بے روزگاری کی سیل بلا

0

ہندوستان کے عام آدمیوں کیلئے ’امرت کال ‘بھی بے فیض ثابت ہورہاہے ۔ ملک کا عام آدمی‘ محنت کش اور مزدور طبقہ مختلف طرح کے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے اور اس کی مشکلات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ ایک طرف مہنگائی کا طوفان حملہ آور ہے تو دوسری جانب بے روزگاری کا سیلاب نوجوانوں کی آرزوئوں، امیدوں اور امنگوں کو بہائے لئے چلاجارہاہے ۔ معاشی بحران سے نپٹنے کے نام پر نجکاری کے پرچم تلے ریاستی اداروں کی لوٹ مار برسرکار مزدوروں پر بھی بے روزگاری کاعذاب مسلط کررکھا ہے ۔ نجی اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں اور ہنر مند کارکن بھی مہینوں مہینوں تک بغیر اجرت کے کام کرنے پرمجبور ہیں ۔تازہ خبر ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح دسمبر2022 میں 8.30 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو گزشتہ 16 مہینوں میں سب سے زیادہ ہے۔ شہری علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد سے تجاوز کر گئی۔جب کہ دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 7.5 فیصد رہی ۔
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ ملازمتوں کی تلاش میں لوگوں کی تعداد بڑھ کر 40.48 فیصد ہو گئی جو 2022 میں سب سے زیادہ ہے۔ ملازمتوں کی طلب اس کی رسد سے کہیں زیادہ ہے۔ سی ایم آئی ای ہر ماہ 15 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کا گھر گھر جا کر سروے کرتا ہے اور ان کی ملازمت کی حیثیت کے بارے میں اطلاعات اکٹھی کرتا ہے۔ اس کے بعد حاصل شدہ نتائج سے ایک رپورٹ تیار کی جاتی ہے۔سی ایم آئی ای کے مطابق بے روزگاری کی شرح درست طریقے سے ہندوستانی معیشت کی صحت کی عکاسی کرتی ہے کیونکہ یہ ملک کی کل آبادی میں بے روزگاروں کی تعداد بتاتی ہے۔سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار کے مطابق نومبر میں بے روزگاری کی شرح 8فیصد تھی جبکہ ستمبر میں یہ سب سے کم 6.43 فیصد اور اگست میں یہ شرح 8.28 فیصد تھی جو گزرنے والے سال کی دوسری بلند ترین سطح ہے۔ریاستوں کے معاملات میں صورتحال انتہائی حد تک سنگین نظرآرہی ہے ۔ڈیٹا کے مطابق ہریانہ میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ 37.4 فیصد تھی۔ اس کے بعد راجستھان 28.5 فیصد، دہلی 20.8 فیصد، بہار19.1 فیصد، جھارکھنڈ 18 فیصد اور جموںوکشمیرمیںبے روزگاری14.8فی صد ہے ۔
ہندوستانی معیشت میں تیزی کے دعوے کے درمیان بے روزگاری کی صورتحال خاص طور پر تشویشناک ہے۔دوسری طرف عالمی بینک نے بھی معیشت میں تیزی کے دعوے کی ہوا نکالتے ہوئے آج پیش قیاسی کی ہے کہ ہندوستان میں مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کی نمو مالی سال2023-24میں 6.6 فیصد رہ جائے گی جو کہ جاری مالی سال میں 6.9 فیصدمتوقع تھی۔ اپنی تازہ ترین گلوبل اکنامک پراسپیکٹس رپورٹ میںعالمی بینک نے یہ پیش گوئی ایک ایسے وقت میں کی ہے جب ہندوستان کا صارف قیمت اشاریہ (کنزیومرپرائس انڈیکس-سی پی آئی)افراط زر گزشتہ سال کے بیشتر حصے میں بڑھتارہاہے۔
سی ایم آئی ای اور عالمی بینک کے یہ اعدادوشمار بتارہے ہیں کہ امرت کال کا دعویٰ بے بنیاد ہے اور لوگوں کی پریشانیوں و مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال ناقص معاشی پالیسی کا نتیجہ ہے ۔خاص کر ہندوستان نے درآمدات کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی ہے اس کے نتیجہ میں بے روزگاری کا طوفان امڈ پڑا ہے ۔دنیا کے تقریباً ہر ملک نے اپنی برآمدات میں اضافہ کیا ہے اوراس کی وجہ سے ان ممالک میںپیدوار کیلئے کارکنوں اور مزدوروں کو مسلسل روزگار مل رہاہے لیکن درآمدات میں اضافہ کی پالیسی نے ہندوستان کو جہاں دوسرے ملکوں کا بازار بنادیا ہے وہیں ملک کے اندربھاری بے روزگاری کا سبب بھی بن رہی ہے۔ سال 2022میں ہندوستان نے درآمدات میں اتنا اضافہ کرلیا جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ہندوستان کی بھاری درآمدات کی وجہ سے برآمد کرنے والے ممالک میں روزگار بڑھا ہے تو ہندوستان میں روزگار کے مواقع نایاب ہوگئے ہیں ۔ افسوس ناک مقام یہ بھی ہے کہ ان کھلے حقائق کو تسلیم کرنے کی بجائے حکومت اسے حزب اختلاف کی سازش قرار دے رہی ہے ۔ ہریانہ جہاں بے روزگاری کی شرح ملک میں سب سے زیادہ 37.4 فیصد ہے، کے وزیراعلیٰ اوربھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر منوہر لال کھٹر نے سی ایم آئی ای کے سروے اور ڈیٹا کو بے بنیاد اور حقائق سے پرے بتاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے ان کی ریاست میں صورتحال اتنی بھیانک نہیں ہے جو سی ایم آئی ای بتارہی ہے۔مرکزی حکومت اوراس کے وزرا تو کھٹر سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل کر دعویٰ کررہے ہیں کہ ہندوستان میں اب مسلسل امرت کی ورشا ہورہی ہے۔ اب یہ تو حکومت ہی بتاسکتی ہے کہ کیسی بارش ہے اور کہاں ہورہی ہے کہ جس کی ایک بوند بھی عام لوگوں، مزدوروں اور محنت کشوں تک نہیں پہنچ پارہی ہے اور بے روزگاری کاسیل بلا انہیں بہائے لئے جا رہا ہے ؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS