ایم اے کنول جعفری
ہندوستان میں آبادی کنٹرول کا مدعا کوئی نیا نہیں ہے۔ جب کسی موقع پرآرایس ایس،وشو ہندو پریشد اور بی جے پی سمیت دیگر زعفرانی تنظیموں کو کسی معاملے میں حزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تب خاص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بناکر دل کو تسلی دینے کا کام کیا جاتا ہے۔ کرناٹک میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج میں بی جے پی کی شکست فاش کے بعد ایک مرتبہ پھر آبادی کنٹرول کا مدعا اُٹھانے کی کوشش کی گئی۔اس میں دو رائے نہیں کہ اس بار مسلم رائے دہندگان کے تقسیم ہونے کے بجائے متحد ہوکر ایک طرف ووٹ ڈالنے سے کانگریس کو شاندار جیت حاصل ہوئی ہے۔ الیکشن ہوں یا کھیل،ان میں ہونے والی ہار یاجیت کو اسی احساس کے طور پر قبول کرنا چاہیے،لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ مذہب خاص کے خلاف متنازع اورنفرت انگیز بیان دے کر سرخیوں میں رہنے والے انٹر نیشنل ہندو کونسل کے صدر پروین توگڑیا کو ہی دیکھ لیجیے۔انہوں نے کرناٹک کی شکست کا غصہ مسلمانوں پر اُتاردیا۔ 13مئی کو مدھیہ پردیش کے بھوپال میں واقع نرمداپورم میں ’ہندی ساتھ سمیلن‘ کی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے ڈاکٹرپروین توگڑیا نے کسی ملک کے بے لگام اور جارح سربراہ کی طرح نفرتی فرمان جاری کرکے پھر ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ نہیںہونے دینے کا ببانگ دہل اعادہ کیا ہے۔ کہا کہ ایسا قانون بنائیں گے کہ دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے مسلمانوں کو سرکاری نوکری، سرکاری اناج، سرکاری اسکول، سرکاری اسپتال میں مفت خدمات اور بینک سے قرض جیسی سہولیات سے محروم کیا جائے گا۔ وہ ہندوؤں کے لیے آئینی ترمیم لے کر آئیں گے، جس میں یہ التزام کیا جائے گا کہ ملک میں وزیراعظم، وزیراعلیٰ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، پولیس سپرنٹنڈنٹ اور وزیرجیسا عہدہ ہندو کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے شخص کو نہیں دیا جائے گا۔
پروین توگڑیا نے کہا کہ انہوں نے رام مندر بھومی کے لیے ایک کامیاب تحریک چلائی تھی۔اَب وہ ہندوؤں کو بیدار کرنے کے دوسرے مرحلے کے لیے کام کر یں گے۔ ایک کروڑ ہندوؤں کو شامل کرنے کے لیے ایک لاکھ مراکز بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے اس طرح کا بیان پہلی بار نہیں دیا ہے،اس سے قبل بھی وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کر چکے ہیں۔ 25دسمبر 2021 کو بھی پروین توگڑیا نے اترپردیش کے بدایوںضلع کے گاؤں اساواں میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت میں آبادی کنٹرول پر قانون بنانے کی بات کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے کنبے کو مفت یا سستا اناج دینا بند کرکے دیگر سہولیات سے بھی محروم کر دینا چاہیے۔ اتنا ہی نہیں ضرورت پڑنے پر ایسے افراد کے رائے دہی کے حق کو بھی سلب کرلیا جانا چاہیے۔ حکومت سے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کاشی اور متھرا معاملوں میں قانون بناکر دونوں مقامات پر مندر تعمیر کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو نصیحت بھی کی تھی۔ دو ٹوک الفاظ میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ سرکار کو ہندوتو کی بات کرنا بند کرکے کام کرکے دکھانا چاہیے۔
گزشتہ برس11 جولائی 2022کواُترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی بڑھتی آبادی پر کنٹرول کے لیے ایک طبقے کو نشانہ بناتے ہوئے بیان دیا تھا۔ اس بیان کے بعد حزب اختلاف جماعتوں کے سربراہوں کا خاموش رہنا ممکن نہیں تھا۔یوگی آدتیہ ناتھ کی تشویش یہ ہے کہ کہیں ایک طبقے کی آبادی بڑھنے کی رفتارزیادہ اوراصل رہائشی کی آبادی کو بیداری مہم کے تحت کنٹرول کردیا جائے۔ سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے پلٹ وار کرتے ہوئے کہا تھاکہ افراتفری آبادی سے نہیں، جمہوری نظام کی پامالی سے پیدا ہوتی ہے۔ سماج وادی کے رُکن پارلیمنٹ شفیق الرحمن برق کا کہنا تھا کہ اولاد پیدا کرنے کا انسان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بچے پیدا کرنے کا تعلق اَﷲ پاک سے ہے۔اَﷲ پاک بچہ پیدا کرتا ہے تو اس کے کھانے پینے کا انتظام کرکے دُنیا میں بھیجتا ہے۔ آل انڈیا مسلم اتحاد المسلمین کے لیڈر اسدالدین اویسی نے کہا تھا کہ مسلم ہی ہیں،جو انسداد حمل کے لیے برتھ کنٹرول کے سب سے زیادہ طریقوں پر عمل پیرا ہیں۔ اس کے باوجود الزام لگایا جا رہا ہے کہ مسلمان چار چار شادیاں اور ہر ایک بیوی سے پانچ پانچ بچے پیدا کرکے ملک کی آبادی کے تناسب کو بگاڑنے میں لگے ہیں۔ 5مئی 2023کو انوپ نگر میں اسی طرح کی تقریب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروین توگڑیا کہہ چکے ہیں کہ ہندوؤں کو مسلمانوں اور عیسائیوں سے خطرہ ہے۔ ہمیں اپنی حفاظت کے لیے منظم رہنے کی ضرورت ہے۔اگر ایسا نہیں ہوا تو50 برس بعد ملک میں ہندوؤں کے گھر نہیں بچیں گے۔
غور طلب ہے کہ آبادی کے لحاظ سے چین دنیا کا نمبر ایک ملک تھا،لیکن اب ہندوستان نے چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 1950کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستان کی آبادی چین سے آگے نکل گئی۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ(یو این ایف پی اے) کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان 142.86 کروڑ کی آبادی کے ساتھ چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا آبادی والا ملک بن گیا ہے۔ 1951میں ہونے والی پہلی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی آبادی 36.10کروڑ اور 2011 میں 1.20اَرب تھی۔ اس طرح ہندوؤں کی تعداد 30.04 کروڑ سے بڑھ کر 96.60 کروڑ اور مسلمانوں کی آبادی 3.50 کروڑ سے تجاوز کرکے17.80کروڑہو گئی۔ اسی دوران عیسائیوں کی آبادی 80 لاکھ سے بڑھ کر 2.80 کروڑ ہوگئی۔ اس بنیاد پر ملک میں79.08فیصد ہندو اور 14.02فیصد مسلمان ہیں۔1992میں مسلمانوں کی شرح پیدائش4.04 بچے فی خاتون اور ہندوؤں میں3.03بچے فی عورت تھی۔2015 میں مسلمانوں کی شرح پیدائش 2.06بچے فی خاتون اور ہندوؤں میں2.01بچے فی عورت رہی۔2016میں مسلمانوں کی شرح نمو2.3پر آگئی۔ مذہبی اعتبار سے بھارت میں شرح پیدائش میں واضح کمی درج کی گئی ہے۔ گزشتہ 20برسوں میں ہندوؤں کے مقابلے مسلمانوں کی آبادی میں کمی واقع ہوئی۔ 16دسمبر 2021کی ایک رپورٹ کے مطابق 1991 سے 2001کے درمیان اور 2001سے2011کے بیچ ہندوؤں کے مقابلے مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا،لیکن اِن دو دہائیوں میں ہندوؤں کے مقابلے مسلمانوں کی شرح نمو زیادہ تیزی سے کم ہوئی۔ ہندو آبادی کی شرح نمو میں گراوٹ3.1فیصد پوائنٹس کے ساتھ 19.9فیصد سے گھٹ کر 16.8فیصد رہی،جبکہ مسلم آبادی کی شرح نمو4.7فیصد پوائنٹس گر کر29.3فیصد سے کم ہوکر 24.6 فیصد رہی،جو ہندوؤںکے مقابلے کم ہے۔ ان اعداد و شمار سے اسد الدین اویسی کے مسلمانوں کے برتھ کنٹرول پر زیادہ توجہ دینے کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کا مسلمان پہلے کے مقابلے زیادہ تعلیم پسند اور بیدار ہے۔ وہ بچوں کے مستقبل کے مدنظر ان کی پیدائش کے معاملے میں ہر ممکن احتیاط برتتے ہوئے سرکار کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ کس کی آبادی بڑھ اور کس کی گھٹ رہی ہے، سوال یہ ہے کہ اس طرح کے نفرت انگیز بیانات سے صدیوں سے ساتھ رہتے آرہے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فاصلہ بڑھانے میں کوشاں آمرانہ ذہنیت کے وشو ہندو پریشد کے صدر کی حیثیت کیا ہے؟اُن کے پاس ملک کے کس عہدے کی ذمہ داری ہے ؟ کیا وہ جمہوری ملک ہندوستان کے صدر، وزیراعظم یا مرکزی وزیر ہیں؟ انہیں مسلمانوں کے خلاف فیصلہ لینے اوراُسے نافذ کرنے کا حق کس نے دیا؟ جمہوری نظام میں غیر سرکاری شخص کو اس طرح کی بیان بازی کا حق نہیں ہے۔اس سے قبل کہ کسی فرد کے ذریعہ پھینکی گئی چنگاری آگ کے شعلوں میں تبدیل ہوجائے،ایسے لوگوں کے خلاف قانون کے تحت سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]