کالا دھن :سیاست نہیں کارروائی ضروری

0

کالے دھن کی روک تھام کے تمام دعوے غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں افراد کی جان لے لینے والا نوٹ بندی جیسا ظالمانہ فیصلہ بھی اپنے گلے میں ناکامی کا طوق ڈالے اہل حکم کی عقل پر ماتم کناں ہے۔پانچ برس گزرجانے کے بعد بھی نہ تو کالے دھن کی ترسیل میں کوئی کمی آئی ہے نہ غیر ممالک کے بینکوں میں ہی ہندوستانیوں کی دولت اکٹھا کرنے پر رو ک لگی ہے۔ اندرون ملک تو حکومت کی عین ناک کے نیچے لوگ کالے دھن کا پہاڑ کھڑا کررہے ہیں اورملک کو وشو گرو بنانے کی دعویدار حکومت بے خبری کے ریکارڈ بنارہی ہے۔
اترپردیش میں انتخابات سے عین قبل گٹکا اور عطریات کے مبینہ تاجر پیوش جین کے کانپورا ور قنوج میں واقع گھروںسے برآمد ہونے والی دولت نوٹ بندی کی ایک اور ناکامی کا کھلا اظہار ہے۔ اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت اس چھاپہ کو بھلے ہی اپنی کامیابی بتارہی ہے لیکن سچائی یہی ہے کہ یوگی حکومت کی نااہلی پر بھی یہ مہر تصدیق ہے۔ اتر پردیش میں محکمہ انکم ٹیکس نے گٹکا اور عطریات کا بیوپار کرنے والے پیوش جین کے گھر اور دیگر مقامات سے 284 کروڑ روپے کی نقد رقم برآمد کی ہے۔چھاپوں میں بڑی مقدار میں سونا اور چاندی، عطر یات بنانے میں استعمال ہونے والی صندل کی لکڑی کا تیل اور کروڑوں کی جائیداد کے دستاویزات بھی برآمد ہوئے ہیں۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پیوش جین کے گھر کی دیواروں، بستروں، فرش اور تہہ خانے میں رقم چھپائی گئی تھی۔
جس طرح نقدی کی تلاشی کیلئے چابی بنانے والوں اور فرش و دیواروں کی توڑ پھوڑ کیلئے مزدور لگائے گئے، نوٹ گننے کی درجنوں مشینیں منگائی گئیں اور افسران مسلسل کام پر لگے رہے اس سے کسی فلمی کہانی کا تاثر مل رہاہے لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ یہ ہندوستان کی تاریخ میں انکم ٹیکس کا سب سے بڑا چھاپہ ہے اور دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ یہ چھاپہ نوٹ بندی کے بعد والے ہندوستان میں پڑا ہے۔
کالے دھن کی روک تھام کیلئے کی گئی نوٹ بندی کا اثر غیر قانونی دولت اکٹھی کرنے والوں پر تو نہیں پڑا بلکہ اس ناعاقبت اندیش فیصلہ نے ملک بھر کے چھوٹے اور خوردہ تاجروں کو کنگال کردیا، رہی سی کسر جی ایس ٹی نے پوری کردی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ چند لاکھ کی لین دین کرنے اور بینک سے نقد رقم نکالنے کیلئے بھی اذیت ناک کاغذی کارروائی سے گزرناپڑتا ہے۔ حکومت کی سختی کا یہ عالم ہے کہ ایماندار افراد اور ایماندار تاجروں کو اپنے ہی قانونی رقم کے لین دین میں دانتوں پسینہ آجاتا ہے۔لیکن اس کے باوجود ایسے لوگوں کی بھی کافی تعداد ہے جو کروڑوں کی نقد رقم اور من کے حساب سے سونا چاندی لیے اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں اور انتخاب سے عین قبل ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ پیوش جین کے گھر سے برآمد ہونے والی خطیر دولت، 284کروڑ کی نقدی، آدھا من سونا ایک دن میں جمع ہوگیا ہو۔اس میں کچھ نہ کچھ وقت تو ضرور لگا ہوگا۔ نئے نوٹوں کی برآمدگی تو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اس کے اکٹھاہونے میں کم از کم پانچ برس یقینی طور پر لگے ہیں کیوں کہ نئے نوٹوں کا اجرانوٹ بندی کی تاریخ 8نومبر2016کے بعد ہی ہوا ہے۔ ان پانچ برسوں کے دوران درجنوں مقامات اور درجنوں ہاتھوں سے گزر کر ہی یہ 284کروڑ روپے کی خطیر نقدی پیوش جین کے گھر جمع ہوئی ہوگی اور اس دوران بہت سے حکام اور سیاست دانوں نے بھی اپنا اپنا حصہ نچوڑا ہوگا۔
اس مدت تک اترپردیش کی حکومت سوتی رہی ہے اور آج انتخاب کے اعلان سے چند ہفتہ قبل اچانک بیدار ہوکر چھاپہ ماری کرنا اور اس کا سہرا اپنے سر سجانا سمجھ سے باہر ہے۔اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اسے ’ ڈبل انجن والی ‘حکومت کی بہت بڑی کامیابی بتارہے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ پیوش جین پانچ برسوں تک یہ دولت اکٹھی کرتا رہا اور حکومت کو اس غیر قانونی رقم اور خطیر کالے دھن کی بھنک تک نہ مل سکی۔ ایسا کیوں ہوا؟ پانچ برسوں کی مدت کم نہیں ہوتی ہے، اس دوران مودی جی نے دوسری بار ملک کا زمام اقتدار سنبھالا اور اس دھوم دھڑکے سے سنبھا لاکہ ان کی حکومت اور افسران کو مسلمانوں کے گھر کے فریج میں رکھے ہوئے کھانے پینے کی چیزوں تک کا علم ہونے لگا اور اس کے خلاف کارروائی بھی کی جانے لگی لیکن یوگی جی کی ڈبل انجن والی حکومت کو پیوش جین کے کالے دھن کا پتہ نہیں چل سکا۔ یوگی حکومت پیوش جین کو سماج وادی پارٹی کا قریبی بتارہی ہے اور اس معاملہ کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کررہی ہے۔ہوسکتا ہے کہ پیوش جین کا کوئی رشتہ سماج وادی پارٹی یاکسی دوسری پارٹی سے ہو لیکن اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے بجائے اس معاملہ کو غیر قانونی کاروبار اور کالے دھن کی شکل میں ہی دیکھا جانا چاہیے اور اس میں ملوث ہر شخص کے خلاف قانو نی کارروائی کی جانی چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS