بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی بیک فائر کررہی ہے

0

جیسا کہ مختلف ذرائع ابلاغ اور تجزیوں میں اندیشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ برسراقتدار آئندہ پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات مرکز میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہونے جارہی ہیں۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں حالات غیر یقینی ہے اور وہاں کی لیڈر شپ میں جو تیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ بعض اوقات ایسا لگ رہا ہے کہ راجستھان میں بی جے پی کا مقابلہ بی جے پی سے ہی ہے۔ یہی صورت حال مدھیہ پردیش میں ہے۔ مگر راجستھان میں حالات قابو سے باہر اس لیے ہیں کیونکہ وہاں دو مرتبہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہ چکیں لیڈر وسندھرا راجے بڑے دم کھم کے ساتھ مرکزی اور ریاستی پارٹی قیادت کی ناک میں تیر پہنائے ہوئے ہیں۔ ابھی تک بی جے پی کو یہ لگ رہاتھا کہ انتخابات کی گرمی میں شاید وسندھرا راجے پگھل جائیں گی، مگر وسندھرا راجے ایک منجھی ہوئی سیاست داں کی طرح اپنے میدان میں ڈٹی ہوئی ہیں۔ پارٹی کی مرکزی قیادت کو انہوںنے سخت امتحان میںڈال رکھا ہے۔ ان کے تیور سندھیا خاندان کے ہر رکن کی طرح شا ہانہ اور متکبرانہ ہیں۔ ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے ، اگر وزیراعظم نریندر مودی ، وزیر داخلہ امت شاہ اور پارٹی صدر جے پی نڈا خود تمام فیصلے کررہے ہیں، مگر وسندھرا کو نظرانداز کرنا پارٹی کے لیے گھاٹے کا سودا ہوسکتا ہے۔
پچھلے دنوں پارٹی کی ایک اہم میٹنگ میں وسندھرا کے بگڑے ہوئے تیور کو دیکھ کھر وزیر داخلہ اور پارٹی صدر کو میٹنگ بیچ میں ہی چھوڑ کر آنی پڑی تھی۔ یہ واقعہ اگر صحیح ہے تو بی جے پی کے لیے نیند اڑانے والا ہے۔ وزیراعظم جے پور کی ایک میٹنگ میں خود اعلان کرچکے ہیں کہ وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے کسی قائد کا نام نہیں پیش کیا جا رہا ہے اور پارٹی کا نشانہ یعنی کمل ہی پارٹی کا چہرہ ہوگا۔ اگرچہ یہ بیان اپنے آپ میں بڑا ہے، مگر وسندھرا راجے سندھیا اس صورت حال میں اپنے آپ کو حاشیہ پر محسوس کررہی ہیں ، راجستھان میں وسندھرا راجے کے علاوہ بی جے پی کے پاس کوئی ایسا بڑا لیڈر نہیں ہے جس کے نام کو آگے کردیا جائے۔ ان کی تنظیمیں صلاحیتیں غیر معمولی ہے۔ دو میقات تک وہ راجستھان کی وزیراعلیٰ رہیں ، راجستھان وہ ریاست ہے، جہاں ہر الیکشن میں اپوزیشن پارٹی برسراقتدار آتی ہے، مگر وسندھرا راجے لگاتار دو مرتبہ الیکشن جیتیں۔ یہ روایت شکنی کا اگر کوئی سہرا اپنے سر لے سکتا ہے تو وہ وسندھرا راجے ہے۔
راجستھان میں پہلی 41 امیدوارو ں کی پہلی لسٹ جاری ہونے کے بعد ہی سرپھٹول شروع ہوچکا ہے۔ جن لوگوں کو اس فہرست میں ٹکٹ نہیں ملا انہوںنے ہنگامہ برپا کردیا۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ پہلی فہرست میں ناموں پر اختلاف کا اتنی شدت سے ہونا مرکزی اور ریاستی قیادت میں ارتعاش پیدا کرنے والا ہے۔ مرکزی قیادت میں حالات کو قابو میں کرنے کے لیے 11رکنی کمیٹی وضع کی ہے، جس کی قیادت مرکزی وزیر کیلاش چودھری کررہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ بی جے پی کے جھوٹ واڑہ اسمبلی حلقہ سے بی جے پی کے لیڈر راج پال سنگھ شیخاوت نے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ راجیہ وردھن سنگھ راٹھور کو امیدوار بنائے جانے کی سخت مخالفت کی ہے۔
یہ مخالفت نہ صرف راج پال سنگھ کو ٹکٹ نہ دیے جانے کی ہے بلکہ بی جے پی کی اس حکمت عملی کی مخالفت ہے جس کے تحت پارٹی مرکز میں سرگرم ہے۔ ممبران پارلیمنٹ کو ٹکٹ دے رہی ہے، جبکہ یہ ممبران پارلیمنٹ خود اپنے اپنے پارلیمانی حلقوں میں اپنی گرفت مضبوط بنا ر ہے ہیں۔ آج کے حالات میں اگر ان لیڈروں کو پارلیمنٹ سے اٹھا کر اسمبلی کا ممبر بنانے کی کوشش ہورہی ہے تو یہ ان ممبران پارلیمنٹ کا بھی ڈیموشن ہے۔ کوئی بھی ممبران پارلیمنٹ مرکز ی یا قومی سیاست میں سرگرم ہونے کے بعد جب لوکل سطح پر آتا ہے تو اس کو بھی ناگوار گزرتا ہوگا۔ کیونکہ قومی سیاست اور لوکل سیاست بالکل مختلف انداز کی ہوتی ہیں ۔ ممبران پارلیمنٹ کو اپنا ذہنی میلان بدلنا ہوتا ہے۔ یہ کام آسان نہیں ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اس سے قبل مدھیہ پردیش کے ایک اہم لیڈر کیلاش سنگھ وجے ورگیہ کو پارٹی نے ا سمبلی الیکشن لڑنے کا حکم صادر کیا ہے۔ کیلاش وجے ورگیہ ایک قومی سطح پر سرگرم سیاست دا ں ہیں ، وہ مغربی بنگال کی پر خطر سیاست میں کود پڑے اور انہوںنے اپنے مینڈٹ کو حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کرلی ہے۔ مغربی بنگال جیسے صوبے میں بی جے پی کا اس قدر اہمیت حاصل کرجانا اور پارلیمنٹ میں اتنی زیادہ سیٹیں حاصل کرنا بڑی بات ہے۔ اگرچہ اس بڑی کامیابی کے پیچھے صرف کیلاش وجے ورگیہ کا ہی ہاتھ نہیں ہے ۔ بلکہ پوری پارٹی نے مل کر یہ مشن حاصل کرا ہوگا، مگر اس مشن میں کیلاش وجے ورگیہ کا رول نظرانداز کرنا آسان نہیں ہے۔ ان کا ذہن قومی سطح کی سیاست کے لیے بن گیا ہے ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ بی جے پی ان کو وزیراعلیٰ کے عہدے کا متوقع امیدوار بنا سکتی ہے۔ اس کا تاثر دیا جاچکا ہے، مگر کیلاش ورجے ورگیہ جن کے ہاتھ میں یہ جھنجھنا دیا گیا ہو۔ مرکزی وزیر برائے زراعت نریندر سنگھ تومر، کیلاش جوشی اور کئی ممبران پارلیمنٹ کو اسمبلی الیکشن لڑانے کی بات سامنے آئی ہے۔ اس حکمت عملی کے ذریعہ بی جے پی مدھیہ پردیش اور راجستھان کی سیاست میں اپنی موجودگی اور زور دار طریقے سے درج کرانا چاہتی ہے اور پارٹی کے ورکرو ںکو حوصلہ اور جوش دلانا چاہتی ہے، مگر اس حکمت عملی کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں جو ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں اور بدقسمتی سے مرکز سے ریاستی سطح پر آنے والے لیڈروں میں ناخوشی دکھ رہی ہے۔ وہ با دل نہ خواستہ مرکزی قیادت کے احکامات کو قبول تو کررہے ہیں ، مگر اس حکمت عملی کے نتائج حسب توقع اچھے ہوں گے ۔ یہ ضروری تو نہیں۔ کیلاش وجے ورگیہ جیسا سینئر لیڈر اپنے کرب کا اظہار کرچکا ہے۔ راجستھان میں اگرچہ راٹھور جیسے لیڈروں نے اپنی ناخوشی ظاہر نہیں کی ہے اور قیادت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں مگر اس معاملے میں بحران دوسری سمت سے آیا ہے۔ مقامی لیڈر کے ذریعہ لوکل اسمبلی سیٹوںپر قبضہ کرناریاستی سطح کی سیاسی لیڈر شپ کے لیے فال نیک نہیں ہے۔
خیال رہے کہ یہ اسمبلی کے الیکشن ہیں پارلیمنٹ کے نہیں ۔ مقامی لیڈر شپ کو نظرانداز کرنا غیر مناسب ہے، اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ راجپال سنگھ شیخاوت کو جھوٹ واڑہ سے ٹکٹ نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ وسندھرا راجے کے خیمے کے ہیں۔ مقامی لیڈر شپ راٹھور کو پیرا شوٹ امیدوار قرار دے رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر شیخاوت کے حامیو ں نے ویڈیو ڈالے ہیں، جس سے تہلکہ مچ گیا ہے۔ پا رٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ 41امیدواروں میں سے 10امیدواروں کے خلاف بغاوت پھیل گئی ہے۔ بی جے پی لیڈر جیسی کیڈر بیسڈ پارٹی میں پہلی ہی لسٹ آنے پر اتنے بڑے پیمانے پر بغاوت کے سر برے خطرے کی گھنٹی ہے۔
باغیوں کی فہرست طویل ہے۔جھن جھنو اسمبلی کے سابق امیدوار اور موجودہ ضلع صدر راجندر بھانسو نے بغاوت کردی ہے اور آزاد امیدوار کے طور پر اسمبلی الیکشن میں کھڑا ہونے اعلان کردیا ہے۔ انہوںنے امیدوار کا اعلان کرنے کے بعد جس جلسہ میں شرکت کی اس میں پانچ ہزار سے زائد افراد شامل تھے۔ اجمیر کے ممبر پارلیمنٹ بھاگیرت چودھری کو کشن گڑھ اسمبلی حلقہ سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔ وہاں 2018میں وکاس چودھری نے الیکشن لڑا تھا، مگر وہ ہار گئے تھے۔ اس کے باوجود وہ بھاگیرت چودھری ممبر پارلیمنٹ کو کشن گڑھ حلقہ سے ٹکٹ دیے جانے کے خلاف مورچہ کھول رہے ہیں۔ انہوںنے ٹوئٹر پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اسی طرح ٹونک پارلیمانی حلقے کی دیوئولی یونیرا اسمبلی سیٹ سے وجے بیسنلہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ یہ حلقہ بڑا اہم ہے اس حلقے میں دہلی کے ممبر پارلیمنٹ بدھوڑی انچارج بنا ئے گئے ہیں۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ رمیش بدھوڑی کو اس حلقہ کا انچارج کیوں بنا یا گیا ہے۔ پچھلے دنوں پارلیمنٹ میں ان کے بیان کے بعد جنوبی دہلی کے ممبر پارلیمنٹ کی مقبولیت اور اہمیت بڑھ گئی ہے۔ ٹونک پارلیمانی حلقہ میں مسلمانو ںکی بڑی تعداد ہے ۔ ٹونک اسمبلی حلقہ سے سچن پائلٹ ایم ایل اے ہیں۔ ان تمام باتو ںکو مد نظر رکھتے ہوئے پارٹی کے امیدوارو ںکے خلاف بغاوتی سروں کا سامنے آنا پارٹی کے پالیسی سازوں کو مشکلات میں ڈال سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS