیاہے ۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مشن نے کہاہے کہ اسرائیل کے خلاف ملک کی فوجی کارروائی اپنے دفاع کے جائز حق کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51پر مبنی ہے اور شام میں ایرانی قونصلیٹ کے خلاف مہلک اسرائیلی حملے کے جواب میں تھی۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیاہے کہ ایران کے 99فیصد ڈرون اور میزائیلوں کو اس نے تباہ کردیاہے ، پھربھی اس نے ایران کے اس اقدام کا سخت جواب دینے کاعزم ظاہر کیاہے ۔ دوسری طرف سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر ان چیف جرنل حسین سلامی نے خبردار کیاہے کہ اگرصیہونی حکومت نے ایران کے مفادات ، ان کی شخصیتوں اور شہریوں پر کسی بھی جگہ پر حملہ کیا تو وہ ان پر جوابی کارروائی کریں گے۔ ویسے امریکہ کے صدر جوبائیڈن ، اقوام متحدہ کے سکریٹری جرنل گویتریس اورہندوستان نے مغربی ایشیاء میں اسرائیل پرایران کے حملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپیل کی کہ وہ تشدد چھوڑ کر سفارتکاری اوربات چیت کی طرف لوٹیں۔ سبھی نے اسرائیل سے خصوصی اپیل کی کہ وہ تحمل سے کام لیں۔ لب لباب یہ کہ پہلے سے جاری جنگوں سے پریشان لوگوں کی دنیامیں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ چھ ماہ سے جاری حماس- اسرائیل کی مہلک جنگ میں ہزاروں لوگ ، جن میں خواتین اوربچوں کی اکثریت ہے، پہلے ہی مارے جاچکے ہیں اوراب اگرایران کے مورچہ پر بھی جنگ چھڑتی ہے تو نہ جانے کتنے مزید جاں بحق ہوں گے۔
سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر ایران کو جنگ میں سیدھے کودنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ ایران اوراسرائیل کے بیچ ویسے بھی جغرافیائی طور پر فاصلہ زیادہ ہے۔ دراصل دونوں ممالک کے بیچ کشیدگی کو سمجھنے کے لیے 1979میںآئے ایران کے انقلاب کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ایران میں تب اسلام کے نام پر انقلاب آیاتھا۔ یاد رہے کہ ایران اس پورے علاقے میں تنہا ملک ہے جو یوم یروشلم مناتاہے ۔ فلسطین کی حمایت کرنے کے لیے اسرائیل کی مخالفت کرنا ایران کی اُس اسلامی حکمت عملی کا حصہ ہے جس پر وہ گزشتہ چار دہائیوں سے عمل پیر اہے۔ یعنی ایران کے لیے اسرائیل کوئی جغرافیائی مصلحت پر مبنی ملک نہیں ہے ، اس کی مخالفت محض فرقہ وارانہ ہے۔ حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ سال 1979 سے پہلے جب ایران میں شاہ کی حکومت تھی تب ایران اوراسرائیل میں دوستی تھی اوردونوںممالک امریکہ کے قریبی تھے مگرجب ایران میں اسلامی انقلاب آیاتو سب کچھ بدل گیا۔ عرب دنیا کی سفارتکاری اورسیاست بھی بدل گئی۔ ایران اسرائیل کا مخالف بن گیا۔ اسرائیل سے مخالفت کے لیے اس نے تمام بہانے تلاش کرنے شروع کردیے۔ یہ سچ ہے کہ اسرائیل کے خلاف لڑنے والی جنگجوتنظیموںمیں چاہے وہ حزب اللہ ہو یا یمن کے حوثی یا عراق وشام کے جنگجوئوں سبھی کو بھی مبینہ طو رپر ایران سے مدد ملتی رہی ہے۔ وہ ان جنگجوؤں کو مبینہ طور پر اسلحہ بھی فراہم کررہاتھا اورٹریننگ بھی دے رہاتھا یہ مد د قریب پچیس سال سے ملتی رہی ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد اب ایسی نوبت آگئی ہے کہ ایران کو سیدھے حملہ کرنا پڑاہے۔ حماس کا اسرائیل پر حملہ بھی بے وجہ نہیں تھا ۔اسرائیل ایک لمبے عرصہ سے نہ صرف غزہ کے فلسطینیوں کو محاصرہ میں لیے ہوئے تھا بلکہ بلا ناغہ نہتے اوربے گناہ فلسطینیوں پر قتل کا سلسلہ بھی جاری کیے ہوئے تھے۔ آخر حماس کب تک برداشت کرتا۔ یہ الگ بات ہے کہ فلسطینیوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ ان حالات میں اسرائیل بھلا کیوں نہیں چاہے گا کہ وہ ایران کو کمزور کرے ؟ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اسرائیل شروع سے ہی ایران کے جوہری پروگرام کی مخالفت کرتارہتاہے۔ ایران اوراسرائیل کے بیچ کوئی علاقائی رقابت نہیں ہے بس ایک دوسرے کی مخالفت کرتے کرتے جنگ کی نوبت آگئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آگے کیاہوگا؟ شاید ایران بھی نہیں چاہے گاکہ پورے علاقہ میں جنگ پھیل جائے ۔ امریکہ بھی یہ نہیں چاہے گا، اس لئے امریکہ نے اسرائیل سے کہاہے کہ وہ اسے اپنی جوابی حکمت عملی کے بارے میں بتائے۔ ضروری نہیں کہ اسرائیل اس کی بات مان ہی لے، جیسا کہ نیتن یاہو نے اپنا ردّ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے میں وہ کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے، خود ان کے ملک کی کابینہ فیصلہ کرے گی۔ لہٰذا ایسا لگتاہے کہ اسرائیل مستقبل میں ایران کے خلاف کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا۔ ہوسکتاہے آگے بڑا حملہ نہ ہو۔ دراصل ابھی کوئی ملک نہیں چاہتاکہ ایشیاء کے وسیع حصہ میں بڑے پیمانے پر جنگ چھڑ جائے کیونکہ اگربڑی جنگ ہوتی ہے تو پھر فرانس ، جرمنی اورروس جیسے ملک بھی اس میں کود پڑیں گے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ دونوں ممالک کے بیچ بھلے ہی سمجھوتہ نہ ہو، مگر دونوں کو جنگ بندی کے لیے تیار کرلیاجائے گا۔ غور طلب ہے کہ جتنی میزائلیں ایران کے پاس ہیں اس سے زیادہ ترقی یافتہ اسرائیل کے پاس ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت اسرائیل غزہ کی جنگ میں پھنساہواہے اوراس کے اسلحے تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ اگرامریکہ اورمغربی ممالک اسلحے کی ترسیل روک دیں تو اسرائیل گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے گا۔ ایران کے لیے بھی جنگ آسان نہیں ہے ۔ ابھی بتایاجارہاہے کہ تازہ حملہ میں اس نے قریب 300میزائلیں داغی ہیںجن میں سے 99فیصد کو اسرائیل نے اپنی بہترتکنیک سے ناکام کردیاہے۔ علاوہ ازیں ایران کی موجودہ حکومت کی مقبولیت میں بھی کافی کمی آئی ہے۔
ایسے حالات میں ہمارے ملک کو ایک غیرجانبدار رویہ اپناتے ہوئے ایسی تمام کوششیں کرنی چاہیے جس سے متاثرہ علاقوں میں امن قائم ہوسکے۔
[email protected]