خونیں ہوتا کان کنی کا کھیل

0

پنکج چترویدی

ہریانہ کے نوح ضلع کے تاوڑو تھانہ علاقے کے گاؤں پچ گاؤں میں غیرقانونی کانکنی کی اطلاع ملنے پر کارروائی کے لیے پہنچے ڈی ایس پی سریندر بشنوئی کو 19 جولائی کو جس طرح غیر قانونی کانکنی سے پتھر سے بھرے ٹرک سے کچل کر مار ڈالا گیا، ابھی اس معاملے کی جانچ مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ 10 ستمبر کو نوح میں ایک غیرقانونی کانکنی کے مقام پر چھاپہ ماری کے دوران نامعلوم لوگوں نے پولیس اور ڈسٹرکٹ مائننگ ڈپارٹمنٹ کی مشترکہ ٹیم پر حملہ کر دیا۔ ایک پولیس والا زخمی بھی ہوا۔ اس سے ایک بار پھر کانکنی مافیا کے بے لگام ارادے ظاہر ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ اراولی پہاڑی سلسلے سے غیرقانونی کانکنی کا ہے، وہی اراولی جس کا وجود ہے تو گجرات سے دہلی تک کوئی690کلومیٹر کا علاقہ پاکستان کی طرف سے آنے والی ریت کی آندھی سے محفوظ ہے اور ریگستان ہونے سے بچا ہوا ہے۔ وہی اراولی ہے جہاں کے جنگلی علاقے میں مبینہ تجاوزات کی وجہ سے گزشتہ سال تقریباً انہی دنوں سوا لاکھ لوگوں کی آبادی والے کھوری گاؤں کو اجاڑا گیا تھا، یہ وہی اراولی ہے جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے اکتوبر 2018 میں جب حکومت سے پوچھا کہ راجستھان کی کل 128 پہاڑیوں میں سے 31 کو کیا ہنومان جی اٹھا کر لے گئے؟ تب سبھی بیدار لوگ حیران رہ گئے کہ اتنی زیادہ پابندی کے بعد بھی اراولی پر چل رہی غیرقانونی کانکنی سے کس طرح بھارت پر خطرہ ہے۔
جب چوڑی سڑکیں، آسمان چھوتی عمارتیں اور بڑے گھر کسی علاقے کی ترقی کا واحد پیمانہ بن جائیں تو ظاہر ہے کہ اس کا خمیازہ وہاں کی زمین، پانی اور انسانوں کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ تعمیراتی کام سے وابستہ قدرتی وسائل کا غیر قانونی کانکنی بالخصوص پہاڑ سے پتھر اور ندی سے بالو، اب ہر ریاست کی سیاست کا حصہ بن گیا ہے، پنجاب ہو یا مدھیہ پردیش یا بہار یا پھر تمل ناڈو، ریت کانکنی کے الزام درالزام سے کوئی بھی پارٹی اچھوتی نہیں ہے۔
ذرا دیکھئے-برسات کے دنوں میں چھوٹی بڑی ندیاں بہتر طریقے سے بہہ سکیں، ان کے راستے میں قدرتی سرگرمیاں ہو سکیں، اس مقصد سے نیشنل گرین کورٹ نے پورے ملک میں ندیوں سے ریت نکالنے پر 30 جون سے 4 ماہ کے لیے پابندی لگائی ہوئی ہے، لیکن کیا اس طرح کے احکام زمینی سطح پر نافذ ہوتے ہیں؟ مدھیہ پردیش کے بھنڈ ضلع میں انتظامیہ کو خبر ملی کہ لہار علاقے کی پرایچ ریت کان پر سندھ ندی میں اچانک آئے تیز بہاؤ کی وجہ سے کئی ٹرک پھنس گئے ہیں۔ جب سرکاری ریسکیو ٹیم وہاں گئی تو سامنے آیا کہ 72 سے زیادہ ڈمپر اور ٹرک بیچ ندی میں کھڑے ہوکر بالو نکال رہے تھے۔
بس ریاست، شہر، ندی کے نام بدلتے جائیں، غیر قانونی کانکنی سارے ملک میں قوانین سے بے خبر ایسی ہی ہوتی ہے، یہ بھی سمجھ لیں کہ اس طرح غیرقانونی طریقے سے نکالے گئے پتھر یا ریت کا زیادہ تر استعمال سرکاری اسکیموں میں ہوتا ہے اور کسی بھی ریاست میں سرکاری یا نجی تعمیراتی کام پر کوئی پابندی نہیں، سرکاری تعمیراتی کام کی مدت مقرر بھی ہے- پھر بغیر ریت پتھر کے کوئی تعمیر جاری رہ نہیں سکتی۔ ظاہر ہے کہ کاغذی کارروائی ہی ہوگی اور اس سے نیچر بچنے سے رہا۔
یہ کسی سے پوشیدہ نہیں تھا کہ یہاں گزشتہ کچھ برسوں کے دوران قانونی اور غیرقانونی کانکنی کی وجہ سے سوہنا سے آگے تین پہاڑیاں غائب ہوچکی ہیں۔ ہوڈل کے نزدیک، نارنول میں نانگل درگو کے نزدیک، مہندرگڑھ میں خواص پور کے نزدیک کی پہاڑی غائب ہوچکی ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی علاقوں کی پہاڑیاں غائب ہوچکی ہیں۔ رات کے اندھیرے میں کانکنی کا کام کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ غیرقانونی طور پر کانکنی کی شکایت نوح ضلع سے سامنے آتی ہے۔ پتھروں کی چوری کی شکایت سبھی اضلاع میں ہے۔ ویسے توزمین مافیا کی نظر جنوبی ہریانہ کی پورے اراولی پہاڑی سلسلہ پر ہے لیکن سب سے زیادہ نظر گروگرام، فریدآباد اور نوح علاقے پر ہے۔ زیادہ تر زمینی حصے مافیا برسوں پہلے ہی خرید چکے ہیں۔ جس گاؤں میں ڈی ایس پی جناب بشنوئی جہاں شہید ہوئے یا حال ہی میں جہاں سرکاری ٹیم پر حملہ ہوا، اصل میں وہ گاؤں بھی غیر قانونی ہے۔ غیر قانونی کانکنی کی پہاڑی تک جانے کا راستہ اس گاؤں کے درمیان سے ایک تنگ پگڈنڈی سے ہی جاتا ہے، اس گاؤں کے ہر گھر میں ڈمپر کھڑے ہیں۔ یہاں کے راستوں میں جگہ جگہ رکاوٹیں ہیں، گاؤں سے کوئی پولیس یا انجان گاڑی گزرے تو پہلے ہی گاؤں سے انہیں خبر کر دی جاتی ہے جو غیرقانونی کانکنی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں پہاڑی پر بھی کئی لوگ اس بات کی نگرانی کرتے ہیں اور اطلاع دیتے ہیں کہ پولیس کی گاڑی آ رہی ہے۔
اب اتنا سب آخر ہو کیوں نا! بھلے ہی اراولی کو غیر قانونی کانکنی علاقہ بتا دیا گیا ہو لیکن یہاں کرشر دھڑلے سے چل رہے ہیں اور کرشر کے لیے کچا مال تو ان غیرقانونی کانکنی سے ہی ملتا ہے۔ ہریانہ-راجستھان سرحد اپر اسٹے جمال پور کے بیون پہاڑی پر ہی 20 کرشر ہیں، جن کے مالک سبھی بااثر لوگ ہیں۔ سوہنا کے ریواسن زون میں آج بھی 15 کرشر چل رہے ہیں۔ تاوڑو میں بھی پتھر میں شگاف ڈالنے کا کام چل رہا ہے۔ حالانکہ ان سبھی کرشر کے مالک کہتے ہیں کہ ان کو کچا مال راجستھان سے ملتا ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پتھر انہی پہاڑوں کا ہے جن پر پابندی ہے۔ ہریانہ کی نوح ضلع پولیس ڈائری بتاتی ہے کہ سال 2006 سے ابھی تک 86 بار کانکنی مافیا نے پولیس پر حملے کیے۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ کانکنی مافیا پولیس سے ٹکرانے سے ڈرتا نہیں ہے۔ ابھی سات دن پہلے ہی آگرہ کا ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں غیرقانونی کانکنی والی تیرہ ٹریکٹر ٹرولی ٹول پلازہ کا بیریئر توڑ کر نکل گئی۔ آخر اتنی ہمت صرف ٹریکٹر ڈرائیور میں ہوتی نہیں اور اتنی جرأت کرنے والے کو یہ اعتماد رہتا ہے کہ اس کی پہنچ اس جرم کے نتیجے سے اسے بچا لے گی۔
ندی کا ایک زندہ ڈھانچہ ہے اور ریت اس کے نظام تنفس کا اہم حصہ۔ شدید گرمی میں خشک ہوگئے ندی کے آنچل کو جس بے رحمی سے ادھیڑا جا رہا ہے، وہ اس بار کے یوم عالمی ماحولیات کے نعرے- ’صرف ایک زمین‘ اور ’فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں پائیدار زندگی‘ کے بالکل برعکس ہے۔ انسانی زندگی کے لیے پانی سے زیادہ ضروری پانی کی دھارائیں ہیں۔ ندی محض پانی کے نقل و حمل کا راستہ نہیں ہوتی، وہ زمین کے درجۂ حرارت کے توازن، پانی کے نظام کے دیگر حصے جیسے آبی حیوانات اور پودوں کے لیے آسرا ہوتی ہے لیکن آج اکیلے ندی ہی نہیں ماری جا رہی، اس کے تحفظ کی ہمت کرنے والے بھی مارے جا رہے ہیں۔ سال 2012 میں مدھیہ پردیش کے مرینا میں نوح کی ہی طرح نوجوان آئی پی ایس افسر نریندر کمار کو پتھر سے بھرے ٹریکٹر سے کچل کر مار ڈالا گیا تھا۔ کچھ دن وہاں سختی ہوئی لیکن پھر کانکنی مافیا بدستور کام کرنے لگا۔ اسی چنبل میں 2015 میں ایک سپاہی کو مار ڈالا گیا تھا۔ اسی مرینا میں 2018 میں ایک ڈپٹی رینجر کا قتل ٹریکٹر سے کچل کر دیا گیا تھا۔ یہ طویل سلسلہ ہے۔ آگرہ، اٹاوہ، فتح آباد سے لے کر گجرات تک ایسے واقعات ہر روز ہوتے ہیں، کچھ دن واقعے پر غم و غصہ کا اظہار ہوتا ہے اور پھر یہ محض ایک مجرمانہ واقعے کے طور پر کہیں کھو جاتا ہے اور اس جرم کے عوامل یعنی ماحولیاتی تحفظ اور قوانین نافذ کرنے پر بات ہوتی نہیں ہے۔
واضح ہوکہ جب تک تعمیراتی کام سے پہلے اس میں لگنے والے پتھر، ریت، اینٹ کی ضرورت کا اندازہ اور اس تعمیر کا ٹھیکہ لینے والے سے پہلے ہی سامان اکٹھا کرنے کے ذرائع نہیں تلاش کیے جاتے، غیرقانونی کانکنی اور کانکنی میں بااثر لوگوں کی مداخلت روکی نہیں جا سکتی ہے۔ جدیدیت اور ماحولیات کے درمیان ہم آہنگی ترقی کی پالیسی پر سنجیدگی سے کام کرنا ضروری ہے۔ غیرقانونی کانکنی جنگل، ندی، پہاڑ، پیڑ اور اب انسان کی جان کا دشمن بن چکی ہے۔ یہ محض قانون کا نہیں، انسانی اور ماحولیاتی وجود کا مسئلہ ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS