بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

0

ہمانشی دھون
(مترجم: محمد صغیر حسین)

’’مجھے  ایک ایسے گاؤںمیں پیدا نہ کر جہاں خواب ہمیشہ پابجولاں ہوتے ہیں، جہاں میرے بھائی کے پسینے کی گرم بوندیں بے قدر و قیمت، بے وقعت ہوجاتی ہیں۔‘‘
جب بنت سنگھ، دلت انقلابی شاعر سنت رام اُداسی کے بول اپنی زوردار آواز میں دہراتے ہیں تو اُن کا آدھا ادھورا دھڑ جاگ اٹھتا ہے۔ دلوں کو چھو لینے والی اُن کی آواز، دونوں بازوؤں سے محروم اور ایک بے جان ٹانگ والے نحیف و نزار جسم سے نکل کر سننے والے کو مسحور کردیتی ہے۔ پنجاب کے منسا ضلع کے بُرج جھبّر گاؤں میں رہنے والے دلت مغنی اور سرگرم کارکن بنت سنگھ کے لیے اُن کی زندگی کی جدوجہد ہی دراصل ان کا پیغام ہے۔
یہ گانا اس 19سالہ دلت دوشیزہ کے لیے گایاجاسکتا تھا جس کو اترپردیش کے ہاتھرس ضلع میں مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری کا شکار بنایا گیا اور پھر وحشیانہ طور پر مار ڈالا گیا۔ اُس نوخیز لڑکی کا درد بنت سنگھ سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے جس کی خود کی سولہ سالہ بیٹی کی اجتماعی عصمت دری 2002میں گاؤں کے اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے چار افراد نے کی۔ 56سالہ بنت جوگانا گاتا ہے وہ اس کی بیٹی بلجیت کو بہت پسند تھا۔ آج بنت یہ گانا اپنی بیٹی کے لیے گاتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ وہ یہ گانا ہر اُس لڑکی کے لیے گاتا ہے جو عدل و انصاف کے حصول کے لیے برسرپیکار ہیں۔
یہ سانحہ2002میں واقع ہوا۔ گاؤں کی اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بلجیت کی جبراً عصمت دری کی۔ گاؤں کی دلت لڑکیوں کے ساتھ یہ نارواسلوک ایک دیرینہ روایت بن چکی تھی۔ نروپمادت ایک ادیبہ اور صحافیہ ہیں، انہوں نے ’’The Ballad of Bant Singh: A Qissa of Courage‘‘ نامی کتاب تصنیف کی ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’’دلت نوخیز لڑکیاں جب اپنے کھیتوں میں ساگ یا مولیاں توڑنے جاتی ہیں تو عصمت دری کے یہ واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ان واقعات پر کوئی شخص لب کشائی نہیں کرتا۔‘‘ البتہ ان واقعات پر پردہ ڈالنے کے لیے کچھ سکے ضرور اُچھالے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ رقم 2,000سے بھی کم ہوتی ہے۔
لیکن بنت سنگھ نے کچھ ایسا کیا جس کی توقع کسی دلت سے نہیں کی جاسکتی۔ وہ اپنا کیس عدالت میں لے گئے اور مجرموں کو عمرقید کی سزا ہوئی۔ وہ کہتے ہیں: ’’انہوں نے مجھے زمین، زر اور ہر قسم کی رشوتیں دینے کی کوشش کی لیکن میں نے انکار کردیا۔‘‘ یہ ایک نادر موقع تھا جب پنجاب میں اعلیٰ ذات کے افراد کو اپنے کیے کی سزا ملی ہو۔ لیکن اعلیٰ ذات کے غرور و نخوت پر پڑنے والی کاری ضرب ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کی گئی۔ جنوری 2006میں، اعلیٰ ذات کے چار افراد نے ہینڈپمپ کے لوہے کے ہتھوں اور لاٹھیوں سے سنگھ پر حملہ کردیا۔ وہ کہتے ہیں: ’’میں3-4گھنٹوں تک وہاں پڑا رہا۔ ہر طرف خون بکھرا تھا۔ میں مدد کے لیے چیختا چلاتا رہا، پھر کہیں میرا ایک دوست میری مدد کو آیا۔‘‘
جب آخرکار انہیں طبی توجہ ملی تو انہیں بتایا گیا کہ ان کی زندگی بچانے کے لیے اُن کے دونوں بازو اور ایک ٹانگ کاٹنی پڑے گی۔ انہوں نے ڈاکٹروں کے عملے سے کہا: ’’میرے ہاتھ پاؤں بھلے ہی کاٹ دیں لیکن میری آواز برقرار رکھیں۔ بس یہی میری آرزو ہے۔‘‘ اُن کے دونوں بازو قلم کردیے گئے اور ایک ٹانگ جسم سے جدا کردی گئی۔ لیکن اس کے باوجود ٹھیک اٹھارہویں دن بنت سنگھ کے نغموں کے زیروبم سے دل کی دنیا زیروزبر ہورہی تھی۔ اور یہ آواز اُس وقت سے آج تک فضا میں گونجتی رہتی ہے۔
بنت سنگھ حروف ناآشنا ہیں۔ وہ دس سال کی عمر سے ہی اُداسی کی شاعری سے بے حد متاثر ہیں۔ وہ اُن نغمات کو ازبر کرلیتے ہیں۔ وہ کبھی کباڑ بیچ کر تو کبھی اپنی سائیکل کے ذریعہ گاؤں گاؤں میک اپ کے سامان اور کانچ کی چوڑیاں فروخت کرکے بس اس قدر روزی روٹی کمالیتے ہیں جو اُن کے جسم و جان کے رشتے کو باقی رکھتی ہے۔ لیکن انہوں نے اس بات سے انکار کردیا کہ غربت اور افلاس اُن کی آواز کو دبادے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم ایل) سے وابستہ مزدور مکتی مورچہ پارٹی کے سرگرم رکن تھے۔ دسمبر 2016 میں انہوں نے اسے چھوڑ کر عام آدمی پارٹی کی رکنیت قبول کرلی اور اسمبلی انتخابات کی مہم میں لگ گئے۔
پارٹی کے علاوہ بھی سنگھ اُن مسئلوں پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں جو اُن کو مشتعل کرتے ہیں خواہ وہ نئے زرعی قوانین ہوں یا عورتوں پر ظلم و ستم ہوں۔ وہ کہتے ہیں: ’’میں اُن عورتوں سے جو خودکشی کرنا چاہتی ہیں، کہتا ہوں کہ جب تمہاری عصمت دری کی جائے تو تمہیں خود کو ختم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ تمہیں ظلم کے خلاف جنگ کرنی چاہیے۔‘‘
بلجیت بھی اپنے باپ کی طرح ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے باپ کی طرح انوکھے کارنامے انجام دیے ہیں۔ وہ عصمت دری کے مرتکبین کے خلاف سرعام، عدالتوں میں، دتّا کے سامنے اور شارع عام پر انتہائی بے باکی سے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ عصمت دری کے واقعہ کے فوراً بعد اُن کی شادی ہوگئی۔ زانیوں نے افشاء راز کی دھمکیاں دے کر اُن کو بلیک میل کرنا چاہا۔ دتّا کہتی ہیں: ’’جب بلجیت کو اُس شخص کا پتہ چلا تو اُس نے گاؤں کے چوراہے پر اُس شخص کی پٹائی کی۔‘‘
دتّا کی کتاب کا ترجمہ کئی ہندوستانی زبانوں میں ہوچکا ہے اور جلد ہی اس کتاب پر مبنی بنت سنگھ کے غیرمعمولی سفرزندگی پر ایک فلم بھی منظرعام پر آجائے گی۔ ان کے بقول: ’’جب آپ کی پشت دیوار سے لگادی جائے تو آپ میں لڑنے کی ہمت پیدا ہوجاتی ہے۔ بنت ایک مثالی دلت ہیرو ہیں۔ صدیوں سے دلتوںکے ساتھ یہ ناروا سلوک کیا جارہا ہے جس نے اُن کی جدوجہد کو اس قدر اہم بنادیا ہے۔‘‘ جب سنگھ سے پوچھا جاتا ہے کہ انہیں ہمت و ولولہ کہاں سے ملتا ہے تو وہ کہتے ہیں: ’’میں اُس وقت تک اپنی جنگ جاری رکھوں گا جب تک کہ میرے جسم میں آخری سانس باقی رہتی ہے۔‘‘
(بشکریہ: ٹائمز آف انڈیا)
(مضمون نگار ٹائمز آف انڈیا سے وابستہ ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS