ضمنی انتخابات کے نتائج

0

ملک کی4ریاستوں میں ایک لوک سبھا اور4اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج آئے۔ نتائج اس لحاظ سے کافی چونکادینے والے رہے کہ بی جے پی اوراس کی حلیف پارٹیوں کو ان میں سے ایک بھی سیٹ پر کامیابی نہیں ملی، مغربی بنگال میں جہاں ترنمول کانگریس کو لوک سبھا اور اسمبلی کی ایک ایک سیٹ پر کامیابی ملی توبہارمیں اپوزیشن راشٹریہ جنتادل نے بازی ماری اور مہاراشٹر اورچھتیس گڑھ میں جیت سے کانگریس کا حوصلہ بڑھے گا۔ ضمنی انتخابات کو عام طور پر اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ہے جتنی پارلیمانی اوراسمبلی انتخابات کو دی جاتی ہے کیونکہ ایک تو وہ چند سیٹوں کے لیے ہوتے ہیں، دوسرے نتائج کا اثرعموماً حکومت پر نہیں پڑتا۔لیکن سیاسی پارٹیوں اورحکومت کی مقبولیت کا پتہ بہرحال ان کے نتائج سے چلتا ہے۔ مغربی بنگال میں جیت جہاں یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہاں کی سیاست پر وزیراعلیٰ ممتابنرجی کا دبدبہ اورعوام میں مقبولیت برقرار ہے۔ وہیں بہار میں راشٹریہ جنتادل کی جیت سے جہاں اپوزیشن کا حوصلہ بڑھے گا، وہیں وزیراعلیٰ نتیش کمار اوربی جے پی کو کافی مایوسی ہوئی ہوگی۔ جبکہ چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر میں جیت سے کانگریس کو نئی توانائی ملے گی جسے حالیہ 5ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں شکست فاش ہوئی تھی۔ بی جے پی کو ایک بھی سیٹ نہ ملنا یقینا دوسروں کے لیے باعث حیرت اور پارٹی کے لیے جھٹکا ہے۔ مذکورہ چاروں ریاستیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی اقتدارکے حصول کے لیے کوشاں ہے اورحالت یہ ہے کہ پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی نظرآ رہی ہے۔
مذکورہ ضمنی انتخابات 5ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے بعد ہوئے تھے جن میں سے 4میں بی جے پی کی حکومتیں بنیں اورایک پنجاب میں عام آدمی پارٹی اقتدار میں آئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان ریاستوں کے نتائج کا کچھ بھی اثر مذکورہ 5سیٹوں کے رائے دہندگان پر نہیں پڑا۔ بلکہ وہاں کے لوگوں نے اپنے یہاں کے حالات کو دیکھا اور اپنی پسند کی پارٹی اور امیدوار کو منتخب کیا۔ ورنہ ایک سیٹ تو بی جے پی کے کھاتے میں ضرور جاتی۔ایسابھی نہیں ہے کہ معمولی فرق سے ہارجیت ہوئی ہو، ہر سیٹ پر بھاری فرق سے ہارجیت ہوئی ہے جس میں تاویل کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔اس سے ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملکی سطح پر کسی بھی پارٹی کی لہر نہیں چل رہی ہے بلکہ عوام کی پسند وناپسند کا دخل ہے۔لیکن ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی گرفت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ اسمبلی انتخابات میں جہاں پارٹی کو بھاری اکثریت سے جیت ملی تھی، وہیں اس کے بعد اب تک جتنی سیٹوں کے ضمنی انتخابات ہوئے، پارٹی جیتتی جارہی ہے، خودوزیراعلیٰ ممتابنرجی ضمنی انتخابات میں جیتی ہیں۔ریاست میں بی جے پی کے لیے امیدافزاکوئی بھی بات نہیں ہے۔چھتیس گڑھ میں جیت سے بھوپیش بگھیل کو یقینا راحت ملی ہوگی لیکن یہ پارٹی میں ان کے حریفوں کے ساتھ بی جے پی کے لیے فکرمندی کی بات ہوگی۔ ویسے کانگریس کو اس جیت کی بہت ضرورت تھی۔ ایک تو لوگوں میں غلط پیغام جارہا تھا، دوسرے مسلسل ہار کی وجہ سے قیادت کو پارٹی کے اندر سے ہی تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔حالانکہ 2ریاستوں میں ایک ایک اسمبلی سیٹ میں جیت کی اتنی اہمیت نہیں ہے لیکن جہاں پارٹی کے لیے وجود کاسوال سامنے آگیا ہو، وہاں چھوٹی جیت بھی کافی معنی رکھتی ہے ۔
جہاں ضمنی انتخابات ہوئے ہیں، وہاں یا کسی اورریاست میں مستقبل قریب میں اسمبلی انتخابات نہیں ہونے والے ہیں۔اس لیے ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں اورہوا کا رخ کدھر ہے؟ البتہ وقتاً فوقتاً کسی بھی الیکشن میں ہارجیت سے پارٹی کارکنان کاحوصلہ بڑھتا ہے اورانہیں نئی توانائی حاصل ہوتی ہے پھر وہ آگے اورزیادہ جوش خروش سے کام کرتے ہیں۔ بہرحال ضمنی انتخابات کے نتائج سے پتہ چلتاہے کہ وہ دوسری ریاستوں کے حالات سے متاثر نہیں ہیںاورجولوگ سوچ رہے تھے کہ اترپردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، منی پور اور گوا اسمبلی انتخابات میں جیسے نتائج رہے، دیگر ریاستوں میں آئندہ کچھ عرصے تک برقرار رہیں گے، لیکن وہ غلط ثابت ہوئے۔ضمنی انتخابات کے نتائج اس کے بالکل برعکس آئے۔مذکورہ نتائج الگ ہی صورت حال اورلوگوں کی سوچ کے اشارے کررہے ہیں ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS