ایم اے کنول جعفری
عدالت عظمیٰ نے بلقیس بانو معاملے میں قصورواروں کی رہائی پرجس طرح سے تنقید کرتے ہوئے گجرات حکومت پر سوال کھڑے کیے،اُن سے بلقیس بانو اورعورت کا دردمحسوس کرنے والوں کو انصاف ملنے کی اُمید ہے۔ سپریم کورٹ نے پوچھا،’’ قصورواروں کو موت کی سزا کے بعد والی عمر قیدکی سزا کیوں ملی؟ 14برس کی سزا کے بعد رہائی کیسے ہوگئی؟ 14سال کے بعد رہائی کی راحت دیگر قیدیوں کو کیوں نہیں دی گئی؟ اس معاملے میں خاص طور سے قصورواروں کو فیض کیوں پہنچایا گیا؟ ہماری جیلیں قیدیوں سے بھری پڑی ہیں،تو انہیں اصلاح کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟ بلقیس بانو کے قصورواروں کے لیے جیل ایڈوائزری کمیٹی کس بنیاد پر تشکیل دی گئی؟ جب گودھرا کورٹ نے ٹرائل نہیں کیا،تب اُس کی رائے کیوں مانگی گئی؟ کیا مجرموں کی معافی پر سی بی آئی نے منفی رائے نہیں دی تھی؟‘‘ عدالت عظمیٰ نے ایڈوائزری کمیٹی کی تفصیلات بھی طلب کیں۔ گجرات حکومت نے سپریم کورٹ کے 13مئی 2022 کے فیصلے کی بنیاد پر 11 قصورواروں کو استثنیٰ دیا تھا۔ سزا میں رعایت کے بعد مجرمین کو گزشتہ برس یوم آزادی پر رہا کیا گیا۔ بلقیس بانو کی درخواست پراَب 24اگست کو سماعت ہونی ہے۔
جسٹس بی وی ناگ رتنا اور جسٹس اُجول بھوئیاں پر مشتمل دو رکنی بنچ بلقیس بانو اور مفاد عامہ کی متعدد عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔ ان میں گجرات حکومت کے 11 قصورواروں کو چھوٹ دے کر رہا کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ انہیں2002کے فسادات میں بلقیس بانو کی آبروریزی و خاندانی افراد کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزادی گئی تھی۔ جسٹس بی وی ناگ رتنا کے مطابق بنچ یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ سزا میں چھوٹ کی پالیسی کو چنندہ طریقے سے کیوں نافذ کیا جا رہا ہے؟ اصلاح اور معاشرے سے پھر جڑنے کا موقع چند قیدیوں کو نہیں ملنا چاہیے،بلکہ یہ موقع ہر ایک قیدی کو ملنا چاہیے۔ حکومت کے پاس اعداد و شمار ہوں گے۔ گجرات حکومت کی جانب سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے جواب داخل کیا۔ راجو نے بتایا کہ قصورواروں کی رہائی اصولوں کے مطابق ہوئی ہے۔ عدالت کو معلوم تھا کہ14برس کے بعد سزا میں چھوٹ دی جاسکتی ہے۔ عدالت نے ایسی سزا نہیں دی تھی کہ قصورواروں کو 30سال بعد ہی چھوٹ دی جائے گی۔ قانون کہتا ہے کہ خطرناک مجرموں کو بھی خود کو سدھارنے کا موقع دینا چاہیے۔ اِن 11 قصورواروں کا جرم گھناؤنا تھا، لیکن یہ نایاب کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس لیے انہیں سدھرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ راجو نے کہا کہ ہو سکتا ہے کسی شخص نے اتفاقاً جرم کیا ہو۔۔۔کسی خاص لمحے میں کچھ غلط ہو گیا ہو۔ بعد میں اُسے ہمیشہ نتائج کا احساس ہو سکتا ہے۔
غورطلب ہے کہ27فروری 2002گجرات کے شہر گودھرا ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک ہجوم نے سابرمتی ٹرین کے ڈبے میں آگ لگا دی تھی۔اس میں زیادہ تر ایودھیا سے لوٹنے والے ہندو کارسیوک سوار تھے۔ اس سانحہ میں59 افراد جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد ریاست میں مسلم مخالف فسادات پھوٹ پڑے۔ کئی روز تک جاری رہنے والے فسادات میں1000سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ 3مارچ2002کو ایک ہجوم نے ضلع داہود کے گاؤں رندھیک پور پر حملہ کیا۔ بلقیس بانو کا کنبہ گاؤں سے نکل جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہجوم نے اُسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ درندوں نے21سالہ بلقیس بانوجو5مہینے کی حاملہ تھی کی اجتماعی آبروریزی کی۔ بلقیس کی والدہ اور ایک روز قبل بچے کو جنم دینے والی چچیری بہن کی بھی عصمت دری کی گئی۔ چچیری بہن، نوزائیدہ اور اس کی 3سالہ بیٹی سمیت خاندان کے7لوگوں کو قتل کردیاگیا۔ بلقیس بے ہوش ہوگئی اوردرندے اُسے مرا سمجھ کر چھوڑ گئے۔ سپریم کورٹ کے حکم پرمقدمے کو گجرات سے ممبئی منتقل کیا گیا۔ ممبئی سی بی آئی اسپیشل کورٹ نے 21جنوری 2008 کو 11 مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ ممبئی ہائی کورٹ نے بھی اسے برقرار رکھا۔ ایک کی موت کے بعدجو 11 مجرم بچے تھے،ان میں جسونت چتر بھائی نائی،گووند بھائی نائی، شیلیش بھائی بھٹ، رادھے شیام شاہ،بپن چندرجوشی، کیشو بھائی ودانیا، پردیپ مودھیا،باکا بھائی ودانیا، راجی بھائی سونی، متیش بھٹ اور رمیش بھائی چوہان شامل تھے۔ریاست گجرات کی ’ریمینشن پالیسی‘ کے تحت تمام مجرمان کو 15 اگست 2022 کو جیل سے رہاکر دیاگیا۔ زعفرانی تنظیم کے کارکنان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اجتماعی عصمت دری کے سزایافتہ مجرموں کا ہیرو کی طرح استقبال کیا۔ جیل سے باہر آئے سبھی قصورواروں کے ماتھے پر ٹیکا لگا کر آرتی اُتاری اور مٹھائی کھلائی گئی۔ قصورواروںکے گلے میں پھولوں کے ہار ڈال کر زوردار نعروں کے ساتھ کچھ اس طرح خیرمقدم کیا گیا،جیسے وہ خوفناک مجرم نہ ہوں،بلکہ کسی جنگ کو فتح کر لوٹنے والے غیرمعمولی حوصلے کے جاں باز سپاہی ہوں۔بلقیس بانو کی وکیل شوبھا گپتا نے قصورواروں کی رہائی کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں نہ تو ریاست مہاراشٹر کی بات سنی گئی اور نہ ہی مرکز کو فریق بنایا گیا۔ سپریم کورٹ کا حکم صرف رادھے شیام کی درخواست پر تھا،لیکن حکومت نے سبھی 11قصورواروں کو معافی دے دی۔ مسلم خواتین کے حقوق کی علمبردار ذکیہ سمن کا کہنا ہے کہ اجتماعی آبروریزی اور قتل کے خوفناک مجرموں کو جیل سے رہا کرنا کسی بھی نقطہ نظر سے ٹھیک نہیں ہے۔ مذہبی لگاؤ کی سیاست کے تحت زانیوں اور قاتلوں کو ہیرو بنانے کی کوشش کرنا، ہار پہنانا، سرکاری پروگرام کے اسٹیج پر بٹھانا اور پذیرائی کرنا بے حد نچلی سطح کی سیاست اور پست ذہنیت کی عکاس ہے۔ ’آلٹ چیک‘ کے صحافی محمد زبیر نے گجرات فسادات میں بلقیس بانو کے گینگ ریپ اور ان کی 3سالہ بیٹی سمیت خاندان کے افراد کے قتل کے مقدمے میں سزا یافتہ مجرم شیلیش چمن لال بھٹ کو سابق مرکزی وزیرجسونت سنگھ بھبھور اور بی جے پی رکن اسمبلی شیلیش بھبھور کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنے کی تصدیق کی۔ ریپ اور جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والی ممبئی کی تنظیم’شی سیز‘ کی سربراہ تریشا شیٹی نے اسے صرف مسلم خاتون کی نہیں،بلکہ ہر ہندوستانی عورت کی لڑائی بتایا۔ بلقیس کے شوہریعقوب رسول نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ انصاف کے لیے ان کی 18برس کی جدوجہد ضائع ہوگئی۔ مہاراشٹر کے نائب وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس نے رہائی کے بعد مجرموں کا استقبال کرنے کو غلط قرار دیا۔ترنمول کانگریس کی رہنما مہوا موئترا نے مجرموں کو واپس جیل بھیجنے کا مطالبہ کیا۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کے نائب صدر ابراہیم کوپر نے بلقیس کے ریپ اوراہل خانہ کے قاتل مجرموں کی رہائی کی مذمت کی تو کمشنر اسٹیفن اشنیک نے قبل ازوقت رہائی کو ’انصاف کا مذاق‘ بتایا۔
گینگ ریپ اور قتل کے گنہگاروں کی قبل از وقت رہائی سے دلبرداشتہ بلقیس بانو نے 30نومبر 2022 کو عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اُس نے اپنی درخوست میں کہا کہ اس طرح تمام سزا یافتہ مجرموں کو رہا کرنے سے معاشرے کا اجتماعی ضمیر اور شعور ہل گیا ہے۔ درخواست میں گجرات حکومت کے ذریعہ قصورواروں کی رہائی کے حکم کو فوری طور پر منسوخ کرنے اور بربریت کے مرتکب خاطیوں کو پھر سے گرفتار کرکے جیل میں ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کا کیا فیصلہ آتا ہے، اس بابت تو کچھ نہیں کہا جا سکتا ،لیکن فیصلے کی جانب دیکھ رہی بلقیس بانو کی چھلکتی آنکھوں کو ملک کی سب سے بڑی عدالت سے انصاف ملنے کی اُمید ضرور ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]