بحری راستوں پر قبضے کا مطلب

0

اسمٰعیل ظفرخان
گروپ ایڈیٹر،روزنامہ راشٹریہ سہارا اور عالمی سہارااردوچینل
یونانی جنرل تھے مس طا کلس (Themistocles)(527سے 459ق م) نے ایک بار کہا تھا کہ ’جو سمندر پرکنٹرول کرے گا وہی دنیا کو اپنے قبضے میں رکھے گا۔‘ آج 2500 سال بعد بھی یونانی جنرل کا قول بالکل سچ معلوم ہوتا ہے۔ آج اگر امریکہ دنیا کا واحد سپرپاور ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ اس کی ایک بے حد مستحکم بحریہ ہے۔ عالمی سمندر میں اپنی موجودگی کو قائم رکھنے اور اس پر قبضہ جمائے رکھنے کے لیے اس نے دنیا بھر میں فوجی اڈے قائم کیے ہوئے ہیں۔ عالمی آبی راستوں پر کنٹرول قائم رکھنے کے لیے امریکہ نے بری اور فضائی افواج سے زیادہ بحریہ پرخرچ کیا ہے۔ 2020 میں امریکہ کی بحریہ کا بجٹ 205.6 ارب امریکی ڈالر تھا جبکہ اس کے بری افواج کا بجٹ 191 ارب امریکی ڈالر تھا۔
بری اور فضائی راستوں کو ڈیولپ کرنے کے باوجود دنیا کی 85 فیصد تجارت بحری راستوں سے ہی ہوتی ہے۔ سمندر کے سفر کی تاریخ 5 ہزار سال پرانی ہے۔ کس تہذیب میں سمندری سفر کی شروعات ہوئی، اس پر مختلف تاریخ نویسوں کی مختلف آرا ہیں لیکن تمام تاریخ نویسوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پچھلے 1500 سال میں زیادہ تر تہذیبوں اور قوموں نے دولت اور دفاعی استحکام سمندری راستوں کی تجارت سے ہی حاصل کیا ہے، سمندری راستوں سے ہونے والی تجارتوں سے ہی قوموں نے اپنے مذاہب کے ماننے والوں کا دائرہ بڑھایااور اپنی ثقافت کو وسعت دی۔ زبان، نالج اور ٹیکنالوجی کو دنیا بھر میں پھیلانے میں بھی سمندری تجارتی راستوں نے اہم رول ادا کیا۔ سمندری سفر کرنے والوں نے اپنا دائرہ اثر بھی بڑھایا ہے۔ اس کی ایک بہترین مثال بحرہند کے راستے ہونے والی تجارت ہے، یہ بحری راستہ 7 ویں سے 15 ویں صدی تک دنیا کا سب سے بڑا بحری راستہ تھا۔ بحرہند کے تجارتی راستے سے افریقہ کے سواحلی ساحل، جزیرہ نما عرب اور ہند برصغیر، سری لنکا، انڈونیشیا، ملیشیا اور چین جڑے ہوئے تھے۔ اس راستے سے ہونے والی تجارت ان معنوں میں شاہراہ ریشم سے ہونے والی تجارت سے کہیں زیادہ اہم سمجھی جاتی تھی کہ اس کا حجم کافی بڑا تھا۔ اس روٹ سے زیادہ ترلکڑی، ریشم، روئی، چاول، کافی، چینی مٹی کے برتن کی تجارت ہوتی تھی۔ اسی تجارتی راستے سے ہی بحرہند کے اطراف میں بسے کئی ممالک میں اسلام کی روشنی پھیلی۔ ان ممالک میں تنزانیہ، کینیا، موزمبیق، صومالیہ، ہندوستان، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، ملیشیا اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ 15 ویں اور 16 ویں صدی میں سمندری راستوں کی تلاش کرنے والے اسپین اورپرتگال کے لوگ نئے تجارتی بحری راستوں کی تلاش میں نکلے تھے۔ کرسٹوفر کولمبس نے بحراوقیاس کو پار کیا اور امریکہ کی کھوج کی۔ اس کھوج کی وجہ سے اسپین اور پرتگال نے شمالی اور جنوبی امریکہ کو اپنی کالونی بنا لیا۔ یوروپی اپنے ساتھ متعدی بیماریاں جیسے اسمال پاکس، منزلس، کولرالائے تھے۔ یہ بیماریاں شمالی اور جنوبی امریکہ کے اصل باشندوں کے لیے نئی تھیں۔ ان کے جسم میں ان بیماریوں سے لڑنے کی قوت نہیں تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ایک بڑی تعداد بیماریوں کی وجہ سے مرنے لگی ۔جواصل باشندے بچ گئے، یورپیوں نے ان کا قتل عام کیا۔ امریکہ کے اصل باشندوں کو قتل کرنے کے بعد یوروپیوں نے اپنے لوگوں کو وہاں بسانا شروع کیا۔ آج شمالی اور جنوبی امریکہ میں اصل امریکی باشندوں کی تعداد صرف 7 فیصد ہے۔ ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد اسپین اور پرتگال نے شمالی اور جنوبی امریکہ کے قدرتی وسائل کا بھرپور استعمال کیا۔ یہاں سے دولت حاصل کرنے کی وجہ سے دونوں ممالک دنیا کی بڑی طاقتیں بن کر ابھرے۔ پرتگالی واسکو ڈی گاما نے یوروپ سے ہندوستان کے پہلے بحری راستے کی دریافت کی۔ یہ راستہ افریقہ کے ساحل سے ہوتے ہوئے گزرتا تھا۔ یہ نیا تجارتی راستہ پرتگال کے لیے افریقہ اور ہندوستان سے تجارت کے لیے اہم تھا۔ ہندوستان کے مسالے اور افریقہ کے سونے کی تجارت کی وجہ سے پرتگال دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن گیا۔ پرتگال نے بحرہند کے تجارتی راستے پر قبضہ کر لیا۔

Clipping of Published Article in DASTAVEZ

پرتگال اور اسپین کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے دیگر یوروپی طاقتوں میں دنیا بھر کے ملکوں کو اپنی کالونی بنانے کی ہوڑ سی مچ گئی۔ ان نوآبادیاتی طاقتوں میں برطانیہ، اٹلی، ہولینڈ، بلجیم، فرانس اور جرمنی شامل تھے۔ 16 ویں سے 20 ویں صدی تک ان ملکوں نے امریکہ سے افریقہ اور ایشیا کے بیشتر حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ ایشیا میں ان کے قبضے میں ہندوستان، چین شامل تھے۔ برٹش ایسٹ انڈیاکمپنی اسی راستے سے تجارت کے لیے ہندوستان آئی تھی جس کی دریافت پرتگالیوں نے کی تھی۔ ایسٹ انڈیاکمپنی نے ہندوستان میں وسیع مواقع دیکھے تو پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ ہندوستان اور دیگر کالونیوں کے وسائل کا استعمال اور ان ملکوں سے تجارت کرتے ہوئے برطانیہ نے بہت زیادہ دولت جمع کی، دفاعی طور پر مستحکم سے مستحکم تر بنا اور پھر وہ دنیا کا سپرپاور بن گیا۔
دنیا پر برطانوی حکومت کا دوراقتدار 18 ویں سے 20 ویں صدی تک رہا۔ 18 ویں صدی کے آخر تک دنیا بھر کے ممالک بحری راستوں سے جڑ چکے تھے۔ اب یوروپی نوآبادیاتی طاقتوں نے آسان اور چھوٹے بحری راستوں کی تلاش شروع کی۔ اسی سلسلے کی اہم کوششوں کا نتیجہ تھاسوئز کینال ۔ 1854 میں فرانسیسی انجینئر نے مصر میں ایک کینال یعنی نہر کی کھدائی شروع کی۔ 193 کلومیٹر طویل کینال کے بنانے کا مقصد بحیرئہ روم سے بحیرئہ احمر کو جوڑنا تھا تاکہ نیا بحری راستہ بنایاجاسکے۔ اس نہر کے بن جانے سے ایشیا اور یوروپ کا تجارتی راستہ مختصرہوگیا۔
ہندوستان سے لندن جانے کے لیے افریقہ کے ساحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ یہ سفر 20 ہزار کلومیٹر لمبا تھا۔ اس میں 30 دن لگتے تھے مگر سوئز کینال کے بن جانے سے راستہ تقریباً 7000 کلومیٹر چھوٹا ہو گیا اور اب سفر میں وقت 10 دن سے بھی کم لگتا ہے۔ توانائی کی جو بچت ہوتی ہے وہ الگ۔ آج سوئز کینال بہت مصروف راستہ ہے۔ دنیا کی 8 فیصد تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے۔ مصر ادھر سے گزرنے کے لیے جہازوں سے بڑی موٹی رقم وصول کرتا ہے۔ مصر کو سالانہ 5.5 ارب ڈالر کا زرمبادلہ سوئز کینال سے آتا ہے۔ سوئز کینال کے 1869 میں بن جانے کے بعد سمندری راستوں سے ایک اور بڑا کام 1914 میں ہوا جب نہر پناما بنایا گیا۔ یہ کینال بحر الکاہل کو بحر اوقیانوس سے جوڑنے کے لیے بنایا گیا۔ جہازوں کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے مشرقی ساحل سے مغربی ساحل تک آنے کے لیے طویل سفر کرنا پڑتا تھا مگر پناما کینال کے بن جانے سے راستے کی طوالت 15,000 کلومیٹر کم ہو گئی۔ سفر میں 20 دن سے کم وقت لگنے لگا۔ توانائی کی جو بچت ہونے لگی، وہ ایک الگ فائدے کی بات ہے۔ آج پناما کینال کا روٹ بحری راستوں میں ایک مصروف روٹ مانا جاتا ہے۔ اس راستے سے دنیا کی 5 فیصد تجارت ہوتی ہے۔ وسطی امریکہ کا ملک پناما اس کینال سے 1.7 ارب امریکی ڈالر زر مبادلہ سالانہ کماتا ہے۔ ان باتوں کے مدنظر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ عالمی تجارت میں بحری راستوں کی کیا اہمیت ہے۔ ان راستوں کے بارے میں جان لینے کے بعد پر تھے مس طا کلس (Themistocles) کے قول کی اہمیت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS