سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
مرکزی سرکار نے اپنی نوعیت کے ایک اہم اقدام کے تحت مسلم اکثریت والی یونین ٹریٹری جموں کشمیر کیلئے اُردو کے ساتھ ساتھ کشمیری،ڈوگری،انگریزی اور ہندی کو بھی سرکاری زباں مقرر کردیا ہے۔مرکز کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام ’’عوامی مطالبے‘‘ پر کیا گیا ہے تاہم وادیٔ کشمیر میں لوگ مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام کو گذشتہ سال 5 اگست کی مرکزی سرکار کی مہم جوئی سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔
مرکزی وزیرِ اطلاعات پرکاش جاوڈیکر نے آج نئی دلی میں ایک پریس بریفنگ کے دوران آنے والے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں ’’جموں کشمیر سرکاری زبانیں بِل 2020‘‘ پیش کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ایوان میں اس بِل کو پیش کرنے کیلئے منظور کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بِل کو وزیرِ اعظم نریندرا مودی کی قیادت میں منعقدہ کابینہ میٹنگ میں منظور کردیا گیا ہے اور اب اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا ہے۔
مرکزی وزیر نے یہ تو کہا کہ اس بِل کے ذریعہ جموں کشمیر کیلئے اُردو کے ساتھ ساتھ ڈوگری،کشمیری،انگریزی اور ہندی کو بھی سرکاری زباں بنائے جانے کی سفارش کی گئی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انکا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام ’’عوامی مطالبے کے تحت‘‘ کیا جاچکا ہے تاہم وادیٔ کشمیر میں لوگ مایوس ہیں اور اسے کشمیر کی شناخت پر ایک اور حملہ قرار دے رہے ہیں۔
سرینگر میں کئی لوگوں نے اپنے ردِعمل میں مرکزی سرکار کے تازہ اقدام کو ’’اُردو کے وجود پر ایک اور حملہ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ جو لوگ اُردو کو مسلمانوں کی زباں سمجھتے ہوئے مسلمانوں کی ہی طرح اس سے بھی خار کھاتے رہے ہیں اُنکی دیرینہ کوششیں رنگ لاچکی ہیں۔جموں کشمیر سرکار کے محکمہ مال سے سال بھر قبل سبکدوش ہوچکے ایک سابق پٹواری بشیر احمد نے کہا ’’میرے خیال میں یہ اُردو کو ختم کرنے کیلئے کیا گیا ایک بڑا حملہ ہے،سرکار کچھ بھی کہے لیکن یہ محض بد نیتی پر مبنی ایک فیصلہ ہے جسکا ہم چاہتے ہوئے بھی کوئی مثبت پہلو نہیں دیکھ سکتے ہیں‘‘۔ غلام قادر نامی ایک سابق سرکاری استاد نے کہا کہ یہ سب در اصل ہندی کے فروغ اور پورے ہندوستان کی ’’ہندوائزیشن‘‘ کے منصوبے کی توسیع ہے۔انہوں نے کہا ’’اصولی طور ہم ،ہم ہی کیا بلکہ کوئی بھی دماغ رکھنے والا انسان،کسی بھی زبان کے سیکھنے سکھانے کے خلاف نہیں ہوسکتا ہے لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اربابِ اقتدار میں کئی لوگ اُردو سے ہمیشہ ہی چِڑھتے آئے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر میں اگرچہ اُردو کو سرکاری زباں کا درجہ حاصل تھا تاہم ایک مدت سے اُردو کا یہ درجہ اب کاغذوں تک محدود کرکے رکھا گیا تھا لیکن تسلی تو تھی کہ اُردو ہماری سرکاری زباں ہے‘‘۔
مسلم اکثریت والی سابق ریاست جموں کشمیر کیلئے ڈوگرہ حکمرانوں نے اُردو کو 1889 میں سرکاری زباں کا درجہ دیا تھا۔حالانکہ کئی سال سے جموں کشمیر میں اُردو کا استعمال پولس کے روزنامچوں اور محکمہ مال کے ریکارڈ کے اندراج تک محدود ہوکے رہ گیا تھا لیکن یہ بہر حال بلا شرکتِ غیر یہاں کی واحد سرکاری زباں تھی۔پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے بعد اُردو کا یہ درجہ باقی نہیں رہ پائے گا۔
کشمیر یونیورسٹی کے ایک اسکالر نے اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتایا ’’حالانکہ کہنے کو تو اُردو کو بھی کئی سرکاری زبانوں میں سے ایک کے طور باقی رکھا گیا ہے لیکن آپ اسے یوں سمجھ لیجئے کہ اسکی سوتنیں میدان میں لائی جاچکی ہیں‘‘۔ انکا کہنا ہے کہ اُردو کے ساتھ تب بھی نا انصافی ہورہی تھی کہ جب یہ کہنے کو جموں کشمیر کی سرکاری زباں تھی اور اب جبکہ اسکی حیثیت بانٹ دی جاچکی ہے،اسکے مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔کشمیر یونیورسٹی کے ایک استاد نے بھی انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتایا ’’آپ اس اقدام کو گذشتہ سال 5 اگست کے مرکزی سرکار کے فیصلے سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔یہ فیصلہ در اصل اُسی اقدام کا ایکسٹنشن ہے،اس پر فقط افسوس کا ہی اظہار کیا جاسکتا ہے اور بس‘‘۔
قابلِ ذخر ہے کہ گذشتہ سال 5 اگست کو مرکزی سرکار نے نہ صرف جموں کشمیر کی ’’خصوصی حیثیت‘‘ ختم کرنے کیلئے آئینِ ہند کی دفعہ 370 کو ختم کردیا تھا بلکہ سابق ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں بھی بانٹ دیا تھا۔ اس اقدام کے بعد سے مرکز نے کئی ’’متنازعہ‘‘ اور کشمیریوں کو ناراض و مایوس کردینے والے فیصلے کر کے ، بقولِ کئی کشمیریوں کے، گویا کشمیر کی شناخت ختم کردی ہے۔
نامور کشمیری صحافی یوسف جمیل،جو انگریزی کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی کئی بین الاقوامی خبر رساں اداروں کیلئے خبریں اور تجزئے لکھتے ہیں،نے اپنے فیس بُک پر اُردو کو جموں کشمیر کی سرکاری زباں بنائے جانے کی مختصر تاریخ اور مرکزی سرکار کے آض کے فیصلے کا مختصر تذکرہ کرنے کے بعد ’’ناٹ سرپرائزڈ‘‘،یعنی وہ حیران نہیں ہیں،لکھا۔ایسا کہکر یوسف جمیل نے یہ کہنا چاہا ہے کہ گذشتہ سال 5 اگست کے بعد سے اس طرح یا اس جیسے دیگر فیصؒے غیر متوقع نہیں ہیں۔