کیا قربانی کی رقم ضرورت مندوں کو دی جاسکتی ہے؟: ذکی نور عظیم ندوی

0
Image: AMUST

ذکی نور عظیم ندوی
قربانی حضرت ابراہیم و اسماعیل ؑ کی یادگار اور نبی اکرمؐ کی سنت ہے جس کی بڑی تاکید آئی ہے، وسعت ہو تو قربانی ضرور کرنی چاہئے۔اس سلسلہ میں موجودہ حالات اور لوگوں کی بڑھتی معاشی تنگی اور پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے قربانی کی رقم غربا اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے کی آواز اٹھائی جارہی ہے، لیکن دینی تعلیمات کے صحیح مطالعہ اور قرآن و حدیث کے جائزہ سے اندازہ ہوا کہ یہ وہ عبادت ہے جس کی ظاہری شکل بھی پوری طرح مطلوب ہے اور اس کے مقاصد بھی۔ اس لئے ظاہری شکل یعنی جانوروں کی قربانی کسی دوسرے مقصد کی وجہ سے چھوڑنے کی قطعاً گنجائش نہیں۔ ابن ماجہ میں ابو ہریرہ ؓ کی حدیث ہے ’’کہ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والا ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے‘‘۔اس سلسلہ میں مختلف نقطہ نظر اور دلیلوں کے علمی جائزہ سے معلوم ہوا کہ قربانی کے تعلق سے آج کل تین نقطہ نظر پیدا ہوگئے ہیں:
(۱) قربانی کو اصل و ضروری نہ مان کر اس کی رقم ضرورت مندوں اور محتاجوں میں تقسیم کر دینا ، اس کی کوئی قابل قبول شرعی دلیل نہیں بلکہ مذکورہ بالا حدیث اس کے صریح خلاف ہے۔
(۲)گھر کے صاحب حیثیت ا فراد کی طرف سے الگ الگ قربانی کو واجب و ضروری سمجھنا۔ اس سلسلہ میں حدیث’’کہ استطاعت اور حیثیت کے باوجود قربانی نہ کرنے والا ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے‘‘ بطور دلیل پیش کی جاتی کہ قربانی اصل ہے اور اس کے بدلہ کوئی بھی تعاون یا مدداس کا متبادل نہیں۔حالانکہ امام طحاوی نے ’’مختصر العلماء￿ ‘‘ میںاور امام شعبی نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور بہت سے صحابہ کے بارے میں لکھا کہ وہ قربانی اس وجہ سے نہیں کرتے تھے کہ لوگ اسے ضروری اورواجب سمجھ لیں گے۔جب کہ عبداللہ ابن عباس حضرت عکرمہ کو دو درہم دے کر بازار سے گوشت منگواتے اور کہتے کہ ملنے والوں کو بتا دینا کہ یہی ابن عباس کی قربانی ہے۔ اور ابن عمرؓ کہتے کہ یہ واجب نہیں بلکہ مسنون ہے،اور ابو مسعود انصاری صاحب حیثیت ہونے کے باوجود قربانی اس لیے نہیں کرتے کہ پڑوسی اسے ضروری نہ سمجھیں۔
(۳)صاحب حیثیت فرد کا اپنی اور اپنے گھر کے دیگر باحیثیت افراد کی طرف سے ایک ہی بکرے کی قربانی کرنا اور اس سلسلہ میں مختلف احادیث اور آثار و نصوص بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ کہ رسول ؐ، صحابہ کرام اور تابعین وتبع تابعین ایک بکرے کی قربانی اپنے اور اپنی زیر کفالت اہل وعیال کیلئے کرتے تھے ، یعنی بیوی، لڑکے، لڑکیوں اور بعض حالات میں ساتھ رہنے والے والدین اور بہنوں و بھائیوں کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہے۔
ترمذی اور ابن ماجہ میں عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو ایوب انصاریؓ سے دریافت کیا کہ رسول ؐکے دور میں قربانی کا کیا طریقہ تھا توانہوں نے جواب دیا ’’کہ آدمی اپنی اور اپنے گھروالوں کی جانب سے ایک بکری قربانی کرتا تو وہ بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے‘‘۔
ابن ماجہ میں خود نبی اکرم ؐ سے ایک مینڈھا اپنے اور اپنے پورے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرنے کی صراحت ہے کہ رسول ؐجب قربانی کرنا چاہتے تو دو بڑے، تندرست، سینگوں والے چتکبرے اورخصی مینڈھے خریدتے۔ ایک اپنی امت کے ہر اس فرد کی طرف سے جو اللہ اور اور نبی ؐ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو۔اور دوسرا محمد ؐ، اور محمدؐ کی آل کی طرف سے ذبح کرتے۔
ابوداوؓد میں جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ ’’ میں عید الاضحی کے موقع پر رسول اللہ کے ساتھ عید گاہ میں تھا۔ آپ ؐ اپنا خطبہ مکمل کرنے کے بعدمنبر سے اترے تو آپؐ کو ایک مینڈھا پیش کیا گیا۔ آپ ؐ نے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور یہ دعا پڑھی ’’بسم اللہ واللہ اکبر ہٰذا عنی وعمن لم یضح من أمتی‘‘ یعنی یہ میری اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے جو قربانی نہیں کر سکے، ابوداود اور ترمذی نے ابوایوب انصاریؓ کی روایت کو’’ ایک بکری پورے گھر کی طرف سے کافی‘‘ نامی باب میں بیان کی ہے اور امام ترمذی نے یہ بھی کہا ہے کہ اس پربعض اہل علم کا عمل بھی ہے۔
ا کابرین امت رسول اللہ کی سنت ایک جانور میں گھر والوں کی طرف سے قربانی پرمختلف معقول وجوہات کی بنیاد پر عمل کرتے رہے ہیں۔(۱) ترمذی اور ابن ماجہ کی صحیح حدیث ’’ایک آدمی اپنی اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا کی روشنی میں صحابہ کا یہ موقف اور عمل تھا۔(۲) بخاری میں عبداللہ بن ہشام کے پورے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کا ذکر جبکہ ساتھ میں ان کی والدہ بھی رہتی تھیں’‘ (۳) ابن ماجہ میں حضرت حذیفہ بن اسید غفاری کی روایت ’’کہ میرے گھر والوں نے مجھے غلطی پر مجبور کردیا جبکہ مجھے سنت طریقہ معلوم ہے کہ ایک گھر والے ایک بکر ی یا دو بکریاں ذبح کیا کرتے تھے۔ اب تو ایسا کرنے پر پڑوسی ہمیں بخیل کہنے لگتے ہیں۔ (۴) حضرت علی ؓکے متعلق بھی آیا ہے کہ وہ ایک بکری پورے گھروالوں کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔ (ابن ابی الدنیا)(۵) تحف الاحوذی میں ہے کہ حافظ ابن قیم ’ زاد المعاد ‘ میں کہتے ہیں: “کہ نبی کریمؐ ایک بکری آدمی اور اس کے گھر والوں کی جانب سے کافی مانتے تھے چاہے ان کی تعداد کتنی بھی زیادہ ہو۔
(۶)امام شوکانی ’ السیل الجرار ‘ میں لکھتے ہیں ’’ صحیح یہی ہے کہ ایک بکری پورے گھر والے کی طرف سے کافی ہو گی اگرچہ ان کی تعداد سو کیوں نہ ہو۔ (بحوالہ عون المعبود) (۷) امام نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ عائشہ کی حدیث دلیل ہے کہ آدمی کی قربانی ،اس کی اور اس کے گھروالوں کی جانب سے جائز ہے اور گھروالے اس آدمی کے ساتھ ثواب میں شریک ہوں گے ، یہی موقف ہمارا اور جمہور کا ہے لیکن امام ثوری، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے اسے ناپسند کیا ہے۔ (بحوالہ غنی الالمعی از حافظ شمس الحق عظیم آبادی)(۸) حافظ خطابی نے معالم میں لکھا کہ ایک بکری آدمی اور اس کے گھروالوں کی طرف سے کافی ہے اگر چہ ان کی تعداد بہت ہو۔ ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما ایسا ہی کرتے تھے اور امام مالک ، اوزاعی، شافعی، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ نے اسے جائز کہا(بحوالہ عون المعبود)(۹)ابن حجر نے کہا کہ آدمی کی قربانی اس کی طرف سے اور اس کے گھروالوں کی طرف سے ہو جائے گی جبکہ احناف نے اس کی مخالفت کی ہے اور امام طحاوی نے اس کے مخصوص اور منسوخ ہونے کا دعوی کیا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں (بحوالہ عون المعبود) یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نبی کی متعدد بیویاں تھیں لیکن ان کی الگ قربانی کا ثبوت نہیںملتا، اسی طرح صحابہ کرام کے گھر والوں کے الگ الگ افراد کی طرف سے الگ قربانی کا بھی تذکرہ نہیں ملتا۔
ان حقائق اوراوپر بیان کردہ تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک جانور کی قربانی گھر کے کئی افراد کی طرف سے کی جاسکتی ہیگھر کے ہر فرد کی طرف سے الگ الگ واجب اور ضروری نہیں۔ لیکن اگر گھر کے افراد انفرادی طور پر قربانی کرنا چاہیں تو اسے سرے سے حرام اور ناجائز کہنا بھی مناسب نہیں،ہاں کسی دوسری بڑی ضرورت کے پیش نظر اگر وہ نفلی قربانی کی رقم کسی دوسرے مد میں خرچ کرنے پر آمادہ ہو سکیں تو اس کے جانب توجہ دلائی جا سکتی ہے لیکن قربانی کی سنت کا سرے سے انکار اوراس کی حقیقی شکل اور روح کو نظر انداز کرناکسی طرح مناسب اور درست نہیں قرار دیا جاسکتا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS