بی جے پی کی نئی قومی ٹیم

0

لوک سبھا انتخابات کی تیاری ہر پارٹی اپنی سطح پر کررہی ہے ۔جب سے اپوزیشن پارٹیوں نے انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلسیوالائنس (انڈیا ) تشکیل دیا ہے ، انتخابی تیاریوں میں کچھ زیادہ ہی تیزی آگئی ہے ۔انڈیابنام این ڈی اے کی لڑائی میں جتنے سرگرم اورمتحرک اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران نظر آرہے ہیں ،اتنے ہی قومی جمہوری اتحاد میں شامل پارٹیاں اور لیڈران ۔ملاقاتوں اورمیٹنگوں کا دور چل رہا ہے ۔یہی حال رہاتوکچھ دنوں بعد جلسے اور ریلیاں شروع ہوجائیں گی ۔ہر پارٹی چاہے وہ حکمراں اتحاد میں ہویا اپوزیشن اتحاد میں کمربستہ ہوگئی ہے۔ کانگریس نے تنظیمی اکائیوں میں نئے عہدیداران کا تقرر کرکے نئی جان پھونکنے کی کوشش کی ہے تو بی جے پی نے پہلے ریاستی صدروکا تقررکیا اوراب پارٹی صدر جے پی نڈا نے مرکزی سطح پر اپنی ٹیم تشکیل دے دی ہے اس ٹیم میں 13نائب صدور، 13 قومی سکریٹری اور 8جنرل سکریٹری ہیں۔ قومی جنرل سکریٹری (تنظیم ) بی ایل سنتوش کوعہدہ پر برقراررکھا گیا ، البتہ شیوپرکاش کو ان کا معاون بنایا گیا ہے ۔ ٹیم میں ذات ، مذہب اور ووٹ کو خاص طور سے مدنظر رکھاگیا ۔ٹیم میں ایسے لیڈران کو جگہ دی گئی ، جن کے بارے میں پارٹی سمجھ رہی ہیں کہ ان سے ان کی ریاست میں پارٹی کو فائدہ پہنچ سکتاہے،ان لیڈروں کوبھی شامل کیا گیا، جنہیں لگ رہا تھا کہ قیادت انہیں نظر انداز کررہی ہے اوران سے بغاوت ونقصان کا خطرہ تھا۔ ان کے علاوہ پارٹی کچھ چہروں کوآزمارہی ہے اورکچھ کے ذریعہ بڑا دائوکھیلنے کی کوشش کررہی ہے ۔یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ تنظیمی سطح پر یہ تقرریاں کتنی کارآمدثابت ہوں گی ۔
غورطلب امریہ ہے کہ بی جے پی کے صدر جے پی نڈانے اپنی ٹیم میں 2سابق وزرائے اعلیٰ ایک راجستھان کی وسندھرا راجے سندھیا اوردوسرے چھتیس گڑھ کے رمن سنگھ کو نائب صدر کے طور پر جگہ دی ہے۔ان دونوں ریاستوں میں چندماہ بعد اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ان کی خدمات قومی سطح پرلوک سبھاانتخابات کیلئے حاصل کی جائیں گی اور ریاست میںاسمبلی انتخابات کے دوران انہیں وزیر اعلیٰ کا چہرہ نہیں بنایا جائے گا، توکیا دونوں لیڈران اتنی بڑی قربانی دینے کیلئے تیارہوں گے ؟ٹیم میں اترپردیش کے 8 لیڈروںکو جگہ دی گئی ہے،جن میں سے 4کاتعلق مغربی اترپردیش سے ہے،جہاں گورجر ، برہمن ، ویشیہ اور مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہے ۔یہاں 2019کے پارلیمانی انتخابات میں پارٹی بجنور، سہارنپور ، مرادآباد،نگینہ ، سنبھل ، امروہہ اوررامپور کی سیٹوں پر شکست کو بھول نہیں سکی ۔ اسی لئے ذات اورمذہب دونوں کے حساب سے ٹیم میں توازن کو برقراررکھا گیا ، تاکہ ہر ذات اورکمیونٹی کے ووٹ ملے ۔اسی تناظر میں مغربی یوپی سے سب سے زیادہ چونکادینے والا چہرہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر طارق منصورکا ہے۔ جنہوں نے وقت سے پہلے وائس چانسلر کے عہدہ سے استعفیٰ دیا اوراس کے کچھ ہی دنوں کے بعد انہیں یوپی سے ایم ایل سی بنادیا گیا اوراب قومی ٹیم میں نائب صدر کی سیٹ دی گئی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پسماندہ مسلمانوں کے ووٹوں کے حصول کیلئے ایک اور کوشش ہے ،جن پر پارٹی خاص طورسے توجہ دے رہی ہے۔ایسی تقرریاں پارٹی نے کئی شعبوں میں کی ہے۔ پہلی بار پارٹی اپنے پرانے مسلم چہروں کی جگہ نئے چہروں کو آزمارہی ہے ۔نئی ٹیم میں ایک اورمسلم چہرہ عبداللہ کٹی ہیں ، جن کا تعلق کنور کیرالہ سے ہے ، وہ 2بار(1999–2009)سی پی ایم کے ٹکٹ پر ممبرپارلیمنٹ اور 2009سے 2016تک ممبراسمبلی رہ چکے ہیں۔انہوں نے ستمبر 2020 میں بی جے پی میں شمولیت اختیارکی ۔ نئی ٹیم میں کیرالہ سے ہی انل انٹونی کو قومی سکریٹری بنایا گیا ، جبکہ وہاں کے گورنر عارف محمد خان ہیں ۔ ایسالگتاہے کہ کیرالہ میں پارٹی کھاتہ کھولنے کے لئے اب کوئی کسر نہیں چھوڑرہی ہے ۔
بی جے پی کوجہاں اپنی نئی ٹیم سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں، وہیںاپوزیشن پارٹیوں کو نئے اتحاد پر کافی بھروسہ نظر آرہا ہے اورانہیں لگ رہا ہے کہ اگروہ متحد ہوکر الیکشن میں اترے تو ملک میں بڑاالٹ پھیر ہوسکتا ہے ۔اس کا اندیشہ بی جے پی کو بھی ہے ، اسی لئے اس بار وہ علاقائی پارٹیوں کے ساتھ متحد ہوکر الیکشن لڑنے کی کوشش کررہی ہے ۔ بہرحال انڈیا اوراین ڈی اے دونوں کے سامنے بہت سخت چیلنج ہے ، اسی لئے انتخابات کی تیاریاں بھی اسی سطح پر چل رہی ہیں ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS