کرناٹک میں بی جے پی کا انتخابی منشور اور مسلمان

0

عبدالماجد نظامی

کرناٹک کا اسمبلی انتخاب جس کا انعقاد10مئی کو ہوگا، اس کے لیے بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی اور حزب اختلاف کانگریس پارٹی دونوں نے اپنے انتخابی منشور جاری کر دیے ہیں۔ ان منشوروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پارٹیاں اپنے انتخابی ہدف کو کس سمت موڑنا چاہتی ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے تو اس نے اپنے منشور میں بنیادی طور پر دو مسئلوں کو اہمیت دی ہے، ایک مسئلہ تو رفاہی امور سے متعلق ہے لیکن دوسرا معاملہ جس کو بڑی قوت کے ساتھ زعفرانی پارٹی نے پیش کیا ہے وہ ہے ہندوتو۔ اس منشور سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ترقیاتی مسائل جن کا ذکر وزیراعظم نریندر مودی اپنی تمام انتخابی ریلیوں میں کرتے نظر آتے ہیں، ان کو خاص اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ باوجودیکہ وزیراعظم نے اس منشور کو ’’ترقیاتی مسائل پر مرکوز منشور‘‘ قرار دیا ہے۔ خود بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے بھی اس کو ریاست کے تمام لوگوں کی ترقی سے متعلق امیدوں اور تمناؤں کی تکمیل کا ذریعہ مانا ہے لیکن اس کے اندراجات کے مطالعہ سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ تعمیر و ترقی سے کوئی خاص رشتہ اس مینی فیسٹو کا نہیں ہے۔ اس منشور کو جب کرناٹک کے باشعور حضرات نے پڑھا ہوگا تو انہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس میں ان کے ان مسائل کا عکس دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے جن سے جنوبی ہندوستان کی یہ ترقی پذیر اور ترقی پسند ریاست گزشتہ چند برسوں میں دو چار رہی ہے اور لگاتار اس کا گراف ترقی کے پائیدان پر گرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ خاص طور سے انسانی ترقیات کے زمرہ میں تو اس ریاست نے بڑی تنزلی کا مشاہدہ کیا ہے۔ صحت، تعلیم اور غذائیت جیسے معاملوں میں تو اس کی حالت کچھ زیادہ ہی خستہ نظر آتی ہے۔ یہ گراوٹ بے وجہ نہیں ہے۔ دراصل بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے پورے عہد حکومت میں اس ریاست کو ہندوتو کی لیباریٹری کے طور پر استعمال کیا ہے اور ہرممکن کوشش کی ہے کہ وہاں شمالی ہندوستان کی اسی ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی اپنی پالیسی کو نافذ کرے جس سے شمالی ہندوستان کی اکثر ریاستیں متاثر ہوگئی ہیں۔ جارحیت پسند اس ہندوتو کا اصل نشانہ ہر جگہ مسلم اقلیت ہوتی ہے۔ کرناٹک میں حجاب، ٹیپو سلطان اور عیدگاہ جیسے ایشوز کو جس ڈھنگ سے انہوں نے ہمیشہ گرم رکھا اور مسلم اقلیت کے خلاف محاذ کھولے رکھا، اس سے یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ترقیاتی امور سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ اقلیت کے خلاف محاذ آرائی کرکے اپنا سیاسی الو سیدھا کرنا چاہتی ہے۔ سنگھ کے سماجی تقسیم کے نظریہ پر گامزن اس پارٹی نے ہندوتو کے ایجنڈہ کے تحت آخری حربہ یہ استعمال کیا کہ اس نے مسلمانوں کو دیے گئے4فیصد ریزرویشن کو ختم کر دیا اور پھر اس کو دیگر ہندو گروپوں میں تقسیم کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس عمل کا بنیادی مقصد سماج میں تقسیم اور تنافر کے جذبہ کو ہوا دے کر سیاسی فائدہ اٹھانا ان کے پیش نظر تھا جس میں وہ وقتی طور پر اس طرح ناکام رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے اس عمل پر روک لگادی ہے لیکن الیکشن کے بعد پھر اس موضوع پر گہری سیاست چلے گی کیونکہ کانگریس پارٹی نے اپنے منشور میں اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ حکومت سازی کی صورت میں اس ریزرویشن کو بحال کرے گی۔ بی جے پی نے ہندوتو پر اپنی توجہ اس وجہ سے مرکوز کی ہے کیونکہ بسوراج بومئی کی سرکار اپنے عہد حکومت میں ترقیاتی کاموں سے کوسوں دور رہی ہے جس کی بنیاد پر انہیں کافی تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ زیر بحث منشور میں بھی ترقی اور رفاہ سے متعلق باتوں کا ذکر جہاں آیا ہے، وہاں اس تنقید کا عکس صاف نظر آتا ہے جس کا نشانہ بومئی سرکار لگاتار بنتی آئی ہے۔ اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لیے ان کے پاس ہندوتو کا نعرہ ہی ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بچتا ہے اور اسی لیے این آر سی سے لے کر یکساں سول کوڈ تک جیسے تمام متنازع مسائل کا ذکر کر دیا گیا ہے تاکہ ووٹوں کی حصولیابی کا سفر آسان ہوسکے۔ لیکن کیا واقعی ہندوتو کرناٹک میں ان کی ڈوبتی کشتی کو ساحل نجات تک پہنچانے کا ذریعہ ثابت ہوگا؟ غور کرنے کی بات ہے کہ آخر این آر سی جیسے معاملہ کو کرناٹک میں پیش کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس ریاست کی سرحدیں تو آسام یا بنگال کی طرح بین الاقوامی سرحدوں سے ملتی بھی نہیں ہیں جہاں پر باہر سے لوگوں کے آنے کا اندیشہ باقی رہتا ہے۔ اسی طرح ایک ایشو جس پر بی جے پی نے اپنے منشور میں خاص توجہ دی ہے، اس کا تعلق مندروں کے انتظامات سے ہے۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ اگر زعفرانی پارٹی حکومت سازی میں کامیاب ہوتی ہے تو مندروں کے انتظامی امور کو ہندو مذہبی ذمہ داروں کے سپرد کر دے گی۔ اس کا بھی واضح مقصد مسلم اقلیت کو نشانہ بنانا ہے کیونکہ کرناٹک کے کئی مندروں میں مسلمانوں کو دکانیں لگانے کی اجازت ہے۔ بی جے پی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اس علامت کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ کانگریس پارٹی نے اپنے منشور میں جہاں ایک طرف ترقیاتی مسائل اور رفاہی امور کو سر فہرست رکھنے کا وعدہ کیا ہے، وہیں اس نے ہندوتو کا مقابلہ کرنے کا بھی اشارہ دیا ہے اور یہ وعدہ کیا ہے کہ پی ایف آئی کے ساتھ ساتھ بجرنگ دل پر بھی پابندی عائد کی جائے گی۔ کانگریس پارٹی اب تک ہندوتو کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس پر خاموش رہ جایا کرتی تھی۔ یہ نئی تبدیلی آئی ہے جس کو آئندہ پورے ملک میں نافذ کرنے کے لیے اگر اقدام کیا جاتا ہے تو نہرو کے سیکولرازم کو اس ملک میں نئی زندگی مل سکتی ہے جس کے تحت دستور کی اس روح کی حفاظت ہوپائے گی جس کی وجہ سے یہ ملک اپنی تکثیریت میں وحدت کی شاندار مثال بنا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کی بھی امید کی جاسکتی ہے کہ ہندوتو کو کرناٹک کے عوام بھی اسی طرح دیکھیں گے جس طرح بی جے پی کے لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ یدی یورپا نے دیکھا تھا اور کہا تھا کہ حجاب وغیرہ کے مسائل ان کے لیے اہمیت نہیں رکھتے۔حالانکہ کانگریس کی یہ ’’بیلنس‘‘والی پالیسی ووٹروں کو کتنا متاثر کرے گی، یہ کہنا ابھی مشکل ہے تاہم گزشتہ دنوں میں یہ بہت کارآمد ثابت نہیں ہوئی ہے۔ مثال کے طورپر شاہ بانو مقدمہ میں مسلمانوں کو خوش کیا تو ساتھ ہی بابری مسجد کا تالا کھلوا کر بیلنس کرنے کی کوشش کی، اسی طرح راہل گاندھی کے ذریعہ جب جب آر ایس ایس کو نشانہ بنایا جاتا ہے تب تب وہ اخوان المسلمین کا ذکر کرنا نہیں بھولتے جب کہ سب کو معلوم ہے کہ آر ایس ایس ملکی تنظیم ہے اور اخوان کا بھارت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور اب بجرنگ دل کے ساتھ پی ایف آئی کا ذکر اسی بیلنس والی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن حالیہ انتخابی صورتحال کے پیش نظر کرناٹک کے رائے دہندگان کو اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ہندوتو کے ایجنڈوں کو مسترد کرنا ہوگا ورنہ وہ دن دور نہیں جب بنگلورو کو دنیا ہندوستان کی سیلیکون ویلی کے طور پر نہیں بلکہ فرقہ وارانہ منافرت کے مرکز کے طور پر یاد کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو یہ صرف کرناٹک ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی ساکھ کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS