ہر روز کی طرح آج بھی ارض فلسطین میں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے۔ تازہ ترین اور واقعہ میں مغربی کنارے کے شہر نابلس میں 11فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اسرائیل نے ایک بار پھر اپنی سفاکانہ ذہنیت کا ثبوت دیا ہے۔ یاد رہے کہ دو روز قبل ہی اسرائیل کے قریب ترین رفیق اور سرپرست امریکہ نے اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل میں ایک ایسے ریزولیشن کو آنے سے روک دیا تھا جو مغربی کنارے میں اسرائیل کی حکومت کی جانب سے غیر قانونی بستیوں کی تعمیر کی حالیہ کوششوں سے متعلق تھی۔ مغربی کنارے اور یروشلم پر یہودیوں کی بستی کی تعمیر عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کائونسل اس قدم کی قانونی قرار نہیں دے سکی۔ یوکرین میں روس کی فوجی مزاحمت میں مصروف امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ عالمی برادری کی توجہ یورپ کے اس واقعہ سے منتقل ہو کر مغربی ایشیا کی طرف چلی جائے۔ 24فروری کو روس کے یوکرین پر حملے کے پہلے سال کے موقع پر سیکورٹی کونسل میں تمام تر توجہ روس کی جارحیت پر مرکوز رہی۔ مگر مغربی کنارے نے اسرائیل اپنی وحشیانہ کارروائیاں کرتا رہا۔ اس کے جواب میں غزہ میں مقتدر حماس اور اسلامی جہاد نام کی جنگی گروہ نے یروشلم اوراسرائیل کے دوسرے علاقوں میں راکٹ داغے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے بھی غزہ کی پٹی پر بمباری کی اور کئی جگہ دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں اور گرد ودھواں اٹھتا دکھائی دیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس کارروائی میں حماس کے فوجی ٹھکانوں اور اسلح بنانے والی فیکٹری کو نشانہ بنا یا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گٹرس نے اس صورت حال کو گزشتہ کئی سالو ںمیں سب سے خطرناک صورت حال قرار دیا ہے۔ انہوںنے خطے میں جنگ کے آثار کو ختم کرنے کے لیے اور کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے اپیل کی ہے۔ سکریٹری جنرل نے اپنے بیان میں کہاہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں آج سب سے زیادہ حالات خراب ہیں۔ انہوںنے کہاہے کہ آسمان کو چھوتی ہوئی کشیدگی اور امن مذاکرات نہ ہونے کی وجہ سے یہ صورت حال پیش آئی ہے۔ امریکہ جو کہ اقوام متحدہ کے طاقت ترین ادارے سیکورٹی کونسل میں اپنی سبکی سے بچنے کے لیے سفارتی طور پر انتہائی سرگرم ہے مگر اس کو ارض فلسطین میں معصوم فلسطینیوں کو بچانے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ یاد رہے کہ 2023کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک اسرائیل فوج 60 فلسطینیو ں کو موت کے گھاٹااتار چکی ہے۔ ان میں عورتیں، بچے اور عمر دراز افراد شامل ہیں۔ یوروپی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بیوریل نے آگاہ کیا ہے کہ مغربی کنارے پر صورت حال انتہائی خراب ہے۔ انہوںنے تمام فریقوں سے کہا ہے کہ وہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کام کرنا شروع کردیں۔ اس دوران امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے وزیراعظم اسرائیل اور بنجامن نتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عباس سے کہاہے کہ وہ امن بحال کریں۔ یہ علاقہ اسرائیل کے شکنجے میں 1967سے ہے۔ اقوام متحدہ جو کہ 2005سے ارض فلسطین میں ہلاکتوں اور دیگر نقصانات کی اعدادوشمار کا جمع کررہا ہے۔ اس نے کہاہے کہ وہ 2022بھی اب تک خراب سال تھا جس میں اس پورے تنازع میں بڑی تعداد میں موت ہوئی تھیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے جو رپورٹنگ ہوئی ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں غیر معمولی کشیدگی ہے اور حالات انتہائی خراب ہے۔ بچوں کو اس بمباری سے یہ لگ رہا ہے شاید غزہ میں بھی زلزلہ آگیا ہے۔ یہاں پر یہ یاد دلانا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کے فورم پر اسرائیل کے سامنے کئی چیلنجز ہیں۔ اس میں اہم چینلج اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کی وہ قرار داد ہے جس میں عالمی عدالت سے یہ رائے مانگی گئی ہے کہ اسرائیل نے ارض فلسطین پر جو ناحق قبضہ برقرار رکھا ہے اس پر اس کی قانونی رائے کیا ہے۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ امریکہ ہیگ میں قائم عالمی عدالت کو تسلیم نہیں کرتا لیکن مغربی ممالک اکثر افریقہ اور ایشیا کے ’سفاک‘ انسانیت دشمن حکمرانوں کے خلاف قرار داد یں لا کر اور ان پر مقدمات چلا کر عالمی کٹہرے میں کھرا کرتے رہے ہیں۔ ان میں کویوگینڈا کے سابق صدر ایدی امین اور سوڈان کے معزول حکمراں بشیر العمر شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ بوسنیا کا قاتل Butcher of Boshia روٹکوملاڈک بھی عالمی عدالت میں سزا پا چکا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ مسلم اور عالمی برادری کے انصاف پسند ممالک اور لیڈر ارض فلسطین میں ناانصافی کی خاتمے کے لیے کوششیں تیز کریںاور ظالم کو کیفر کردار پہنچائیں۔
خون ناحق ، صہیونی بربریت اور دوغلی عالمی سیاست
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS