حکومت کی جانبداری اور میڈیا ٹرائل دونوں ہی خطرناک

0

عبیداللّٰہ ناصر

گزشتہ دنوں مرکزی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے نام نہاد مسلم تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن کیا اور مختلف ریاستوں میں اس تنظیم سے وابستہ ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا۔ابتدائی طور سے ان سب پر دفعہ151-108کے تحت مقدمہ در ج کیا گیا ہے۔یہ تو پکا ہے کہ ان لوگوں کو کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ کسی بھی مدت تک ضمانت نہیں مل سکے گی اور کوئی تعجب نہیں ہوگا اگر ان سب پر بعد میں یا دوران تفتیش یواے پی اے جیسی خطرناک دفعات لگا کر ضمانت کے امکانات کو اور محدود کردیا جائے۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا ٹینی نے کہا بھی ہے کہ پی ایف آئی کی خفیہ سرگرمیوں کے سلسلہ میں پختہ ثبوت ملنے کے بعد یہ چھاپے مارے گئے ہیں اور جیسے جیسے مزید معلومات ملتی جائیں گی آگے کی کارروائی ہوتی رہے گی۔جن ریاستوں میں چھاپے مارے گئے ہیں، ان میں اترپردیش کے علاوہ دہلی، مدھیہ پردیش، کرناٹک، آسام، مہاراشٹر اور گجرات شامل ہیں۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان سبھی ریاستوں میں بی جے پی کی حکو مت ہے۔دھیان رہے کہ دہلی میں بھلے ہی کسی دوسری پارٹی کی حکومت ہے لیکن وہاں کی امن عامہ اور پولیس مرکزی وزارت داخلہ کے تحت ہی ہے۔
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی تشکیل تقریباً15سال پہلے ہوئی تھی، یہ جنوبی ہند کی چند مسلم تنظیموں کو ملا کر بنائی گئی تھی۔ فرنٹ کے ذمہ داروں کا دعویٰ ہے کہ ملک کی23ریاستوں میں وہ سرگرم ہے لیکن جنوب کی تین ریاستوں کیرالہ، کرناٹک اور تمل ناڈو میں اس کا خاص اثر ہے۔ جہاں تک میری ناقص یادداشت ہے، کیرالہ کے ایک گستاخ رسولؐ عیسائی ٹیچر کا ہاتھ قلم کرنے کے علاوہ اب تک اس کی جانب سے کسی پرتشدد کارروائی کی کوئی رپورٹ نہیں ہے، الزامات تو بہت سے لگتے رہے ہیں۔لیکن یہ ضرور ہے کہ فرنٹ کڑک ضرور ہے اور اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں تو اینٹ سے ہی دینے پر یقین رکھتا ہے۔اس کی طلبا کی شاخ کیمپس فرنٹ آف انڈیا بھی بی جے پی کی طلبا شاخ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کی طرح جنوبی ہند کے تعلیمی اداروں میں سرگرم ہے۔گزشتہ دنوں کرناٹک میں حجاب کو لے کر جو تنازع کھڑا ہوا تھا، اس کے پس پشت ان ہی دونوں طلبا تنظیموں کی آپسی رسہ کشی کار فرما بتائی جاتی ہے۔
کریک ڈاؤن کے بعد مرکزی حکومت نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس کی پانچ ذیلی تنظیموں کو پانچ سال کے لیے ممنوع قرار دے دیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ فرنٹ کا پہلے سے ہی ممنوعہ اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا(سیمی)کے علاوہ جماعت المجاہدین بنگلہ دیش اور آئی ایس آئی ایس جیسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق ہے اور وہ ظاہری اور خفیہ طور سے تشدد اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔لیکن ایسے کسی خاص واقعہ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، نہ ہی کوئی حوالہ دیا گیا کہ فرنٹ اور اس کے کارکن ان واقعات میں ملوث پائے گئے۔ الزام تو یہ تک لگایا گیا ہے کہ فرنٹ2047تک ہندوستان کو اسلامی ملک بنانے اور یہاں شریعت قانون نافذ کرنے کی سازش کررہا ہے۔ کوئی بھی ذی فہم شخص اس مضحکہ خیز الزام پر یا تو ہنسے گا یا پھر سر پکڑکر بیٹھ جائے گا کہ140کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں جہاں مسلمان صرف 25 کروڑ ہوں، وہ اس ملک کو اسلامی ملک بنانے کی سوچ بھی سکتے ہیں لیکن حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے سماج کا ایک بڑا طبقہ اس احمقانہ الزام کو بھی سچ مان رہا ہے۔
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی کئی ذیلی تنظیمیں بھی ہیں اور وہ آر ایس ایس کی طرح ہی خود کو ایک سماجی اور تہذیبی تنظیم کہتا ہے اور اسی کی طرز پر اپنی ذیلی تنظیموں کے ذریعہ کئی فلاحی اور تعلیمی کام بھی کرتا ہے جس سے اس کا حلقۂ اثر بڑھا ہے۔ دوسرے دنیا میں ہر جگہ ہر طرح کی اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پایا جانا ایک فطری عمل ہے۔ مہذب سماج میں ان کے احساسات کو سمجھتے ہوئے حکومتیں اور افراد اقلیتوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے نہ صرف قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ اپنے طرز عمل سے بھی ان میں احساس وابستگی اور باہمی اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی آزادی کے بعد سے لے کر 2014 تک یہ عمل جاری رہا یہاں تک کہ بی جے پی کی ہی اٹل بہاری واجپئی کی سرکار نے بھی اس عمل کو کم وبیش جاری رکھا لیکن2014کے بعد مسلمانوں کے خلاف ایک منظم مہم چلانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور ہر وہ قدم اٹھایا گیا جس سے مسلمانوں میں بیگانگی اور یہ احساس پیدا ہو کہ وہ یہاں اس ملک میں کسی کے رحم و کرم پر ہیں، اپنے حق اور اختیار کے طور پر نہیں۔ان کاموں اور کارروائیوں کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب کچھ سامنے اور تازہ تازہ ہے، یہی وجہ ہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے خلاف اس کارروائی کو مسلمان ہی نہیں غیر مسلموں کا بھی ایک بڑا طبقہ مودی حکومت کی ایک سیاسی چال سمجھتا ہے جس کا مقصد گجرات، کرناٹک، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان وغیرہ ریاستوں کی اسمبلی الیکشن سے لے کر2024 میں ہونے والے عام انتخابات تک پولرائزیشن کی آنچ کو گرم رکھنا ہے تاکہ بیروزگاری، گرانی، سرکاری املاک کی کوڑیوں کے بھاؤ فروخت، چین کے بڑھتے قدم، معاشی تباہی، سماجی بکھراؤ جیسے مسائل پر عوام سوچ ہی نہ سکیں۔سیاسی مبصرین اور سینئرو ممتاز صحافی حضرات اسے راہل گاندھی کی بہت ہی کامیاب ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کی کامیابی اور ان کی بڑھتی مقبولیت کی کاٹ بھی بتا رہے ہیں۔وجہ کچھ بھی ہو، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مودی حکومت کی یہ ایک طرفہ اور جانب دارانہ کارروائی ہے کیونکہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں خاص کر بجرنگ دل، ہندو یووا واہنی، شری رام سینا اور بھی نہ جانے کتنی ایسی ہی تنظیمیں اور ان میں شامل شدت پسند عناصر کسی نہ کسی بہانے کہیں نہ کہیں روز ہی مسلمانوں کو تشد د کا نشانہ بناتے ہیں اور الٹے پولیس انہی کو مورد الزام قرار دے کر ہاتھ پیر توڑ کے جیلوں میں ٹھونس دیتی ہے ا ور وہ مہینوں بلکہ سالوں جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔گزشتہ آٹھ برسوں میں یہ سب کچھ اتنی بار ہوچکا ہے کہ اب یہ سب معمولات زندگی کا حصہ لگنے لگا ہے اور کوئی بھی ظلم، کوئی بھی تشد اور کوئی بھی نا انصافی خلاف توقع نہیں لگتی۔ جن الزامات کے تحت فرنٹ کو ممنوع قرار دیا گیا، اسے کہیں زیادہ سنگین الزامات اور پختہ ثبوت آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے خلاف ہیں، ابھی آر ایس ایس کے ہی ایک سابق پرچارک یشونت شندے نے باقاعدہ عدالت میں حلف نامہ داخل کر کے بتایا کہ آر ایس ایس اور بجرنگ دل ملک میں جگہ جگہ بم دھماکہ کرنے کی سازش کر رہے ہیں جس کا الزام فطری طور سے مسلمانوں کے سر جاتا اور اس کا سیاسی فائدہ بی جے پی کو ملتا۔کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ اس حلف نامہ پر الزامات کی جانچ ہو، سچ پائے جائیں تو ان تنظیموں پر ایکشن ہو، غلط ہوں تو شندے پر ایکشن لیا جائے لیکن اتنے سنگین الزام پر نہ عدالت نے کوئی ایکشن لیا، نہ سرکار میں اور نہ ہی ضمیر فروش میڈیا میں اس پر کوئی چرچا ہو رہی ہے۔
فرنٹ کو ممنوع قرار دینے کا معاملہ ابھی ٹریبونل میں جائے گا جہاں فرنٹ اپنی صفائی پیش کرے گا، اگر ٹریبونل پابندی برقرار رکھتا ہے تو پھر ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں معاملہ جائے گا۔ لیکن پھر بھی عدالت کے فیصلہ سے بھی پہلے حسب دستور میڈیا خاص کر ٹی وی چینلوں میں کنگارو عدالتیں چل رہی ہیں جہاں فرنٹ کو شیطانی تنظیم ثابت کیا جا رہا ہے جس کا واحد مقصد عوام کا برین واش ہے تاکہ بی جے پی اچھی سیاسی فصل کاٹ سکے۔ فرنٹ اگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو قانون اس پر فیصلہ کرے گا لیکن حکومت کی جانب داری اور میڈیا ٹرائل یہ دونوں بہت ہی خطرناک رجحان ہیں جس کا حتمی فائدہ انتہا پسند تنظیموں اور عناصر کو ہی ملتا ہے۔ حکومت حکمرانی کے اتنے سے معمولی راز کو سمجھ لے تو یہ ملک کے مفاد میں ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS