بی جے پی کی جیت یا جمہوریت کی ہار؟

0

دو ہفتے قبل ختم ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات میں ملنے والی کامیابی پر مسرور وشاداں بھارتیہ جنتاپارٹی اسے اپنی گڈ گورننس اور ترقی کا ثمرہ قرار دے رہی ہے۔لیکن اب جو انکشافات سامنے آرہے ہیں، اس نے نہ صرف بی جے پی کی کامیابی پر سنگین سوالات کھڑے کردیے ہیں بلکہ صاف شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے دعوے کو بھی گرد آلود کرکے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ بی جے پی کی یہ جیت کہیں جمہوریت کی ہار تو نہیںبن جائے گی۔
تازہ انکشافات میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ بی جے پی کی جیت ملک کے صنعتی گھرانوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ منظم منصوبہ بندی کے تحت گٹھ جوڑ بناکر قانون میں موجود سقم اور خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمت عملی کے ساتھ بی جے پی کے حق میں ماحول سازی کی گئی اور حزب اختلاف بالخصوص کانگریس کے بارے میں غلط ، من گھڑت اور بے بنیاد باتوں کی تشہیر کرکے عوام میں اس کی شبیہ داغدار کی گئی۔
غیر منافع بخش میڈیا تنظیم دی رپورٹرزکلکٹیو (ٹی آر سی ) اور سوشل میڈیا پر سیاسی اشتہارات اور مواد کی تحقیقات کرنے والی ایڈواچ نام کی تنظیم نے انکشافات کیے ہیںکہ فیس بک پر یکطرفہ اور غیر منصفانہ اشتہارات دے کر بی جے پی کی حمایت میں ایسا ماحول بنایا گیا کہ وہ انتخاب میں اس کا فائدہ اٹھاسکے۔اس کے ساتھ ہی حزب اختلاف خاص کر کانگریس کو بدنام کرنے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں جھوٹی اور من گھڑت خبریں بھی پھیلائی گئیں۔
’ٹی آر سی‘ اور’ ایڈواچ‘ نے فیس بک پر بی جے پی اور کانگریس کے اشتہارات پر خصوصی تحقیق کی ہے اوران تمام مشتہرین کا سراغ لگایا ہے جنہوں نے فیس بک پرسیاسی اشتہارات دیے ہیں۔ ان اداروں نے اپنی تحقیق میںبتایا ہے کہ فروری 2019 سے 2020 نومبر تک یعنی 22 مہینوں اور 10 انتخابات کے دوران دیے گئے اشتہارات کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیس بک نے بڑی تعداد میں گمنام اشتہار دینے والوں کو بی جے پی کی انتخابی مہمات پرپوشیدہ طور پر رقم خرچ کرنے اور ناظرین میں زیادہ سے زیادہ اضافے کی اجازت دی ہے۔اس کے علاوہ اشتہار کے نرخ میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان بھاری امتیاز سے کام لیاگیا جہاں بی جے پی اوراس کی اتحادی تنظیموں سے 10 لاکھ بار اشتہار دکھانے کیلئے 41,844روپے فیس بک نے لیے وہیں کانگریس سے اتنی ہی بار کیلئے 53,776 روپے چارج کیے گئے۔’ٹی آرسی‘ نے اپنی تحقیقات میں یہ پتہ لگایا ہے کہ بی جے پی اور اس کے امیدواروں نے باضابطہ طور پر 26,291 اشتہارات دیے تھے جن کیلئے کم از کم 10.4 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے۔ فیس بک پر ان اشتہارات کو 1.36ارب ویوز ملے جب کہ 23گمنام اور سروگیٹ مشتہرین نے بھی فیس بک پر 34,884 اشتہارات لگائے جس کیلئے انہوں نے فیس بک کو 5.83 کروڑ روپے سے زیادہ کی ادائیگی کی اور ان اشتہارات کو 1.31 ارب سے زیادہ ویوز ملے۔ یعنی جتنے اشتہارات درست طریقے سے موصول ہوئے تقریباً اتنے ہی گم نام اور سروگیٹ اشتہارات بھی چلائے گئے اور یہ سروگیٹ اشتہار دینے والوں نے اپنی اصل شناخت یا بی جے پی سے اپنے تعلقات کو ظاہر بھی نہیں کیا۔اسی طرح سے کئی جھوٹے اشتہارات خبر کی شکل میں دکھائے گئے۔2019کے عام انتخاب میں پرگیہ ٹھاکر کی جیت میں ان جھوٹے اشتہارات نے بڑا نمایاں کرداراداکیا۔اسی طرح سے مبینہ شدت پسندمسعود اظہر کے حوالے سے راہل گاندھی کی شبیہ داغدار کرنے کیلئے بھی کئی جھوٹی خبریں اشتہار کی شکل میں چلائی گئیں۔تحقیق میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ اشتہار کی شکل میں چلائی جانے والی یہ جھوٹی خبریں نیوجNEWJ(نیو ایمرجنگ ورلڈ آف جرنلزم لمیٹڈ)کی جانب سے دیے گئے تھے۔یہ ادارہ مکیش امبانی کے ریلائنس گروپ کی ملکیت جیو پرائیویٹ لمیٹڈ کا ذیلی ادارہ ہے۔
ملک میں قانون کی روسے پرنٹ اورا لیکٹرانک میڈیا پر گم نام اور بے نام اشتہار پر سخت پابندی ہے۔ انتخابات میںشفافیت کیلئے بھی الیکشن کمیشن کے کئی قوانین ہیں اور انتخابی اخراجات کی حد بھی مقرر ہے لیکن سوشل میڈیا کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیاہے۔بی جے پی نے اس سقم کا بھرپور فائدہ اٹھایااوراس میں ملک کے صنعتی گھرانوں نے کھل کر اس کی مدد کی۔صنعتی گھرانوں اور سوشل میڈیا کے اس گٹھ جوڑ سے بی جے پی جھوٹ اور افواہ کو حقیقت کا روپ دینے میں کامیاب رہی۔ انتخابات کے دوران ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ ، ہیکنگ اوراس طرح کے درجنوں الزامات سامنے آتے رہتے ہیں، اس با رکے اسمبلی انتخابات میں بھی ووٹوں کی گنتی سے عین قبل ای وی ایم کے بدل دیے جانے کا معاملہ اجاگر ہواتھا لیکن الیکشن کمیشن اور حکومت کی جانب سے اب تک اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں آیا ہے۔اب تازہ انکشافات میں سامنے آنے والے اس نئے گٹھ جوڑ نے جمہوریت اور منصفانہ انتخابات کے تمام دعوئوں کوہی باطل ٹھہرادیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم خاص کر فیس بک کی جھوٹی و من گھڑت خبروںاور صنعتی گھرانوں کی مدد سے بی جے پی بھلے ہی جیت جائے لیکن یہ سلسلہ اگر برقرار رہا تو یہ جمہوریت کی ہار ہوگی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS