کیا ہند و پاک بھی گلے شکوے بھلاکر دوستی کر سکتے ہیں؟

0

عبدالماجد نظامی

چین کی ثالثی میں جب سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کی راہ ہموار ہوئی ہے تب سے دنیا کے میڈیا میں اس غیرمعمولی واقعہ پر کئی پہلوؤں سے ماہرین تبصرے کر رہے ہیں اور اس کے جو دور رس مثبت نتائج سامنے آئیں گے، ان کے بارے میں باتیں کی جا رہی ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس واقعہ میں ہند و پاک کے لیے بھی کئی سبق موجود ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان بھی ایک دوسرے کے اسی طرح روایتی حریف ہیں جس طرح سعودی عرب اور ایران کو سمجھا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے یہ دونوں ممالک پڑوسی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ ہمسائیگی کا حق اس طرح نہیں نبھا پاتے ہیں جس طرح کی توقع دونوں ملکوں کے عوام کو اپنی قیادت سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑی مماثلت یہ بھی ہے کہ سعودی عرب اور ایران ہی کی طرح ان دونوں ملکوں کے لیڈران اس خطہ میں بد امنی اور دہشت گردی کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہتے ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار بھی نہیں کر سکتا کہ دہشت گردی پوری انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آئی ہے اور دنیا کے تقریباً تمام ممالک ہی کم و بیش اس لعنت کی زد میں ہیں۔ لیکن اگر ان ممالک کے درمیان دوستی کا ماحول قائم نہیں ہوپاتا ہے تو اس کے لیے دونوں ممالک کے لیڈران کی تنگ نظری کو بنیادی طور پر ذمہ دار ماناجاناچاہیے۔ کیونکہ عوام کا مسئلہ تو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی زبان، تہذیب و ثقافت، طرز معاش اور پسند و ناپسند بالکل یکساں ہیں۔ بالی ووڈ کی فلمیں اور ان کے گانے پاکستان میں اسی شدت اور شوق کے ساتھ دیکھے اور سنے جاتے ہیں جس شدت کے ساتھ ہندوستان میں ان فلموں کو بنایا اور دکھایا جاتا ہے۔ یہی حال پاکستان میں بننے والے سیریلس کا ہے جن کی ہندوستان میں بے پناہ مقبولیت اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں کے جذبات میں کس قدر یکسانیت پائی جاتی ہے اور جن کرداروں نے پاکستان کے مشاہدین میں جذبات کے سیلاب پیدا کیے تھے جو اشک بن کر آنکھوں سے نکل پڑے ان کرداروں نے ہندوستانی دلوں کو بھی اسی طرح متاثر کیا تھا۔ اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن ’’میری ذات ذرۂ بے نشاں‘‘ اور ’’خدا اور محبت‘‘ جیسے سیریلس کو بطور خاص پیش کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح یش راج بینر کی مشہور اور کامیاب ترین فلم ’’ویر زارا‘‘،جس میں شاہ رخ خان اور پریتی زنٹا نے کلیدی کردار نبھائے تھے، اس فلم کے ذریعہ تو خصوصی طور پر یہ کوشش کی گئی تھی کہ دونوں ملکوں کے عوام اور خواص کو یہ سمجھایا جائے کہ ہمارے درمیان اختلاف، نفرت و عداوت اور آپسی بیزاری کے اسباب بہت کم ہیں بلکہ اس کے برعکس ان عوامل کی کثرت ہے جن کے ذریعہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہوسکتے ہیں اور تقسیم ہند کے ان زخموں کو بھی مندمل کر سکتے ہیں جو اب تک سیاست کے گلیاروں میں تازہ رکھے گئے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان زخموں کو کرید کر ناسور بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اقتدار کی ہوس کو پورا کیا جا سکے۔ ایسی طاقتیں دونوں ہی ملکوں میں موجود ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کو ہر قیمت پر ترجیح دیتی ہیں اور تاریخ کے اس سیاہ ورق کو پلٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں جن پر لگے خون کے دھبوں سے اٹھ رہی ٹیس آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔ حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج بھی مہاتما گاندھی اور سرحدی گاندھی جیسی شخصیات دونوں معاشرے میں پیدا ہوں جو ان حضرات کے فلسفہ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے اپنے سماج کو محبت و رواداری اور بقاء باہم کے ابدی اور موثر اصول سمجھائیں اور ان ملکوں کو ترقی و خیرسگالی کی راہ پر ڈالیں۔ اس سرزمین کی تقسیم کے لیے دونوں ممالک کے عوام کبھی ذمہ دار نہیں تھے بلکہ انہیں تو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ جس ملک میں وہ اب تک زندگی گزارتے رہے ہیں اور جن پڑوسیوں کے ساتھ وہ خوشی و غم کے لمحات گزار کر بڑے ہوئے ہیں، وہ اچانک سے اجنبی ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجائیں گے۔ Indian Summer کی مصنفہ Alex von Tunzelmann نے تقسیم ہند کے بارے میں جہاں تبصرہ کیا ہے، وہاں انہوں نے باضابطہ طور پر اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے کہ پنجاب کے اندر جب گاؤں کا بٹوارہ ہوگیا اور سرحد کی ایک لکیر نے صدیوں کے رشتہ کو ختم کر دیا تو لوگ اس کے لیے تیار نہیں تھے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔ اگر ان کا بس چلتا تو کاغذ کے اس ٹکڑے کو مل کر پھاڑ دیتے جس کی بنیاد پر دلوں کی دنیا اجاڑی جا رہی تھی۔ اس بات کی تائید نواکھالی میں پھیلے فرقہ وارانہ فسادات اور قتل عام کے واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ جب گاندھی جی کو اس حیوانیت کا علم ہوا تو وہ اس سیلاب زدہ علاقہ میں، جہاں سڑکوں کا بھی اتا پتا نہیں تھا، کشتی پر سوار ہوکر اور بانس سے بنے راستہ پر چل کر پہنچے۔ ایک بار تو حادثہ میں ہلاک ہونے کا خطرہ بھی مول لیا لیکن انہوں نے دلوں سے نفرت دور کرنے کا جو بیڑا اپنے سر لیا تھا، اس سے پیچھے نہیں ہٹے۔ مسلم اکثریت والے اس علاقہ میں گاؤں گاؤں جاکر اور ایک مہینہ قیام کرکے اس فتنہ کو بڑی محنت سے ختم کیا۔ وہاں کا فتنہ ختم نہیں ہوا تھا کہ نواکھالی کے ردعمل میں بہار کے اندر مسلمانوں کا قتل ہندوؤں نے شروع کر دیا۔ گاندھی جی وہاں بھی پہنچے اور نفرت کی آگ کو بجھایا۔ پھر دلی گئے اور ماؤنٹ بیٹن اور ہندوستان کے کئی لیڈران کے منع کرنے کے باوجود متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور پوری شدت کے ساتھ نفرت کے اس طوفان کے سامنے اکیلے کھڑے ہوگئے۔ ہندوؤں اور سکھوں سے عہد لیا کہ وہ مسلمانوں کی جان و مال کو نہ صرف نقصان نہیں پہنچائیں گے بلکہ ان کی حفاظت کریں گے۔ وہ پنجاب جانے پر بھی بضد تھے لیکن ان کو یقین دلایا گیا کہ وہاں بھی فتنہ رفع ہوگا تو مان گئے۔ ان کے علاوہ مولانا آزاد، مولانا محمودالحسن اور مولانا حسین احمد مدنی نے دو قومی نظریہ کے خلاف پوری قوت کے ساتھ آواز بلند کی اور مسلمانوں کو تسلی دی اور انہیں اس ملک میں رہنے کی نہ صرف ترغیب دی بلکہ اپنی مشترک وراثت کی حفاظت کی خاطر اس ملک سے ہمیشہ وابستہ رہنے کی اہمیت پر زور دیا۔ مسلمانوں نے اپنے ان مخلص لیڈران کی بات مانی اور اس ملک سے ایک لمحہ کے لیے بھی اپنا رشتہ توڑنا گوارہ نہیں کیا۔ آج ایسے لیڈران کی سب سے زیادہ ضرورت آن پڑی ہے۔ ہند و پاک کے لیڈران کے لیے یہ اچھا موقع ہے کہ وہ تاریخ کے روشن ابواب اور مشترک تہذیبی سرمایوں کا ذکر کرکے دونوں ملکوں کو جوڑیں اور مصالحت کی راہ میں آگے قدم بڑھائیں۔ خواہ مسئلۂ کشمیر ہو یا سرحد پار دہشت گردی، ہر مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کریں۔ ہمیں تو کسی چین یا امریکہ کی ثالثی کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہماری اپنی تاریخ میں ایسے معتبر قائدین اور دانشوران گزرے ہیں جنہوں نے ہمیں بقاء باہم کے اصول کو برتنے کی ہمیشہ ترغیب دی ہے۔ اگر ہم ان رہنماؤں کے نقش قدم پر گامزن ہوجائیں اور اپنے مسائل حل کرلیں تو دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہوگا جہاں انتشار اور بد امنی کے خاتمہ کے لیے ہمارا تعاون طلب نہیں کیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے قائدین ایسے پرامن مستقبل کے لیے سنجیدہ ہیں؟ اگر ہاں تو پھر ہم اوج کمال تک پہنچنے کی ساری صلاحیتیں اپنے جلو میں رکھتے ہیں۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS