اور جیسا کہ خدشہ تھا بکھرائو کا شکار اپوزیشن چاروں خانے چت ہوگیا۔ حکمراں این ڈی اے کی امیدوارمحترمہ دروپدی مرمو ملک کی 15 ویں صدر کے طور پر بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب کرلی گئی ہیں۔ا مروزو فردا میں راشٹرپتی بھون میں ملک کی پہلی قبائلی خاتون صدر قدم رنجہ فرمائیں گی اور ملکی آئین کی تولیت کافریضہ انجام دیں گی۔ حزب اختلاف کے ’مشترکہ ‘ امیدوار 86 سالہ ضعیف العمر سیاست داں یشونت سنہاناکامی کاداغ لیے اب اگر ’سرگرم سیاست ‘ سے کنارہ کش ہوجائیں تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔یہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ کاکوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ حزب اختلاف نے طویل غور وخوض اور مغزپچی کے ساتھ جسے اپنا امیدوار بنایا ہو، انتخاب سے عین قبل اس سے ان کا ’ موہ بھنگ‘ ہوگیا اور حکمراں جماعت کی نامزد امیدوار میں انہیں بہت سی خوبیاں نظرآنے لگی ہوں۔صدارتی انتخاب2022حزب اختلاف کے اتحاد کا ایک لٹمس ٹسٹ تھا جس میں حزب اختلاف پوری طرح ناکام ثابت ہوگیا ہے ۔
حکمراں این ڈی اے کی جانب سے امیدوار کے طور پر محترمہ دروپدی مرموکی نامزدگی کے ساتھ ہی اس کے آثار بھی واضح ہونے شروع ہوگئے تھے لیکن یہ یقین تھا کہ اپنے ہی امیدوار کے خلاف وہ پارٹی اور لیڈر بھی تحفظات کے شکار ہوجائیں گے جنہوں نے اسے امیدوار بنایا تھا۔جس دن این ڈی اے نے صدارتی امیدوار کے طور پر قبائلی خاتون دروپدی مرمو کے نام کا اعلان کیا تھا، اسی دن اپوزیشن اتحاد کی سب سے بڑی داعی ممتابنرجی نے بڑی یاس انگیزی کے ساتھ کہاتھا کہ اگر بی جے پی اپنے امیدوار کا نام پہلے بتادیتی تو ہم اس پر غور کرتے۔ ان کی یہ یاس انگیزی حزب اختلاف میں شامل دوسری جماعتوں کیلئے حوصلہ کا کام کرگئی اورا نہوں نے اپوزیشن اتحاد کا خواب اپنی آنکھوں سے نوچ پھینکا۔ این ڈی اے اتحاد کے علاوہ محترمہ دروپدی مرمو کی حمایت میں بی ایس پی، بیجو جنتا دل، وائی ایس آر کانگریس، شرومنی اکالی دل، تیلگو دیشم پارٹی، جنتا دل (سیکولر)، شیوسینااور جھارکھنڈ مکتی مورچہ سمیت کئی دوسری اپوزیشن جماعتیں بھی آگئے آئیں۔ جب کہ حزب اختلاف کے مشترکہ امیدوار یشونت سنہا کے ساتھ کانگریس، این سی پی، ٹی آر ایس، آر جے ڈی، عام آدمی پارٹی، راشٹریہ لوک دل، ایس پی، اے آئی ایم آئی ایم اور نیشنل کانفرنس وغیرہ جیسی جماعتیں باقی رہ گئی تھیں۔
محترمہ دروپدی مرموکو ممبران پارلیمنٹ کے ووٹوں میں سے 540ووٹ ملے جن کی کل قدر 3,78,000 ہے جبکہ یشونت سنہا کو 208 ووٹ ملے جن کی قیمت 1,45,600 ہے اور 15 ووٹ غلط پائے گئے۔دوسرے مرحلے کی گنتی کے دوران 10 ریاستوں کے ووٹوں کی گنتی میں 1138 ووٹ شمار کیے گئے جن کی کل قدر 1,49,575 تھی۔ اس میں سے دروپدی مرمو کو 809 ووٹ ملے ہیں جن کی قدر 1,05,299 تھی جبکہ یشونت سنہا کو 329 ووٹ ملے جن کی قدر 44,276 تھی۔ یہ سطور لکھے جانے تک مجموعی طور پر 1,886 جائز ووٹوں کی گنتی ہوچکی ہے جن کی کل قدر 6,73,175 ہے۔ان میں سے محترمہ دروپدی مرمو کو 1,349ووٹ ملے جن کی قیمت 4,83,299 ہے اور یشونت سنہا کو اب تک کل 537 ووٹ ملے ہیں، جن کی قیمت 1,89,876 ہے۔اس صدارتی انتخاب میں کل 4809 ووٹر تھے جن میں 776 ایم پی اور 4033 ایم ایل ایز شامل تھے۔ ممبران پارلیمنٹ کے ووٹوں کی کل قیمت 5,43,200 ہے جبکہ ممبران اسمبلی کے ووٹوں کی قیمت 5,43,231 ہے ۔ کل 4809ووٹروں کے مجموعی ووٹ 10,86,431 بنتے ہیں اور اس میں سے 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب ٹھہرتا ہے ۔
صدر کا انتخاب کھلی ووٹنگ کے بجائے خفیہ رائے شماری کے ذریعہ ہوتا ہے اور اس انتخاب میں کسی کو اپنا بیلٹ دکھانا بھی ممنوع ہے حتیٰ کی سیاسی جماعتیں صدر کے انتخاب کے معاملے پر اپنے ممبران پارلیمنٹ کو وہپ بھی جاری نہیں کرسکتیں۔ ان حالات میں وہی ہونا تھا جو ہوا ۔اب اسے این ڈی اے یا بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کی کامیابی کہیں یا حزب اختلاف کی بے سمتی کہ ایک ایسا موقع جو اپوزیشن اتحاد کانقیب ثابت ہوسکتا تھا،گنوادیاگیا۔ اگلے6اگست کوہونے والے نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب میں بھی بعینہٖ یہی صورتحال ہے۔ اس انتخاب میں صدر کے انتخاب کی طرح ارکان اسمبلی کوشامل نہیں کیاجاتا ہے بلکہ صرف ممبران پارلیمنٹ ہی ووٹ ڈالتے ہیں اور پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جوتعداد ہے اس کا ذکر ہی فضول ہے۔این ڈی اے امیدوار جگدیپ دھن کھڑ کی کامیابی پہلے سے ہی طے مانی جارہی ہے۔
محترمہ دروپدی کی بطور صدرجمہوریہ کامیابی بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی بالادستی کاایک اور بڑا اعلان ہے جسے مستقبل قریب میں چیلنج کیے جانے کا کوئی امکان باقی نہیں رہ گیا ہے ۔
[email protected]
بی جے پی کی سیاسی بالادستی:ناقابل چیلنج
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS